سب کچھ تو ختم ہورہا ہے ، سب دکھاوا ہوا ہونے لگا ، کیا
بھرم تھا ، جس کا جو دل چاہے وہ کرے جاتا ، ہر طرف نئے نئے تماشے لگائے
جارہے تھے ، سب ہی لوگ دنیا کی حقیقت اور آخرت کے سفر کو نظرانداز کیے
جارہے تھے مگر اب سب ختم ہوگیا ، دکھاوا بھی اپنی منزل پر پہنچ گیا ۔ بس
اللہ نے ایک ہلکا سا اشارہ کیا ، اس شے کو سامنے کردیا جو نظر بھی نہیں
ارہے مگر پھر بھی ایٹمی طاقت رکھنے والے اب کبھی اپنے ایٹم بم کو دیکھیں تو
کبھی اپنے رعونت انگیز چہروں کو آئینوں میں دیکھیں ۔ پھر مرنے کے بعد ایسا
بھی کیا ہوسکتا ہے ، نہیں نہیں یہ تو تصور بھی نہیں تھا کہ کورونا وائرس کا
شکار ہوکر دنیا سے چلے جانے والوں کو قبرستان تک لے جانے والے بھی گنتی کے
افراد ہونگے اور قبر میں عزت و احترام کے ساتھ میت کو اتارا نہیں جائے گا
بلکہ رسیوں کی مدد سے پھینک دیا جائے گا ۔۔۔ توبہ توبہ ۔۔۔۔اللہ تو معاف
کردے ہم سب کو تو ہی ہم کو معاف کرسکتا کیوں کہ تو بڑا معاف کرنے والا اور
در گزر کرنے والا ہے ۔ تو نے تو زمین سے اسمان تک کے گناہوں کو معاف کردے
گا ۔ بس ایک تیرا ہی آسرا ہے ۔۔۔۔ مگر دنیا میں دنیا کے لوگوں کے سامنے یہ
کیسا تماشا تو دکھارہا ہے ۔ صرف یہ سن کر کہ کورونا وائرس نے جکڑ لیا ہے ،
ہمارے اپنے ہم سے دور ہوجائیں گے اور ہم کو خود ہی اپنے آپ کو مقید کرنے پر
مجبور کردیں گے ، پھر اللہ تیرے حکم سے ہمیں موت اگئی تو غسل ، کفن اور دفن
کے مسائل بھی پیدا ہوجائیں گے ۔ قرآن پاک میں تو یہ مناظر اللہ تو نے قیامت
کے بعد روز حشر کے بیان کیے ہیں ، مگر یہ کیا ، دنیا میں قیامت سے پہلے
قیامت اگئی کیا ؟ ابھی تو مسلمان موجود ہیں مگر علماء کہا کرتے تھے کہ جب
تک زمین پر ایک بھی مسلمان ہوگا تیرا نام لینے والا ہوگا قیامت نہیں آئے گی
۔۔۔۔تو پھر یہ سب کیا ہے ؟ کورونا وائرس تو اسے بھی نظر نہیں آرہا جس کو اس
نے لپٹ اور چمٹ چکا ہے ، بس سائنسدانوں کی تحقیق ان کی باتوں پر یقین کرکے
ہم اپنوں کو زندگی میں ان سے دور ہونے لگے ہیں یا وہ خود کررہے ہیں کہ کہیں
کورونا کے مریض تو نہیں ؟ ہمارے ایمان پے یقین کے دعوے کہاں گئے ؟ احتیاط
کرنے کے باوجود ہم اللہ تجھ پر توکل کرنے سے گریز کرنے لگیں ہیں ، کیوں
نہیں کریں گے کیونکہ وہ علماء کرام جو مساجد کے بجائے گھروں میں نماز ادا
کرنے والوں کو احادیث سے متنبہ کیا کرتے تھے کہ جو مرد گھروں میں نماز ادا
کرتے ہیں ان کے گھروں کو آگ لگانے کا حکم ہے ، اج وہی تو کہہ رہے ہیں کہ
گھروں میں نمازیں پڑھیں ، مساجد میں صرف چند لوگوں پر مشتمل جماعت ہونی
چاہیے ، مساجد میں نماز جمعہ کا بھی اجتماع نہیں ہونا چاہیے ۔۔۔۔۔۔ یہی
دباؤ رہا تو اب 24 اپریل سے رمضان المبارک شروع ہوجائیں گے ان شاء اللہ تو
کیا اس مقدس ماہ بھی احتیاط کے نام پر مساجد بے رونق رہیں گی ؟ مدینہ اور
مکہ کی وہ رونقیں جہاں ہمیشہ ہی انسانوں کی موجودگی اور اللہ اور اس کے
پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر سے روح پرور مناظر پیش کیا کرتی تھیں
وہ رونقیں" احتیاط " کی نظر ہوچکیں ہیں ۔ یہ کیسی احتیاط ہے ؟ ۔۔۔۔اسے تو
احتیاطی تدابیر سے پہلے اللہ توکل کیے بغیر محتاط رہنے کا فارمولہ جاسکتا
ہے ۔ مگر احتیاط نہیں ۔۔۔کیونکہ کیا ہمارے دین نے مساجد میں نماز کے
اجتماعات سے اور باجماعت نماز نماز کی ادائیگی سے کہیں گریز کرنے کا حکم
دیا ہے ؟ اگر دیا ہے تو پھر ٹھیک ہے ، علماء کرام کو یہ بات طے کرنی تھی
مگر انہوں نے تو حکمرانوں کے مشورے پر ان ہی کہ رائے کی تائید کرتے ہوئے
مساجد میں نماز کے بڑے اجتماعات پر پابندی لگوادی ۔ اگر یہ سلسلہ
خدانخواستہ جاری رہا تو عیدین کے نماز تو کجا حج جیسے فریضہ کو بھی اپنی
عقلوں کے استعمال سے روک دیا جائے گا ۔ یاد رہے کہ سعودی عرب کے شہروں میں
اسی رواں سال ہی وہاں کے حکمرانوں نے نائٹ کلب اور سینما کھولنے کی اجازت
دی ہے ۔یقینا یہ غیر شرعی اعمال سے اللہ ناراض ہوا ہے اور اسی ناراضگی کا
سبب یہ بنا کہ مکہ و مدینہ کے مقدس مقامات پر عبادات کے اجتماعات پر پابندی
عائد ہوچکی ۔ اللہ کی ناراضگی کی اس سے بڑی اور کیا نشانی ہوسکتی ہے ۔
سوال یہ ہے کہ اللہ اور اس پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کے
مطابق ہم تمام احتیاطی تدابیر اپناچکے ہیں ؟ بات انسانی جانوں کے تحفظ کی
ہے تو کیا ہم اسلامی ممالک خصوصا پاکستان میں بازاروں ، ملوں ، کارخانوں
اور فیکٹریوں میں بھی ایسی ہی احتیاط کررہے ہیں جیسی عبادتوں کے لیے کی
جارہی ہے ؟ اگر ہم یہاں جو احتیاطی تدابیر اختیار کررہے ہیں تو وہی مساجد
میں نمازوں کے اجتماعات کے لیے نہیں اختیار کرسکتے ؟ اللہ نے نماز کو ذریعہ
شفا قرار دیا ہے ، اجتماعی نمازوں اور دعاؤں کی الگ اہمیت بیان کی جاتی رہی
ہے ۔ اس لیے کہ کوئی نماز سورہ فاتحہ کے بغیر نہیں ہوتی کیونکہ سورہ فاتحہ
کو سورہ شفاء دعائے صحت بھی قرار دیا گیا ہے ۔حالات کا تقاضا ہے کہ اس سورہ
اور دعا کو پڑھنے کے لیے فرض نمازوں کے ساتھ نوافل نمازوں کا بھی اہتمام
کیا جائے اس مقصد کے لیے بطور احتیاط مساجد میں نماز کے اجتماعات پر پابندی
کے بجائے مساجد کے داخلی راستوں پر "سینٹائزر واک تھرو گیٹ" نصب کیے جائیں
ساتھ ہی حکومت کی خصوصی طبی جماعتون کو بھی مساجد کے دروازوں پر تعینات کیا
جائے جو مسجد میں داخل ہونے والے ہر شخص کا معائنہ کرے ۔ ایسا کرنے سے
متعلقہ علاقوں میں کورونا وائرس کا شکار افراد کی معلومات بھی ہوسکے گی ۔
علاقوں کو سیل کرنے کی کارروائی اپنی جگہ درست مگر مساجد میں نماز کے لیے
جانے والوں کو روکنا کسی طور پر بھی درست نہیں ہے ۔ اس سے اللہ مزید ناراض
ہوسکتا ہے ۔ اللہ ہم سب کو سمجھ کر جینے کی توفیق عطا کرے آمین ۔#
|