مذہب انسان کے لیے کتنا ضروری ہے؟

”میں نے ایک کٹر ہندو گھرانے میں آنکھ کھولی ہے مگر میں نے تقریباََتمام مذاہب کو بہت قریب سے دیکھا اور ان کا مطالعہ کیا ۔اور میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ دنیا میں مذہب کی تقسیم ختم کر کے صرف انسانیت کا ایک ہی مذہب ہونا چاہیے۔کیونکہ ہندو ،سکھ،عیسائی،پارسی اور مسلم وغیرہ ہیں تو سب انسان تو پھر ےہ الگ الگ مذاہب کیوں؟ انسان نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ اس نے اس کائنات کو مسخر کر لیا ہے تو اب انسان کی زندگی میں خدا کی کیا ضرورت ؟“۔ہزاروں لوگوں کے اس اجتماع میں سے ایک ادھیڑ عمر کے ہندو نے کھڑے ہو کر ڈاکٹر ذاکر نائیک سے ےہ سوال کیا۔اس کا جواب سن کر ڈاکٹر صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں جواب دیاجس کا خلاصہ کچھ ےوں ہے کہ صدیوں سے جنگل میں رہنے والے مختلف قبائل پر ایک تحقیق کی گئی جن کے پاس کسی الہامی ےا غیر الہامی مذہب کی کوئی تعلیم نہیں پہنچی تھی ۔مگر پھر بھی ان کے پاس ایک خدا کا تصور موجود تھا ۔جس سے ثابت ہوا کہ مذہب انسان کی فطرت میں شامل ہے۔وہ لیکچر سن کر مجھے اس وقت تو ےہ بات سمجھ نہ آئی لیکن آج کے حالات میں ےہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ مذہب انسان کے لئے کتنا ضروری ہے؟

20مارچ کو خوشی کا عالمی دن تھا مگر آدھی سے زیادہ دنیا اس وقت خوف ،دہشت اور لاچارگی کے عالم میں ہے۔میڈیکل سائنس اور جدید ٹیکنالوجی میں ترقی ےافتہ ہونے کے باوجود چین ،امریکہ اور اٹلی جیسے ممالک کورونا وائرس کے انسانی المیے سے نپٹنے سے قاصر ہیںاور آج بھی وہ طب نبوی ﷺ کے ان چودہ سو سال پرانے اصولوں پر عمل کرنے پر مجبور ہیں۔متعدی امراض پھوٹنے پر ےہ حکم ہے کہ کوئی بھی وباءزدہ علاقے کو چھوڑ کر دوسرے علاقے کی طرف نقل مکانی نہ کرے اور نہ ہی کوئی اس وباءوالے علاقے کی جانب سفر کرے (بخاری :5739)۔چین نے اسی حکمت عملی پر عمل کر کے اس عفریت سے جان چھڑائی ہے۔پھر کہا جا رہا ہے کہ صفائی ستھرائی کو اپنایا جائے جبکہ اسلام نے عام دنوں میں بھی صفائی کو دین کا لازمی جزو قرار دیا ہے (صحیح مسلم)

پچھلے دنوں خواتین کے عالمی دن کے موقع پر چند نام نہاد حقوق نسواں کی علم بردار تنظیموں نے عورت مارچ کیا۔جس میں ”میرا جسم میری مرضی “کے نام سے ایک نعرہ بھی سوشل میڈیا پر موضوع بحث بنا رہا۔اس کے بعد دنیا میں ےہ کورونا وائرس کی وباءپھوٹی تو ےہ حقیقت بھی عیاں ہو گئی کہ ےہ نعرہ انسان کی خام خیالی ہے ۔ےہ انسان کی جاہلانہ سوچ ہے کہ اب اس نے بہت ترقی کرلی ہے ۔ اب وہ اپنے جسم کا خود مالک ہے ۔اس کو کسی مابعد الطبیعات طاقت کی ضرورت نہیں رہی۔انسان تو ایک معمولی سے وائرس کو اپنے جسم میں داخل ہونے سے نہیں روک سکتا تو وہ بھلا اپنے جسم پر اپنی مرضی کرنے کا دعویٰ کیسے کر سکتا ہے۔

کورونا کے خلاف جنگ میں بھی مذہب انسان کی ضرورت ہے۔بہت پہلے مذہب اسلام نے بتایا کہ صبح جلدی اٹھنے میں انسان کی عافیت ہے،اور آج کی تحقیق کہ رہی ہے کہ صبح کا وقت انسان کی توانائی کا بہترین وقت ہے۔ہر مذہب نے مردار، شراب،جوا ،زنا اور سود کو ناپسند کیا ۔آج ان سے پیدا ہونے والی جسمانی،روحانی اور سماجی بیماریوں سے انسان آشنا ہو چکا ہے۔

الہامی ہو ےا غیر الہامی ہر مذہب انسان کو اخلاقیات کی تعلیم دیتا ہے ۔مذہب انسان کو انسانیت کی معراج تک پہنچاتا ہے۔اور پھر اسلام تو ہے ہی سراسر سلامتی کا مذہب جس میں ایک انسان کی جان ،مال اور آبرو کی قدر و قیمت کعبے کی حرمت سے زیادہ ہے۔جوجنگ کے دوران بھی دشمن کے بچوں ،عورتوں اور املاک کی حفاظت کی تاکید کرتا ہے۔جہاں پیدا ہوتے ہی بیٹی کو زندہ درگور کر دیا جاتا تھا وہاں مذہب نے ہی اس عورت کو گھر کی ملکہ بنایا۔پھر ےہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ مذہب اور انسانیت میں تفریق کی جا ئے ۔اصل میں انسان کو اپنی پہچان مذہب نے دی اور انسان کو انسان مذہب نے ہی بنایا۔جلال الدین رومی نے کہا تھا :” انسان جتنی بھی ترقی کر لے مگر انسانیت کی پناہ مذہب میں ہی ہے۔مذہب اخلاقیات اور حلال حرام کی تمیز سکھاتا ہے۔کسی بھی مذہب کا سچا پیرو کار انسانیت اور امن کے لئے خطرہ نہیں بن سکتا۔“میتھیو آرنلڈ کے بقول:”مذہب جذبات سے مزین اخلاقیات کے سوا کچھ نہیں۔“امانوئل کانٹ کے خیال میں:”مذہب کی بنیاد اخلاقیات پر ہے ۔مذہبی آدمی بڑی آسانی سے اخلاقی آدمی بن سکتا ہے اور اخلاقی آدمی بڑی آسانی سے مذہبی آدمی بن سکتا ہے۔“

اب سوال ےہ پیدا ہوتا ہے کہ انسان مذہب سے بیزار کیوں ہوا ؟ اس میں کچھ قصور اہل مذہب کا بھی ہے۔کچھ اس میں انسان کی مادہ پرستی اور تعیش پسندی کا بھی ہاتھ ہے۔اور تھوڑا سا حصہ اس سائنس اور ٹیکنا لوجی کا بھی بنتا ہے۔عام لوگوں کا خیال ہے کہ سائنس کی تعلیم انسان کو مذہب بیزار اور ملحد بناتی ہے۔ےہ صورت حال اس وقت پیدا ہوتی ہے جب مذہب کو سائنس کی کسوٹی پر ےا سائنس کو مذہب کی کسوٹی پر پرکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔جیسا کہ ماضی میں اہل کلیسا نے سائنسی نظریات کو شجر ممنوعہ قرار دیا ۔وقت کے سائنسدانوں کو سزا ئیں دی گئیں ۔پھر جب عوام نے سائنس کی ایجادات کی چکا چوند دیکھی تو وہ چرچ اور مذہب سے بیزار ہو کر خدا کے وجود سے ہی انکاری ہو گئی۔کچھ ایسا ہی حال آج امت مسلمہ کا بھی ہے۔جو اپنے ساتھ مذہب اسلام کا صرف لیبل لگا کر مطمئن ہے۔اب دوسرا سوال ےہ ہے کہ کیامسلمان الحاد کو اپنے راستے پر آگے بڑھنے دیں ےا پھر اس کی مددگارسائنس کا راستہ روکیں؟ وہ آج اہل اسلام کو دونوں محاذوں پر ہی جنگ لڑنی ہے۔الحاد کا راستہ بھی روکنا ہے اورسائنس کو الحاد کی بیساکھی بنانے سے بھی باز رکھنا ہے۔نہ سائنس کا راستہ روکنے کی ضرورت ہے اور نہ قرآن وحدیث پر شرمانے کی ضرورت ہے۔صحیح سائنس قرآن کی مخالف نہیں ہو سکتی۔جہاں پر ظاہری تضادات نظر آئیں وہاں سائنس کو حقیقت تک پہنچنے کا وقت دیں۔سائنس اور مذہب کو اپنے اپنے دائر ہ کار میں رہنے دیں۔ےہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ مذہب انسان کی فطری ضرورت ہے کیونکہ ہر ملحد اور دہریہ انسان کو بھی مرنے کے بعد کسی نہ کسی مذہبی رسم سے ہی سپرد خاک کیا جاتا ہے۔

 

Nasir Baig
About the Author: Nasir Baig Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.