خلیفہ دوم حضرت عمرفاروق ؓ معمول کے مطابق باہر سے آنے
والے قبیلوں،مسافروں اور پردیسیوں کی خبر گیری کے لیے رات کے گشت پر نکلے
ہوئے ہیں مدینہ منورہ کی گلی کچوں سے گذرتے ہوئے کھجوروں کے باغت میں نکل
آتے ہیں ۔مدینہ منورہ دو طرف سیاہ پہاڑی سلسلوں سے گھرا ہو ا ہے ایک کو
مغربی حرہ اور دوسرے کو مشرق حرہ کہا جاتا ہے تیسری جانب کھجور کے خوبصورت
باغ دور تک پھیلے ہوئے ہیں شمالی جانب کھلا میدان ہے اسی طرف سے مختلف
سمتوں سے آنے والے لوگ مدینہ منورہ میں داخل ہوتے ہیں راستہ میں مدینہ کی
مشہور وادی عقیق ہے جس نے شعرو ادب میں بڑی محبوبیت اور مقبولیت حاصل
کی۔حضرت فاروق اعظم ؓباغات سے نکل کر شمال کی جانب مڑ جاتے ہیں انکے ہمرہ
حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ بھی ہیں اچانک دونو ں کی نظر ایک تاجر قافلہ پر
پڑتی ہے جس میں مردوں کے علاوہ عورتیں اور بچے بھی ہیں۔
حضرت عمرؓ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کو مخاطب کرکے فرماتے آؤ آج رات انکی
پہرہ داری کریں دونوں حضرات رات بھر جاگتے اور نوافل نماز پڑھتے رہے اسی
اثناء میں ایک بچے کے رونے کی آوازآتی ہے حضرت عمرؓ آواز سن کر اس بچے کی
جانب جاتے ہیں اور بچے کی ماں سے کہتے ہیں خدارا اس بچے کے ساتھ اچھا سلوک
کرو ،ماں کو توجہ دلاکر اپنی جگہ واپس آگئے ،تھوڑی دیر کے بعد رونے کی آواز
پھر سنی دوبارہ گئے اور بچے کے ماں سے کہا کہ خیال رکھو اور اس بچو ں کو
سلادو ماں کو نصیحت کرکے اپنی جگہ پر واپس آگئے ،رات کے آخری پہر پھر بچے
کے رونے سے پریشان ہو گئے بچے کی ماں کے پاس آکر کہا کہ تم اچھی ماں نہیں
لگتی ہو آج رات اس بچے کو آرام نہیں ملا اور یہ روتا ہی رہا ماں کو معلوم
نہ تھا کہ یہ صاحب امیرالمومنین ہیں اس نے غضبناک ہو کر جواب دیا کہ خدا کے
بندے تم نے تو آج ہمیں تنگ کر ڈالا تم کو اس سے کیا سروکار میں اس بچے کا
دودھ چھڑا رہی ہوں اور وہ چھوڑ نہیں رہا ہے۔انھوں نے نرمی سے دریافت کیا کہ
ایسا کیوں کر رہی ہو اور آخر یہ زبردستی کیوں ہے؟ماں نے جواب دیا کہ ایسا
اس لئے کررہی ہوں کہ عمرؓ دودھ پیتے بچے کو وظیفہ نہیں دیتے میں صرف اسی
وقت بچے کا روزینہ مقر ر کرتے ہیں جب وہ دودھ پینا چھوڑ دیتا ہے،فرمایا
اسکی عمر کتنی ہے؟جواب دیا کہ اتنے ماہ کا ،فرمایا خدا تمھارا بھلا کرے
جلدی نہ کرو۔
حضرت عمرؓ کو اس واقعہ نے بے حد متاثر و دل گرفتہ کیا فجر کی نماز کے دوران
آنسو جاری رہا گر یہ وزاری کی وجہ سے لوگ پورے طور پر قرات نہ سمجھ سکے
،سلام پھرتے ہی فرمایا بدنصیب عمر کتنے مسلمان بچوں کے قتل کا سبب بنا ،ایک
شخص کو مخاطب کرکے فرمایا جاؤ پکار پکار کر اعلان کردوکہ اے لوگو اپنے بچوں
کا دودھ چھڑانے میں جلدی نہ کرو ہم ہر مسلمان بچے کے لئے پیدا ہوتے ہی
وظیفہ مقرر کردیں گے اور ملک کے سارے علاقوں اور صوبوں میں اس بات کی منادی
کرادی گئی۔
یہ وہ خلیفہ اسلام ہیں جنھوں نے ایک ہاتھ سے کسریٰ اور دوسرے ہاتھ سے قیصر
کی سلطنتوں کو پاش پاش کرکے اسلام کی گود میں لا کر ڈال دیا یا جن کے نام
سے اس دور کی معروف دنیا لرز اٹھی تھی آئیے دیکھئے کس طرح وہ رات کو پہرہ
داری کا کام انجام دیتے ہیں اور ایک بچے کے رونے پر تین بار اسکی ماں کے
پاس جاتے ہیں اور خو شامد کرتے ہیں کہ اسے سکون سے سلادے پھر عظمت انسانی
کی اعلٰی مثال ملاحظہ کیجئے کیا ہم اس طرح کی کوئی مثال پیش کرسکتے ہیں؟۔
آئیے !امیرالمومنین کا ایک اور مشہور واقعہ پڑھتے چلئے ۔
حسب معمول رات کے گشت میں مدینہ منورہ کی آبادی کے ایک کنارے نکل آتے ہیں
دفعتاًایک آواز سنائی دیتی ہے بیٹی جلدی اٹھودودھ نکال کر اس میں تھوڑا
پانی ملا دو صبح ہونے جارہی ہے۔بیٹی کی آواز ابھرتی ہے اماں جان!امیر
المومنین نے دودھ میں پانی ملانے سے منع فرمایا ہے۔ماں نے ڈانٹتے ہوئے کہا
ارے تو پانی ملادی امیر المومنین یہاں کہا ں دیکھ رہے ہیں؟بچی نے اپنی پوری
قوت ایمانی سے جواب دیا !اماں جان اگر امیر المومنین نہیں تو امیر المومنین
کا آقا اور ہمارا مالک مولٰی تو دیکھ رہا ہے !امیر المو منین اس ایمان
افروز جملہ کو سنتے ہی آگے بڑھتے ہیں اور اس گھر پر نشان لگا دیتے ہیں اور
تیز تیز قدم بڑھاتے ہوئے مسجد نبوی میں داخل ہو جاتے ہیں بارگاہ ایز دی میں
سجدہ ریز ہو جاتے ہیں ۔خدائے عزوجل کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ایمان و امانت
داری امتِ مسلمہ کی رگوں میں رواں دواں ہے اتنے میں موذن فجر کی اذان دیتا
ہے حضرت فاروق اعظمؓ سجدہ سے سر اٹھا تے ہیں اور سنت میں مشغول ہو جاتے ہیں
نماز کے بعد اپنے صاحبزادہ حضرت عاصم کو بلاکر کچھ مشورہ کرتے ہیں رات جس
گھر پر نشان لگا آئے تھے اسکے متعلق کچھ معلومات کرتے ہیں اور آخر میں اس
نیک بخت لڑکی سے اپنے صاحبزادہ حضرت عا صم ؓ کی شادی کر دیتے ہیں اس جیسے
خدا ترس دیانتدار دیندار بچی کا اس سے بہتر اور کیا صلہ ہو سکتا ہے ؟اسی
بچی کے بطن سے عمر بن عبدالعزیز ؒ پیدا ہوئے جنھوں نے عصر اموی میں خلافت
کی باگ ڈور سنبھالی اور بہت ہی مختصر مدت میں عہد فاروقی کی یاد تازہ کردی
۔ملوکیت کو خلافت میں ،عیش و تنعم کی زندگی کو فقرو درویشی میں تبدیل کردیا
۔خدا ان سے راضی ہو اور امت مسلمہ کو انکے نقش قدم پر چلنے اور احکام
ِشریعت کو زندگی کے ہر گوشہ میں نافذ کرنے کی توفیق عطا فرمائے(امین)۔
|