آمدِ رمضان مبارک..!

رمضان کی آمد آمد ہے.. یہ وہ مہینہ ہے جس کے آنے سے دو دو مہینے پہلے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس تک پہنچنے کی دعاؤں اور تیاریوں میں مشغول ہوجایا کرتے تھے.. معاملات مختصر اور عبادات بڑھا دیا کرتے تھے.. احادیث کے مطابق آپ علیہ السلام رمضان کے انتظار میں شعبان کے دن گنا کرتے تھے.. امی جان عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رمضان آتا تو جناب تہہ بند کس لیتے تھے.. بستر پر کم ہی تشریف لاتے.. نبی تو سَال بھر وہ عبادت کرتے تھے جو ہم رمضان میں بھی نہیں کرسکتے تو رمضان میں اس قدر اہتمام کیوں.. احادیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال جبریل علیہ السلام کے ساتھ قرآن کے دو دور کیا کرتے تھے.. ایک بار حضور سناتے تو جبریل سنتے دوسری بار جبریل سناتے تو حضور سماعت کرتے.. صحابہ میں عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور کئی صحابہ سے رمضان میں یومیہ ایک ایک قرآن تلاوت کرنے کے معمول موجود ہیں.. یعنی کہ رمضان میں قرآن شریف تیس دفعہ مکمل کرلیا کرتے تھے اور ایک تراویح میں اس طرح اکتیس قرآن پڑھ لیا کرتے تھے..ماضی قریب میں شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب رحمہ اللہ کا بھی یہی معمول تھا اور اس دور میں بھی الحمد للہ ایسے لوگوں کو میں جانتا ہوں جو باقاعدہ مقابلے کرتے ہیں کہ کون زیادہ قرآن مکمّل کرتا ہے.. ہم اپنے بڑوں کے متعلق سنتے تھے کہ وہ دو رکعتوں میں یا ایک آیت پڑھتے روتے رات گزار دیا کرتے تھے تو سب اوپری باتیں لگتی تھیں لیکن آج اگر ہم اپنے موبائل دیکھ لیں تو اس سب کو سمجھنا بہت آسان ہوجائے گا.. بس ترجیحات کی بات ہے.. ان کی اولین ترجیح اللہ کو راضی کرنا ہوتا تھا اللہ سے راز و نیاز کی باتیں کرنا ہوتی تھی اور ہماری ترجیح whatsapp, Netflix, YouTube, Facebook وغیرہ ہیں.. مجھے اپنے بچپن کا دھندلا سا منظر یاد ہے جب رمضان سے پہلے امی رمضان اور عید کی ساری خریداری کرلیتی تھیں.. اہتمام کے ساتھ گھر کی صفائی شروع ہوجاتی تھی جائے نمازیں خوشبو والے صابن سے دھوئی جاتی تھیں.. پورا سال ٹوپی پہنتے پہنتے رمضان کے موقع پے نئی ٹوپی ملا کرتی تھی.. اس کی خوشی ہی الگ ہوتی تھی.. بیٹھک کے ساتھ ساتھ کمروں میں بھی قرآن آجایا کرتے تھے.. ٹی وی تو تھا ہی نہیں لیکن کمپیوٹر پر بھی چادر ڈل جایا کرتی تھی جو بعد ازاں بڑی ضد کے بعد صرف تھوڑی دیر کے لئے ہٹتی تھی.. کچھ ہوتا تھا تو تلاوت ہوتی تھی.. مسجدوں میں حلقے لگتے تھے.. ایک دوسرے کی مدد ہوتی تھی.. لاشعوری طور پے بچپن کا جو دور ہمیں ملا اس نے ہماری تربیت میں بہت فائدہ دیا.. بڑوں سے تعلق، میدانوں کی دوستی گلی کے کھیل سستی اور خالص چیزیں دراصل ایک احساس تھیں جو صرف محسوس ہوتی ہیں.. افسوس کہ ہماری موجودہ نسل جو اس دور میں پروان چڑھ رہی ہے وہ اس گرم لمس سے محروم ہے جو ہمارے بڑے ہمارے سروں پر ہاتھ پھیرتے رکھتے تھے.. کرونا وائرس کی وجہ سے ابھی عورتیں بھی گھروں میں فارغ ہیں اور مرد بھی.. وقت پے کام کرنے والے دنیا و آخرت دونوں میں کامیاب ہوتے ہیں.. گھر میں بیٹھے بیٹھے کرونا سے متعلق معلومات لیتے اور پھیلاتے آپ کسی فائدے میں نہیں ہیں.. اس سے اچھا یہ ہے کہ رمضان کے لئے خود کو تیار کریں.. پورا سال بسیار خوری کرتے کرتے مسلسل منہ چلانے کی عادت ہوتی ہے.. کبھی پان ہے کبھی ببل کبھی کچھ تو کبھی کچھ.. ایک وقت کا کھانا کم کریں.. تلاوت کا معمول بنائیں.. عام طور پے پندرہ منٹ میں ایک پارہ مکمل ہوجاتا ہے.. غیر حافظ کو بیس منٹ لگیں گے.. اگر ہر نماز میں آذان کے وقت مسجد چلے جائیں تو یومیہ پانچ سپارے اور رمضان میں چھ قرآن مکمل ہو سکتے ہیں.. حفاظ حضرات مزید ہمت کریں اور دس قرآن کا ارادہ کریں.. آرام سے مکمل ہوجاتے ہیں.. بعض لوگوں کے لئے فجر میں تلاوت مشکل ہو تو ایسے لوگ عصر کے بعد مزید بیس منٹ بیٹھ کے اپنا معمول پورا کرلیں.. خواتین عصر کے وقت خانہ داری میں مصروف ہوتی ہیں تو وہ اپنے عصر کے بیس منٹ ظہر کے وقت پورے کرلیں..کرونا جہاں ہر طرف انتشار پھیلا رہا ہے وہاں سکون اور امید کی ایک کرن ہمیں رمضان کی صورت نظر آ رہی ہے.. اس رمضان تو بس اللہ کو اپنا لیں.. رو کر گڑگڑا کر..جیسے بھی ہو اپنے اللہ کو منائیں.. چند ایک کام جو بڑوں سے معلوم ہوئے کہ ان کے رمضان کے معمولات ہیں.. وہ معمولات رمضان میں کر کے آپ بھی اپنے لئے اس رمضان کو شاندار رمضان بنا سکتے ہیں وہ میں لکھے دئیے دیتا ہوں تاکہ ہم سب اس پے عمل کر سکیں اور ان لوگوں میں شامل ہونے سے بچ جائیں جن کے لئے حضور نے فرمایا جس کا مفہوم یہ ہے کہ ہلاک ہو جائے وہ شخص جس نے رمضان کا مہینہ پایا(جو کہ لمحہ لمحہ رحمت ہے) اور پھر بھی اپنی مغفرت نہ کرا سکا..1_اپنی خوراک کم کریں.. اس سے روزے رکھنے میں آسانی ہوگی اور بوجھ نہیں محسوس ہوگا.. معمولی سے فرق سے آپ پر سکون انداز میں روزے رکھ سکیں گے..
2_تلاوت کا معمول بنائیں.. گھر میں ایک قرآن مخصوص کرلیں کہ میں نے اس میں تلاوت کرنی ہے اس کی جگہ بھی آپ کو پتہ ہو اور وقت بھی طے ہو کہ اس وقت تلاوت کروں گا.. رمضان کی سب سے پہلی فضیلت جو قرآن نے بتلائی ہے وہ نزولِ قرآن ہے.. اس رمضان قرآن سے تعلق بنائیں..
3_ اپنے ساتھ کسی ایک فرد کو اپنا ساتھی بنائیں جو مسجد ساتھ جائے.. معمولات اسی ساتھ پورے کریں.. اس سے خود بخود پابندی ہوجاتی ہے اور دوسرے کی نیکیوں میں بھی برابر کی شراکت رہے گی..
4_ اپنا ہدف بنائیں کہ روزانہ کی بنیاد پر اتنے نوافل پڑھوں گا اور اتنے پارے پڑھوں گا.. اس سے پھر نہ زیادہ کریں نہ کام.. عام طور پر ایک دن میں زیادہ کروا کر شیطان پھر اگلے دن کچھ بھی نہیں کرنے دیتا.. کوشش کریں زیادہ کرنے کی لیکن طے کریں اور روزانہ کریں..
5_ میل جول کم کردیں.. دوستوں رشتے داروںکے ساتھ بات کرتے کرتے اکثر غیبت، جھوٹ اور غلط بیانی جیسے گناہ سرزد ہوجاتے ہیں جو روزے اور اس کے روحانی فوائد کے لئے زہر قاتل ہیں..
6_صدقہ دینے کا معمول بنائیں.. رمضان میں ہر عمل ستر گنا تک بڑھ جاتا ہے.. اور اللہ تو بے شمار دینے والا ہے.. ہم لینے والے بنیں.. 7_موبائل فون سے دوری اختیار کریں.. مشکل ضرور ہے لیکن نا ممکن نہیں.. سوشل سائٹس پے بیانات سننے کے بجائے اپنی مسجد محلے کے تعلیمی حلقوں میں جڑیں یا انفرادی عبادت میں وقت گزاریں.. موبائل اگرچہ خود گناہ نہیں لیکن عام طور پے اس سے گناہ صادر ہو ہی جاتے ہیں.. لا شعوری طور پے وہ کام جنہیں ہم گناہ سمجھتے ہی نہیں یا ہم چاہتے ہی نہیں اور وہ چیزیں سامنے آجاتی ہیں..تو دو پیسے کے موبائل کی خاطر اپنے آخرت کے اعمال کو ضائع مت جانے دیں..
8_ اپنے ارد گرد کسی اللہ والے عالمِ دین سے تعلق بنائیں ان سے رہنمائی لیں.. اس کے اثرات آپ خود محسوس کریں گے..
9_آپ کے قریبی دوست احباب جن سے آپ ناراض ہیں انہیں معاف کر کے ان سے تعلقات بہتر بنائیں.. کوئی پھل یا رمضان کی کوئی سوغات روح افزا وغیرہ لے جا کے دے دیں.. اور جو آپ سے ناراض ہیں تو آپ پہل کر کے انہیں منالیں اور بشارت نبوی پائیں کہ جس شخص نے حق پر ہوتے ہوئے اپنا حق چھوڑا میں محمد جنت کے بیچو بیچ اس کے لئے محل کا ضامن ہوں..
10_ آپ کے اڑوس پڑوس رشتے داروں میں جو لوگ سفید پوش ہیں انہیں ان کے سفید پوشی کے بھرم کے ساتھ ہی رمضان سوغات یا عید کی سوغات کہہ کر انہیں خوشیاں بانٹیں.. اور اگر ان میں سے کوئی بھی مستحق نہیں تو الحمدللہ.. اب آپ کے محلے کی مسجد اور مدرسے کے امام اور طلباء جن میں سے بعض عید کے موقع پر بھی صرف غربت کی وجہ سے گھر نہیں جا پاتے.. ان کی مدد کریں.. اور آخر میں سب سے اہم بات.. یہ بات سب سے پہلے ہونی چاہیے تھی لیکن رہ گئی.. آپ کا ہر عمل خالص اللہ کی رضا کے لئے ہو نہ کسی کو بتائیں نہ کسی کو جتائیں.. آپ جو کریں اس میں مقصود محض اللہ کی رضا ہو.. خاص طور پر گھر کی خواتین.. وہ اللہ کی بندیاں روزے سے بھی ہوتی ہیں سارے کام کاج بھی کرتی ہیں بلکہ ان کے کام تو بڑھ جاتے ہیں تو خدارا ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کریں.. ہمیں یہی تعلیم دی گئی ہے.. ان کا ہاتھ بٹائیں حوصلہ افزائی کریں.. اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو.. آمدِ رمضان مبارک..!
 

محمد عمر صدیقی
About the Author: محمد عمر صدیقی Read More Articles by محمد عمر صدیقی: 3 Articles with 4125 views کہانیوں اور افسانوں میں جو کردار لکھے جاتے ہیں نا.. میں اس کا بالکل برعکس ہوں..! .. View More