شبِ برات کی فضیلت اور اعمال

شعبان المعظم کی پندرھویں شب کوعرفِ عام میں’’ شب براء ت‘‘ کہاجاتاہے۔ براء ت کا معنی ہے: دور ہونا،جداہونا، نجات پانا وغیرہ۔ اور اس رات اﷲ تعالی کے نیک بندے آخرت کی رسوائی و ذلت سے دور کر دیے جاتے ہیں اور بد بخت لوگ( جو اس رات کو اپنے گناہوں سے توبہ نہیں کرتے)اﷲ تعالی کی رحمتوں ومغفرتوں سے دور رکھے جاتے ہیں۔شب براء ت میں اﷲ تعالیٰ کی جانب سے رحمت ومغفرت کی اس قدربرسات کے باوجود کچھ بد نصیبوں کی توبہ کے بغیر مغفرت نہیں ہوتی،چنانچہ رسولﷺ نے فرمایا:’’اﷲ تعالی شعبان کی پندرھویں رات تجلی فرماتا ہے اور تمام مخلوقات کو بخش دیتا ہے، ما سوائے مشرک، کینہ رکھنے والے ، اسلام میں نئے فرقے بنانے والے اورچغل خور کے۔‘‘دیگر روایات میں ان لوگوں کے علاوہ کچھ اورگنہگاروں کابھی ذکرآیاہے،جومندرجہ ذیل ہیں:
(1)والدین کانافرمان(2) شرابی(3)سود خور(4) تکبر کی وجہ سے تہبندٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا(5)رشتے داروں سے بد سلوکی کرنے والا(6) قاتل(7) زانی(8) نجومی(9) میوزک ، سارنگی ، طبلہ اور ڈھول بجانے والا(10) ہمسائے کے ساتھ بدسلوکی کرنے والا(11) جادوگر، اور (12) رشوت خور وظالم سپاہی۔
ذیل میں ہم اکابرعلماومشائخ کے معمولات کی روشنی میں انتہائی حزم واحتیاط کے ساتھ اس رات میں جن کاموں کی گنجائش ہے،انھیں اس وضاحت کے ساتھ بیان کرناچاہتے ہیں کہ ا ن کاموں میں سراسربھلائی ہے،اگرکوئی کچھ کرناچاہے تویہ کام کرسکتاہے،ان کاموں کی اس رات کے ساتھ کوئی تخصیص بھی نہیں ،بلکہ سال بھرکیے جاسکتے ہیں:
٭....فقہا ئے اسلام کا اجماع ہے کہ پندرھویں شعبان کا روزہ اور شب بیداری مستحب ہے۔
٭....اس رات قبرستان جانا سنتِ نبوی ہے۔ تاہم قبرستان جاناصرف مردوں کے لیے اورانفرادی طورپرہے۔اجتماعی شکل میں قبرستان جانا،وہاں میلے کاساسماں برپاکرنانیزمردوزن کااجتماع حدیث کے خلاف اورمتعددکبائرکامجموعہ ہونے کی وجہ سے قطعاًجائزنہیں۔
٭....بعض روایات کے مطابق: چونکہ شب براء ت کو سال بھر کے اعمال اﷲ تعالی کی بارگاہ میں پیش کیے جاتے ہیں۔ لہٰذا شب براء ت کو والدین، بھائیو ں ، بہنوں، رشتے داروں، ہمسایوں اور دیگر لوگو ں سے اپنی زیادتیوں کی معافی مانگ لینی چاہیے، اور اگر کسی کا کو ئی مالی حق ذمے میں باقی ہو تو اسکی ادائیگی کر دینی چاہیے، یا پھر صاحب حق سے معافی مانگ لینی چاہیے۔
٭.... اس شب میں ربِ غفور سے اپنے تمام گناہوں کی معافی مانگ لینی چاہیے۔ یادرہے کہ توبہ کے لیے چار چیزیں ضروری ہیں،جن کااہتمام والتزام کرکے ہی بارگاہ رب العزت سے معافی اورآئندہ کے لیے گناہوں کوچھوڑنے کی توفیق مل سکتی ہے:
1۔ رب کریم کی بار گاہ میں گنا ہو ں کا اعتراف۔2۔ گذشتہ گناہوں پر سخت ندامت اور آہ وزاری۔3۔ آیندہ گناہ نہ کرنے کا پختہ اور سچا وعدہ۔4۔ گناہوں کی تلافی۔ مثلاً: نمازیں نہیں پڑھیں، تو حساب یا اندازے سے بالغ ہونے کے بعد کی تمام فر ض اور واجب نمازوں کی قضا، اسی طرح رمضان کے روزوں کی قضا، اسی طرح جتنے بر س کی زکو ٰۃادا نہیں کی ،حساب یا اندازے سے اس کی ادائیگی۔

٭....بعض روایات کے مطابق :اﷲ تعالی فرشتوں کو سال بھر کا پروگرام دے دیتے ہیں، اس میں موت و حیا ت، اعمالِ نیک و بد، ہر قسم کے رز ق اور انعامات، مصائب و آلام اور بیماریوں کا پروگرام بھی دیا جاتا ہے، لہٰذا اس شب کو اﷲ تعالی سے دنیا و آخرت کے خیر و برکت کی دعا ئیں مانگنی چاہییں۔اس وقت جب تک سارا عالم ایک وبا کی لپیٹ میں ہے اور اس کی وجہ سے سماجی رابطے،اقتصادی ومعاشی سرگرمیاں اور تعلیمی وکاروباری اموت؛غرض تقریباًسارا ہی نظامِ زندگی معطل ہے،خوب رو روکراورگڑگڑاکراﷲ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہیے کہ وہ اس وبا سے سارے عالم کو پاک کردے اورجلد عافیت عطا فرمائے۔

اس رات کوبدقسمتی سے آتش بازی اورپٹاخوں کی رات بنادیاگیاہے،انتہائی افسوسناک ،قابلِ مذمت اور غیر اخلاقی و غیر شرعی امر ہے کہ بجائے عبادت کے اس مقدس و بابرکت شب کو محض آتش بازی اور پٹاخوں کی گھن گرج کی نذر کر دیا جاتا ہے ۔یاد رکھیے!یہ عمل مختلف گناہوں کا باعث ہے:اول تویہ کہ آتش بازی کھلا اسراف و فضول خرچی ہے۔دوسرے یہ کہ آتش بازی سے عبادت گزاروں کی عباد ت، علما وطلبہ کی تعلیم وتعلم، بیماروں، بوڑھوں اور تھکے ماندے لوگوں کے آرام و نیند میں خلل پڑتا ہے، جو کہ ظلم و زیادتی ،عبادات کی سخت تو ہین اور علم کا نقصان ہے۔تیسرے یہ کہ آتش بازی سے بسااوقات دکانوں، گھروں اور قیمتی اشیا کو آگ لگ جاتی ہے، اور ہر سال درجنوں لوگوں کی جانیں ضائع ہو جاتی ہیں۔ لہٰذا آتش بازی’’فساد فی الارض‘‘ہے۔نیز آتش بازی کے بہانے بچے شب بھر گھروں سے باہر رہتے ہیں،جس کی وجہ سے ان کے غلط ماحول اور غلط سو سائٹی سے متاثرہونے اور جرائم اور کبیر ہ گناہو ں کاعادی بن جانے کا قوی اندیشہ ہے، لہٰذا ان وجوہات کے پیش نظرآتش بازی جیسے سخت خطرناک ا ور حرام فعل سے اپنی نئی نسل کوبچاناہم سب کافریضہ ہے۔

حاصل یہ کہ اگر کوئی شخص انفرادی طور پر اس رات ذکر و عبادت میں مشغول ہوتا ہے کہ اس کے عقائد کی تطہیر اور اخلاقی رفعت کا باعث بنے اورکسی خاص عبادت وغیرہ کاالتزام نہیں کرتا،توکوئی حرج نہیں۔ تاہم رات بھرجاگ کرعین فجرکے قریب سوجانے اورفجرکی نمازقضاکرنے سے یہ لاکھ درجے بہترہے کہ عشاکی نمازجماعت سے اداکرکے سوجائے اورفجرکی نمازجماعت سے اداکرے،حدیث میں ایسے شخص کے لیے بھی شب بیداری کاثواب بیان کیاگیاہے۔اسی طرح پندرہ شعبان کا روزہ بھی طاعثِ ثواب ہے،کیونکہ پندرہ تاریخ ایام بیض میں شامل ہے اور حضور اکرم ﷺ ایام بیض کے روزوں کا اہتمام فرمایا کرتے تھے ،اسی طرح شعبان کے مہینے میں حضوراکرم ﷺاورمہینوں کے مقابلے میں زیادہ نفلی روزے رکھا کرتے تھے،اس لیے اس دن کے روزے کا بھی اہتمام کرنا چاہیے۔

نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی شب براء ت آئی ، صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین کا زمانہ بھی گزر گیا،تابعین و ائمہ اربعہؒ کا زمانہ بھی گزر گیا ، لیکن کسی سے بھی شب براء ت کا حلوہ ، آتش بازی ، مردوں کی فاتحہ خوانی وغیرہ ثابت نہیں۔ لہٰذا مسلمانوں کو اس قسم کی تمام بدعات سے اجتناب کرتے ہوئے سنت کو مشعلِ راہ بنانا چاہیے، جو راہ نجات ہے۔ اﷲ تعالی بدعات سے محفوظ فرمائے- آمین!

M Jehan Yaqoob
About the Author: M Jehan Yaqoob Read More Articles by M Jehan Yaqoob: 251 Articles with 307886 views Researrch scholar
Author Of Logic Books
Column Writer Of Daily,Weekly News Papers and Karachiupdates,Pakistanupdates Etc
.. View More