شب برات کا تہوار عجب تہوار ہوتا کہ جس کا انتظار ہم سب
کو سارا سال رہتا۔
دن چڑھتے ہی گھر گھر میں چاہت اور محبت سے حلوے جات کی تیاریاں شروع
ہوجاتیں۔بیسن سوجی اور چنے کی دال کے انواع و اقسام کے حلوے بادام؛ پستہ؛
زعفران سے مزین ،چاندی کے اوراق سے ڈھک کر خوبصورت طباقوں میں سجائے
جاتے۔شام کا سماں ہوتے ہی آنگن میں سوندھی مہکتی خوشبوئیں بکھر جاتیں ۔
نانیاں دادیاں بہو بیٹوں کی ان تیاریوں پر کڑی نگراں ہوتیں۔ ننھے ننھے بچے
نئے نئے کپڑے پہنے محلے بھر میں ان حلووں کی سوغاتیں بانٹتے دکھائی
دیتے۔ساتھ ساتھ سماعتوں کو چیرتا پٹاخوں کا شور ، پھلجڑیوں کی چکا چوند اور
مساجد سے مولوی صاحبان کی حمد و ثنا کی مترنم آوازیں فضا میں باہم مدغم
ہوکر رگ و پے میں انسباط و مسرت کا پر لطف احساس پیدا کرتیں۔
مرد حضرات رات میں اپنے وفات شدہ عزیزوں کی فاتحہ خوانی کیلئے قبرستانوں کا
رخ کرتے ۔چونکہ اکثریت یہ اہتمام سالانہ بنیادوں پر کرتی اسلیئے اپنے
پیاروں کی قبروں کو ڈھونڈنے ہی میں رات کا بیشتر حصہ صرف یوجاتا۔
قبرستان میں رنگ و نور کا سیلاب بپا ہوتا ۔ قبروں پر پانی ڈالبے والے
مجاوروں اور بھکاریوں کی یلغار ، دبی دبی سسکیاں ، ،پر سوز لہجوں میں تلاوت
قران، گلاب کی تازہ پٹیوں اور لوبان کی اگربتیوں کی بھینی خوشبو ،قبروں کی
گیلی مٹی کی خوشبو کے ساتھ شامل ہوکر ماحول پر ، پراسرار و پر کیف وجد طاری
کردیتی ۔
اپنے پیاروں کی یاد اور انکی روح کی موجودگی کا احساس وجود میں ٹھنڈک کی
طرح اترتا محسوس یوتا۔
یہ شب رمضان کے مقدس میہنے کی آ مد کا اعلان بھی تصور ہوتا ۔بزرگ رمضان کی
تیاریوں میں مشغول یوجاتے غرض شب برات ایک مزہبی تہوار کے طور پر دھوم دھام
سے منایا جاتا۔
مگر توجہ طلب نکتہ یہ ہے کہ شب برات یعنی نجات کی رات،اپنے گناہوں سے توبہ
تائب ہونے کی یہ شب ، شبرات کا تہوار کیسے بنی ۔اس کے لیئے ہمیں ہندوستان
میں مسلمانوں کا سماجی منظر جاننا ضروری ہے۔
ہندوستان صدیوں سے ہندو مت کا پیروکار تھا۔ہندو مت رسوم و رواج کے مجموعہ
کا نام ہے۔ہر انسان رسموں کی ڈوری میں بندھا ہوتا ہے ۔ان رسوم سے جان
چھڑانا اس کے بس میں نہیں ۔اس خطے میں اسلام کا پیغام صوفیاء اور اولیاء کے
فیضان نظر سے ممکن ہوا۔
ان صوفیاء کا کمال یہ تھا کہ انھوں نے ہمارے دین کو لوگوں کے لیے آسان اور
سہل بنا کر پیش کیا۔ ان صوفیا کو علم تھا کہ برصغیر میں لوگوں پر رسموں و
رواج کی گہری چھاپ ہے ان کو یکدم اس سے علحیدہ کرنا اسان نہیں ۔
چنانچہ ان عظیم لوگوں نے اسی سماجی ڈھانچے میں رہتے ہوئے توحید کی روح کو
اسمیں سمودیا۔ نیتوں کی اصلاح کی اور اسمیں اخلاص کو شامل کر دیا ۔
ہندوستان میں دیوالی ایک قدیم ہندو تہوار تھا جسے ہر سال موسم بہار میں
منایا جاتا ہے۔ دیوالی صرف دییوں کا تہوار نہیں بلکہ پٹاخے، رنگولی،
مٹھائیاں، جذبات سے بھرپور تہوار ہوتا ہے جس میں سارا خاندان دوست احباب
ایک جگہ جمع یوتے۔
یوں ان تازہ مسلمانوں نے اسلام کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے دین اور رواج کو
باہم مدغم کر لیا اور یوں ایک نئی ہنوستانی اسلامی تہزیب نے جنم لیا۔
ایسی تہذیب جہاں مبارک رات میں ذکر الہی بھی تھا اور صدیوں کی روایات پٹاخے
چراغاں مٹھائی اور حلوے کی سوغاتیں بھی ۔پکوان پکانا بھی اور کھلانا بھی ۔
مگر اب ہم ایک علحیدہ اسلامی مملکت حاصل کرچکے ہیں مذہبیevoluation ارتقا
کو زمانہ گزر چکا ہے۔ہمیں اسلام کی اصل روح و تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی
ضرورت ہے۔
شب برات کی متبرک رات میں ہماری زندگی رزق اور قسمت کا فیصلہ ہوتا ہے ۔رات
کے یہ مختصر لمحے اللہ کو راضی کرنے میں صرف کریں ۔خطاووں پر شرمسار ہوں
اور گناہوں پر پشیمان ۔توبہ کریں ندامت کے انسو بہائیں اپنے رب کو راصی
کرلیں ۔وہ راضی ہوگیا تو آپ کی قسمت سنور جایے گی۔راحت و چین و سکون عطا ہو
گا۔
حلوے پکوان ،مٹھائی اور پٹاخوں کا بھی اپنا لطف تھا ان رسموں کو جشن آزادی
کے دن کیلئے مخصوص کردیں ۔پر لطف روایات بھی قائم رہیں گی اور مزہبی ایام
کا تقدس بھی پامال نہیں ہوگا۔۔
حقیقت خرافات میں کھو گئی
یہ امت روایات میں کھو گئی
محمد منور سعید
|