وطن عزیز سمیت پوری دنیا میں پیدا ہونیوالی بیماری کرونا
وائرس نے دنیا بھر کے انسانوں کو مشکل میں ڈال رکھا ہے اور اس سے تقریباً
40 ہزار اموات ہوچکیں اور تقریباً 8 لاکھ سے زائد انسان اس بیماری کا شکار
ہو چکے ہیں. چائنہ سے شروع ہونے والی اس بیماری کو ابتدا میں دنیا کے بہت
سےمملک نے Easyلیا اور اس لاعلاج بیماری سے بچنے کےلیے ضروری احتیاطی
تدابیر اختیار نہ کیں تو نتیجتاً ان ممالک میں کرونا وائرس کا عفریت بے
قابو ہو گیا. چونکہ یہ بیماری انسانی پھیپھڑوں پر حملہ کرکے انہیں ناکارہ
بنا کر انسان کی سانس لینے کی صلاحیت کو ختم کر دیتی ہے اور اس بیماری کو
صرف وہی انسان جھیل پاتا ہے جو مضبوط اعصاب کا مالک ہو اور اس کی قوت
مدافعت بہت زیادہ ہو. اس لیے اگر کرونا وائرس کا علاج اعصاب کی مضبوطی میں
ہونے میں مضمر قرار دیا جائے تو کچھ غلط نہ ہوگا.
انسانی اعصاب ایک تو متوازن غذا, کیلشیم, وٹامنز, پروٹینز جیسے غذائی اجزاء
کی متناسب فراہمی سے مضبوط ہوتے ہیں تو دوسری طرف انسانی نفسیات ان اعصاب
کے طاقتور یا کمزور ہونے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں. انسانی جسم کے تمام
اجزاء کا ڈائریکٹ کنکشن دماغ کے ساتھ ہوتا ہے جو ہر انسانی عضو کو اس کے
فنکشنز بخوبی پرفارم کرنے کے احکامات Pulsesکی صورت میں دے رہا ہوتا ہے. اب
تمام اعضاء کے مناسب اور درست دارومدار چونکہ دماغ کے صحت مند اور چست ہونے
پر ہے اسی لیے کسی بھی دماغی خلل, چاہے وہ کسی بھی صورت میں ہو کو انسانی
جسم کی بنیادی کمزوری قرار دیا جا سکتا ہے.
پرانے وقتوں میں چونکہ صرف پرنٹ میڈیا اور ایک ہی پی ٹی وی پاکستان میں
پایا جاتا تھا. پرنٹ میڈیا تک پوری عوام کی رسائی نہ تھی اور الیکٹرانک
میڈیا یعنی پی ٹی وی حکومتی کنٹرول میں ہوتا تھا اس لیے بڑی سے بڑی مصیبت
اور وبائی صورتحال کا اثر اتنا نہیں پڑتا تھا جتنا کہ آجکل پڑتا ہے. نتیجتاً
کوئی بھی بیماری صرف انسانی جسم (وہ بھی متاثرہ شخص) پر حملہ کرتی تھی اور
باقی ماندہ افراد اس بیماری سے محفوظ رہتے تھے یا بیماری اتنے پیمانے پہ
نہیں پھیلتی تھی کہ وہ ایک انسانی المیے کی شکل اختیار کر جائے. اب جبکہ
جدید دور ہے اور اس میں پرنٹ میڈیا کے ساتھ ساتھ الیکٹرانک میڈیا جو کہ
لاتعداد ٹی وی چینلز پر مشتمل ہے اور سوشل میڈیا جوکہ اسمارٹ فونز کی وجہ
سے معاشرے کے ایک ایک فرد تک رسائی کیے ہوئے ہےتو موجودہ دور میں کرونا
وائرس کی صورت میں پھیلی ہوئی یہ وبا ایک عفریت کی شکل اختیار کر گئی ہے.
میڈیا نے اس بیماری کو اتنی Hype دی ہے کہ دنیا میں موجود ہر صاحب عقل ذی
روح ایک مکمل ذہنی دباؤ اور ہیجان کا شکار ہے. اس وجہ سے دن بدن اس وبا کا
پھیلاؤ بڑھ رہا ہے. انسانی قوت مدافعت کم اور اور اعصاب کی جنگ انسان بری
طرح ہار رہا ہے.
ذیل کی سطور میں ہم کوشش کریں گے کہ قارئین کو بتایا جائے کہ ایسی ہیجانی
صورتحال میں اس بیماری سے نفسیاتی طور پر کیسے بچا جا سکتا ہے. اگر اس
عفریت سے جان چھڑانی ہے تو حکومتی اداروں کی جاری شدہ احتیاطی تدابیر
اختیار کرنا تو انتہائی ضروری ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ مندرجہ ذیل باتوں پہ
عمل کر لیا جائے تو صورتحال کافی حد تک بہتر ہو سکتی ہے.
اپنے آپ کو ہر حد تک نیوز چینلز سے دور رکھنے کی کوشش کریں. چونکہ کرونا
وائرس ایک انٹرنیشنل لیول کی وبا ہے اور دنیا بھر کے ٹی وی چینلز اسے خاص
کوریج دے رہے ہیں. اچھا خاصا ائیر ٹائم اس وبا کو نیوز اور ٹاک شوز میں دیا
جارہا ہے. نیوز چینلز کے شوقین حضرات اس Tension کو اپنے اندر بیج کی طرح
بو رہے ہیں اور نتیجتاً نفسیاتی طور پر اس کا خوف ان کے سروں پر سوار ہو
جاتا ہے اور وہ اس بیماری کے سب سے بڑے Host بن جاتے ہیں. میرے خیال میں ہم
لوگ کرونا بارے اچھی خاصی معلومات لے چکے اور اس بارے مزید Discussions سے
دور ہی رہا جائے تو اچھا ہے.
اس مرض سے مرنیوالے افراد کی تعداد جاننا اور دوسروں تک پہنچانا آپ کی
ڈیوٹی نہیں ہے اور نہ ہی اس بیماری بارے انٹرنیٹ پر بلاجواز ریسرچ کرنا آپ
کےلیے ضروری ہے. ہو سکتا ہے آپ یا جن کو آپ بتا رہے ہیں وہ Hypertension یا
دل کے مریض ہوں اور اس کا اثر ان کے اعصاب کی قوت مدافعت کم کر دے.
اسپتالوں, اور بازار اور پرہجوم جگہوں کے خواہ مخواہ وزٹ سے گریز کریں فضول
گھومنے اور پکنک پارٹی یا فیملی Gatherings سے بھی گریز کریں.
جہاں تک ہو سکے اللہ کی عبادت کریں, نماز پڑھیں, قرآن پاک کی تلاوت کریں
اور اس کو ترجمہ کے ساتھ پڑھیں, سمجھیں اور اس پر عمل کریں. دوران عبادت,
چلتے پھرتے اور اٹھتے بیٹھتے اللہ سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگیں, نیک
اعمال کا ارادہ کریں. دوسروں کے حقوق کا خیال رکھنے, غریب غربا اور ضرورت
مندوں کی حاجات کو حتی المقدور پورا کرنے کی کوشش کریں. یقین کریں اگر
انسان بڑی سے بڑی مصیبت میں اپنے گناہوں کی معافی مانگ کر اللہ سے لو لگا
لے تو وہ رحیم وکریم ہے اور ہر مصیبت کو ٹالنے والا ہے. اللہ ہم سب کا حامی
و ناصر ہو.
|