نماز پنجگانہ ختم ، جمعہ ختم، نماز جنازہ ختم، اجتماعی
توبہ و استغفار ختم ، عمرہ ادائیگی پر پابندی چ مسجد الحرام بند، روضہ رسول
بند، مسجد نبوی شریف بند۔ پھر لگتا ہے اس سال رمضان المبارک میں صلوٰۃ
التراویح بھی نہیں ہوگی۔ غالب گمان ہے کہ یہ ایک منظم سازش تھی جو ہمیشہ
شعبان المعظم اور رمضان المبارک میں شروع ہوتی ہے لیکن اس دفعہ جو وار کیا
گیا یہ بہت خطرناک ہے اس لئے کہ علماء حق اسکا ادراک نہیں کرسکے۔ مفتی منیب
الرحمٰن دامت برکاتہ نے کملہ حق بلند کیا ہے لیکن ریاستی جبر اور محلاتی
سازشوں نے اسے دبا دیا ہے میرا چیلنج ہے دور صحابہ سے لیکر تاریخ اسلام کے
کسی موڑ پر ریاست نے بیماری کی وجہ سے نماز جمعہ پر پابندی نہیں لگائی۔
اسلامی شعائر کی اجتماعی ادائیگی بند کرنے پرجتنے حوالے دئے گئے ہیں وہ
قطعاً غیر متعلقہ ہیں حتٰی کہ جب طاعون کی وباء پھیلی اس وقت بھی ایسا نہیں
کیا گیا جب مدینہ شریف میں بارشیں حد سے زیادہ ہوئیں تو لوگوں کا گھر سے
نکلنا مشکل ہوگیا۔مسجد کی چھت سے پانی ٹپکنے لگا اور اس وجہ سے اسوقت اس
خاص علاقے میں ایک نماز جمعہ نہ ہوسکی لہذا یہ دلیل بھی آج کے حالات پر
ہرگز صادق نہیں آتی تاریخ گواہ ہے فقہا اسلام نے کبھی بھی کسی بھی وباء سے
ہلاکتوں کے باوجود مساجد بند کروانے کے لئے ان احادیث کا سہارا نہیں لیا جن
میں بارش کی وجہ سے نماز گھر میں ادا کرنے کے واقعات ہیں جبکہ آج کے درباری
اور سہل پسند علماء ایسے تمام واقعات پر قیاس کر رہے ہیں جن کا وبائی
صورتحال سے کوئی ربط نہیں۔امام عبدالرحمن القرشی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں جب
764 ہجری میں جب طاعون پھیلتا ہوا مصر میں داخل ہوا تو ہلاکتیں ہی ہلاکتیں
تھیں پھر لوگوں نے قیام اللیل روزہ ،صدقہ،توبہ ،اور وعظ کو لازم پکڑا ہم
اپنے بچوں اور بیویوں سمیت گھروں کو چھوڑا اور مساجد میں پناہ لے لی ہمیں
بہت فائدہ ہوا ہم محفوظ رہے طاعون سے حوالہ (شفاء القلب المحزون) باب فی
بیان مایتعلق باالطاعو ن۔
سادہ سی بات ہے جب طاعون پھیلنے کے واقعات موجود ہیں تاریخ میں تو اس وقت
کے فقہا کے فتوے بھی موجود ہونے چاہییں مساجد بند کرنے کہ حوالہ سے۔ چاروں
فقہ میں ایسا کوئی فتوہ موجود نہیں اس لئے درباری مولوی اور ریاست نے ایک
نیا اجتہادی فیصلہ کیا اور اس پر بھی تمام علماء کا اجماع نہ ہو سکا پھر
بھی ریاست نے جبراً فیصلہ نافذ کیا کیونکہ ریاست شریعت سے رہنمائی کی بجائے
ڈبلیو ایچ او کی مقلد لگتی ہے. یہ آرگنائزیشن چند طاقتور ملکوں کے زیراثر
فیصلہ کرتی ہے اور پھر انہی کی فرمائش پر اسکے فیصلے بدل جاتے ہیں۔ اسکے
اکثر فیصلے سراسر سیاسی ہوتے ہیں علماء دین کو اجتہاد کرنا پڑے گا اور
جنہوں نے اداروں کو ایسی راہ دکھائی انہیں جلد یا بدیر امت مسلمہ کو اس وجہ
سے پہنچنے والے ناقابل تلافی نقصان کا احساس ہوگا اگر انکا ضمیر زندہ ہوا۔
|