دَجال (حقیقت و علامت)


دَجال ۔۔۔جھوٹا ،فریبی،اسے مسیح الدجال اور کذاب کہتے ہیں ۔قرآن میں اس کا ذکر نہیں ہے۔لیکن احادیث بخاری ،مسلم،ابن ِماجہ،ابن داود،ابن حنبل اور ترمذی میں تفصیلات موجود ہیں۔بس اہم یہ ہے کہ " کوئی نبی ایسا نہیں جس نے اپنی قوم کو اُس سے ڈرایا نہ ہو" ۔۔۔۔ مزید احادیث میں نبی ﷺ نے جو دَجال کے بارے میں فرمایا ہے اُس میں سے چند اہم نقات مندرجہ ذیل ہیں:۔۔۔۔

دَجال (حقیقت و علامت)

دَجال (حقیقت و علامت)

دَجال ۔۔۔جھوٹا ،فریبی،اسے مسیح الدجال اور کذاب کہتے ہیں ۔قرآن میں اس کا ذکر نہیں ہے۔لیکن احادیث بخاری ،مسلم،ابن ِماجہ،ابن داود،ابن حنبل اور ترمذی میں تفصیلات موجود ہیں۔بس اہم یہ ہے کہ " کوئی نبی ایسا نہیں جس نے اپنی قوم کو اُس سے ڈرایا نہ ہو" ۔
بخاری شریف :
جلد سوئم: پارہ 29 : کتاب ا لفتن : باب 1132 میں دجال کا ذکر حدیث نمبر :1995 تا2005 میں تفصیل کے ساتھ درج ہے۔جن میں سے ایک حدیث نمبر :1999 میں دَجال کے بارے میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا :"میں سویا ہوا تھا کہ خواب میں اپنے آپ کو خانہ کعبہ کا طواف کرتے ہوئے دیکھا۔چنانچہ گندمی رنگ اور سیدھے بالوں والے ایک آدمی کو دیکھا کہ اُس کے سر سے پانی ٹپک رہا ہے۔میں نے کہا کہ یہ کون ہے؟لوگوں نے کہا کہ حضرت ابن ِمریم (حضرت عیسیٰ ؑ)۔پھر جاتے ہوئے میں اُدھر توجہ کی تو ایک موٹے تازے آدمی کو دیکھا ،جس کا رنگ سُرخ ،بال گھنگریالے اور آنکھ سے کا نا تھا۔گویا اُس کی آنکھ پکے ہوئے انگور کی طرح تھی۔لوگوں نے کہا یہ دَجال ہے۔جو لوگوں میں سب سے زیادہ بنو خزاعہ کے ایک شخص ابن قطن کے ساتھ مشابہت رکھتا تھا"۔
ٓ مزید احادیث میں نبی ﷺ نے جو دَجال کے بارے میں فرمایا ہے اُس میں سے چند اہم نقات مندرجہ ذیل ہیں:
۱) دَجال کانا ہے۔اُس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لفظ کافر لکھا ہو ا ہے۔
۲) اُسکے فتنے سے پناہ مانگی ہے۔
۳) مدینہ منورہ کے راستوں سے اندر داخل ہونا اُس پر حرام ہو گا۔
۴) ہر نبی نے اپنی قوم کو اُس ڈرایا۔
دَجال کا حُلیہ و آمد:
اسطرح باقی مُستنداحادیث کی کُتب میں بھی دَجال کے بارے میںجو معلومات ملتی ہیںاُنکو سامنے رکھتے ہوئے" اُردُو انسائیکلو پیڈیا " تیسرا ایڈیشن شائع فیروز سنز میں دَجال کے بارے بڑے مختصر الفاظ میںبیان کیا گیا ہے کہ !
دَجال کا رنگ سرخی مائل اور جسم بھدا ہو گا۔صرف ایک آنکھ ہو گی۔پیشانی پر کافر لکھا ہو گا۔گدھے پر سوار ہو گا اور خراسان یا اصفہان کی طرف سے آئے گا۔اس کے پیرو منافق اور بے دین ہو نگے۔وہ لوگوں میں خوراک،پانی اور آگ تقسیم کرے گا۔اس کے آنے سے پہلے کا زمانہ بہت سخت ہو گا اور لوگوں کی اخلاقی و مذہبی حالت بہت بگڑ چکی ہو گی۔وہ تمام دُنیا فتح کرے گا۔مگر مکہ ،مدینہ نہ فتح کرے گا اور نہ اُن شہروں میں داخل ہو سکے گا۔چالیس دن یا چالیس سال کی حکمرانی کے بعد بالآخر حضرت عیسیٰ ؑاس کو شام یا فلسطین میں ہلاک کریں گے۔عیسائیوں کی قدیم کُتب میں انہی صفات سے متصف ایک فوق الانسان کے حالات بیان کیئے گئے ہیںاور موجودہ دور کے عیسائی بھی اس کے خروج پر اعتقاد رکھتے ہیں۔
قرآن مجید کی المشہور تفسیر تفھیم القران :از:ابو الاعلیٰ مودُودی: جلد چہارم طبع ِاول 1966ئ:صفحہ نمبر :154 تا 169 :موضوع:"مسیح ِموعود کی حقیقت" کے بارے میں مولانا صاحب نے مُستنداحادیث کی کُتب کے حوالوں سے ایک طرف دَجال کے متعلق جامع انداز میں بیان کیا ہے اور دوسری طرف موجودہ دور میں مسلم دُشمن عناصر کی اُن سرگرمیوں کا بھی ذکر کیا ہے جن کا تعلق دَجالی سے معاملات سے نتھی ہوا نظر آتا ہے۔
مولانا ابو الاعلیٰ مودُودی :
نے جلد چہارم صفحہ نمبر:165اور166 میں جو تحریر کیا ہے اُس کا خلاصہ کچھ اسطرح ہے کہ،
" دَجال جس کے فتنہ ِعظیم کے استیصال کیلئے حضرت عیسیٰ ؑ کو بھیجا جائے گا،یہودیوں میں سے ہو گااور اپنے آپ کو "مسیح "کی حیثیت میں پیش کرے گا۔ اس معاملے کی حقیقت کو کوئی نہیں سمجھ سکتا جب تک وہ یہودیوں کی تاریخ اور اُنکے مذہبی تصورا ت سے واقف نہ ہو۔حضرت سلیمان ؑکی وفات کے بعد جب بنی اسرائیل تنزلی کا شکار ہوتے چلے گئے اور" بابل اور اسیریا" کی سلطنتوں نے اُنھیں غلام بنا کر تتر بتر کر دیا تو انبیائِ بنی اسرائیل نے یہودیوں کو خوشخبری دی کہ خدا کی طرف سے ایک" مسیح" آنے والا ہے جو اُنکو اس ذلت سے نجات دلوائے گا۔اسطرح یہودیوں نے سمجھا کہ وہ ایک بادشاہ ہو گا جس کے ساتھ ایک بہت بڑا لشکر ہو گا جو اُنکے لیئے فتوحات کر کے فلسطین میں ایک بڑی حکومت قائم کر ے گا۔
لیکن حضرت عیسیٰ ؑ کی پیدائش سے اُنھیں مایوسی ہوئی کیونکہ وہ خدا کی طرف سے مسیح تو ہو کر آئے لیکن اُنکے ساتھ کوئی لشکر نہیں تھا۔بہرحال اُنھوں اُنکی مسیحیت سے انکار کر دیا اوراُنکو ہلاک کروانے کی کوششیں شروع کر دیں۔اُس وقت سے آج تک یہودی اُس " مسیح ِموعود"کے منتظر ہیںجو ایک زبردست سیاسی و جنگی لیڈر ہو نے کے باعث دریائےِ نیل سے فرات تک کا علاقہ (جس کو یہودی اپنی میراث کا ملک سمجھتے ہیں)اُنھیںواپس دلوائے گا اور دُنیا کے گوشے گوشے سے یہودیوں کو لا کر اس ملک میں پھر سے جمع کر دے گا۔
اب اگر کوئی شخص مشرق وسطی کے حالات پر نگاہ ڈالے اور نبی ﷺکی پشین گوئیوں کے پس منظر میں ان کو دیکھے تو فوراًیہ محسوس کرے گا کہ اُس دَجال اکبر کیلئے اسٹیج بالکل تیار ہو چکا ہے۔جو حضور ﷺ کی دی ہوئی خبروں کے مطابق یہودیوں کا" مسیح ِموعود" بن کر اُٹھے گا۔فلسطین کے بڑے حصے سے مسلمان بے دخل کیئے جا چکے ہیں او روہاں اسرائیل کے نام سے ایک یہودی ریاست قائم کر دی گئی ہے۔امریکہ ،برطانیہ اور فرانس نے اس کو ایک زبردست جنگی طاقت بنا دیا ہے اور یہ طاقت گرد و پیش کی مسلمانوں قوموں کیلئے ایک خطرہ ِعظیم بن گئی ہے۔ اُن کی طرف سے مستقبل کی یہودی سلطنت کا نقشہ یہ ظاہر کر تا ہے کہ وہ پورا شام ،پورا لبنان،پورا اُردن اور تقریباً سارا عراق لینے کے علاوہ تُرکی سے اسکندر ون ،مصر سے سینا اور ڈیلٹاکا علاقہ اور سعودی عرب سے بالائی حجاز و نجد کا علاقہ لینا چاہتے ہیںجس میں مدینہ منورہ بھی شامل ہے۔
ان حالات کو دیکھتے ہوئے صاف محسوس ہوتا ہے کہ آئندہ کسی عالمگیر جنگ کی ہڑ بونگ سے فائدہ اُٹھا کر وہ ان علاقوں پر قبضہ کرنے کی کوشش کریں گے اور ٹھیک اُس موقع پر وہ مسیح ِموعود بن کر اُٹھے گا ۔جس کے ظہور کی خبر دینے پر ہی نبی نے اکتفا نہیں فرمایا بلکہ یہ بھی بتا دیا کہ اس زمانے کے مسلمانوں پر مصائب کے ایسے پہاڑ ٹوٹیں گے کہ ایک دن ایک سال کے برابر محسوس ہو گا۔اسی بنا پر آپ خود بھی فتنہ مسیح ِدَجال سے پناہ مانگتے تھے اور اپنی اُمت کو بھی پناہ مانگنے کی تلقین کرتے تھے۔
دَجال کا مقابلہ کرنے کیلئے ذات ِباری تعالیٰ حضرت عیسیٰ کو نازل فرمائیں گے جن کو دوہزار سال پہلے یہودیوں نے ماننے سے انکار کر دیا تھااور اُنھیں دانستہ طور پر یہودی صلیب پر چڑحا چکے تھے۔اس حقیقی مسیح کے نزول کی جگہ ہندوستان یا افریقہ یا امریکہ میں نہیں ہے بلکہ شام کے دارلخلافہ دمشق میں ہو گی۔ یہی مقام اُس وقت عین محاذ ِجنگ ہو گا،کیونکہ اسرائیل کی سرحد دمشق سے بمشکل 50 سے60 میل کے فاصلے پر ہے۔
احادیث کے مطابق مسیح ِدَجال ستر ہزار یہودیوں کا لشکر لیکر شام میں گھسے گا اور دمشق کے سامنے جا پہنچے گا۔ٹھیک اس نازک موقع پر دمشق کے مشرقی حصے میں ایک سفید مینار کے قریب" حضرت عیسیٰ ؑ" الصبح یک دم نازل ہونگے اور بعدا ز نماز ِفجر مسلمانوں کو لیکر اُسکے مقابلے میں نکلیں گے۔اس حملے سے دَجال پسپا ہو کر" اَفیق کی گھاٹی" سے اسرائیل کی طرف پلٹے گا۔( اَفیق۔جس سے آجکل فِیق کہتے ہیں شام اور اسرائیل کی سرحد پر موجود ریاست شام کا آخری شہر ہے۔اس کے آگے مغرب کی جانب چند میل کے فاصلے پر دریائے اُردُن طبریہ نامی جھیل سے نکلتا ہے ۔یہ ایک پہاڑی راستہ ہے جس کو عَقبہ ءاَفیق (اَفیق کی گھاٹی ) کہتے ہیں)۔
حضرت عیسیٰ ؑاُس کا تعاقب کریں گے۔آ خر کار" لُد "کے ہوائی اڈے پر پہنچ کر وہ اُنکے ہاتھ سے مارا جائے گا۔ (واضح رہے کے لُد Lydda فلسطین میں ریاست اسرائیل کے دارالسلطنت تل ابیب سے چند میل کے فاصلے پر واقع ہے اور یہودیوں نے وہاں بہت بڑا ہوائی اڈہ بنا رکھا ہے)۔ بہرحال ا س کے بعد یہودی چُن چُن کر قتل کیئے جائیں گے اور ملت ِیہود کا خاتمہ ہو جائے گا۔عیسائیت بھی حضرت عیسیٰ ؑکی طرف سے اظہار ِحقیقت ہو جانے کے بعد ختم ہو جائے گی اور تمام ملتیں ایک ملت ِمسلمہ میں ضم ہو جائیں گی"۔
حقیقت و علامت:
احادیث کی روح سے دَجال جہاں ایک حقیقی کردار ثابت ہو تا ہے وہاں اسکی علامتی حیثیت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔چونکہ کسی بھی دور میں جب بھی عوام الناس کو کسی بھی حکمران یا بڑی طاقت کی وجہ سے مصائب کا شکار ہونا پڑا ہے اُس وقت دَجال کے کردار کو ہی تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔لہذا صدیوں سے اس کردار کی حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے اُس دور کی ریشہ دوانیوںکو دَجال کے علامتی کردار سے منسلک کر کے بیان کیا جاتا رہا ہے اور آج بھی ہو رہا ہے کہ مادیت پرستی ،خود غرضی، جدید سائنسی ترقی کے وہ عوامل جو انسانی نظام کو تباہ و بربادکرنے کا باعث بن رہے ہیں اور انسانی تعلقات کی جو قدریں ختم ہو رہی ہیں وہ سب دَجالی رویہ کا اثر ہے۔
فتنہ ِمال و دولت:
مال و دولت حاصل کرنے کی" ہوس" زندگی گزارنے کی بجائے بنک بیلنس بڑھانے اور دُنیاوی دکھاوے کی نظر ہو چکی ہے۔ جو معاشرے میں مزید گراوٹ پیدا کر رہی ہے۔کتنا ہونا چاہیئے ؟ کی بجائے کتنا زیادہ ہونے کا فکر ایک بہت بڑے" فتنے "کا سبب بن چکا ہے۔ کیا ہمیں اس فکر سے پناہ نہیں مانگنی چاہیئے؟ اس سلسلے میں دین سے لیکر دُنیاوی عُلماءتک سب نے اپنے انداز میں دلائل بھی دیئے ہیں اور کُتب بھی لکھی ہیں۔جن کو پڑھ کر وقتی طور پر اثر بھی ہوتا ہے اور قاری اپنی ذات کا احاطہ کیئے بغیر بھی نہیں رہتا کہ کہیں اُس میں یا اُس کے گرد و نواح میں دَجال پرورش تو نہیں پا رہا۔
صلاح الدین ایوبی:
آخر میں مسلمانوں کی تاریخ کی وہ شخصیت آج سب کو یاد رکھنی چاہیئے جن کا نام صلاح الدین ایوبی ہے اور وہ شام کے سلطان تھے۔صلیبی جنگ میں دُشمن کو شکست ِفاش دے کر 1187 ءمیں بیت المقد س کو فتح کیا اور قبلہ اول مسلمانوں کے پاس آگیا۔ وہ بھی نبیﷺ کی حدیث پر عمل کرتے ہوئے دَجال کے فتنے سے پناہ مانگتے ہونگے لیکن نزاکت ِمعاملہ کے تحت کسی کے منتظر نہیں تھے بلکہ اللہ تعالیٰ کے حُکم کے پابند اور ایمان کے پکے تھے۔
نوٹ:(یہ مضمون "دَجال" کے عنوان سے آج کی دینی و دُنیاوی فکر کو سامنے رکھ لکھنا اتنا آسان نہیں تھا لہذا بخاری شریف کی حدیث و مختلف احادیث کے اہم نقاط بیان کر دیئے ہیں اور ابو الاعلیٰ مودُودی کی تحریر کا خلاصہ لکھنے کی کوشش کی ہے اور ساتھ میں جلد و صفحات کا ذکر بھی کر دیا ہے)۔

Arif Jameel
About the Author: Arif Jameel Read More Articles by Arif Jameel: 204 Articles with 311545 views Post Graduation in Economics and Islamic St. from University of Punjab. Diploma in American History and Education Training.Job in past on good positio.. View More