اگر

اگر وہ خو دکُشی نہ کرتا تو وہ اور بھی بہت کچھ کر سکتا تھا۔ اس کی شہرت دنیا کے کونے کونے میں پھیل چکی تھی۔ دنیا بھر میں طلوع ہونے والے سورج کی شعاعیں اس کی لکھی کتابوں کے صفحات پرضرور پڑتیں۔ دنیا کے ہر بڑے ادبی فورم پے اس کے اندازِتحریر اور ناولوں پر بحثیں ہوتی رہی تھیں۔ اسے دنیا کے سب سے بڑے ادبی ایورڈ بھی مل چکے تھے۔ اس کی صحت بھی قابلِ رشک تھی اور اسے بظاہر کوئی بھی پریشانی نہ تھی۔ اس کے ناولوں کے ہیرو اور دوسرے کردار بھی بہت جاندار ہوا کرتے اور کسی قسم کی مایوسی اور ناامیدی کو اکثر قریب نہیں آنے دیا کرتے۔ اس کے ناول پڑھنے والے مایوس لوگ بھی نئے سرے سے زندگی کا آغاز کر دیا کرتے۔ لوگ اکثر کہا کرتے کہ اگر کسی انسان میں کسی قسم کی مایوسی ہو تو اسے اس کے ناولوں سے استفادہ کرنا بہتر رہے گا ۔ لیکن یہ کیا ہوا کہ خود ان نا ولوں کے دیوتا نے ہی خود کشی کر لی ۔ لیکن اس نے خود کشی کیوں کی اس کا کسی بھی شخص کے پاس مستند جواب نہیں تھا ۔ اندازے اور قیافے تو ہر کسی کے پاس تھے اور ہر کوئی اپنی اپنی فہم وفراست کے مطابق اسے درست سمجھ رہا تھا ۔ لیکن حقیقت عنقا ہی رہی تھی۔

اس کی خود کُشی کی خبریں جنگل کی آگ کی طرح مشرق و مغرب میں پھیل گئی اور جو کوئی بھی اس کا قاری اور مداح یہ خبر سنتا ، اسے اس پر یقین نہ آتا اور اس خبر کی مزید تصدیق اور تحقیق کے لئے وہ دوسرے چینلز سے بھی اس خبر کے لئے اپنے ریموٹ کا استعمال کرتا ۔ لوگ ایک دوسرے کو فون کر کے اس کی موت کی خبر پہنچا رہے تھے اور آپس میں بات کر رہے تھے کہ اس نے یہ انتہائی اقدام کیوں اٹھایا، اسے کیا مسئلہ تھا، اسے کیا پریشانی تھی۔ بعض لوگوں کی رائے بالکل الگ تھی اور اس رائے میں بھی کچھ وزن محسوس ہوتا تھا ،اگر چہ اتنی زیادہ معقولیت نہیں تھی ۔ وہ رائے یہ تھی کہ اس نے اپنی شہرت کو مزید بڑھانے کے لئے خود کُشی کی ہے۔ دنیا میں ایسے بہت سے شاعر، ادیب ، ناول نگار، ڈرامہ نگار قسم کے لوگ اس کے سامنے تھے جن کی شہرت ان کی نوجوانی کی موت کے سبب ہوئی۔ جب کہ ان کی تخلیقات میں اتنی وقعت نہیں تھی کہ انہیں ان نگارشات کی بدولت شہرتِ تام حاصل ہو اور پھر انہیں بھی ایوارڈوں کی بارش سے نوازا گیا۔ شاید اس کو اس قسم کے ادیبوں اور شاعروں سے کوئی چڑ تھی یا وہ اپنی سوانح میں ایک اور سنسنی خیز واقعہ کا اضافہ کرنا چاہتا تھا ۔

یہ بات تو طے تھی کہ اسے اس قسم کی انتہائی مہم کی ضرورت بالکل نہیں تھی ۔لیکن چوں کہ اس نے خود کُشی کر لی ہوئی تھی اس لئے اس کا کوئی نہ کوئی جواز تو ڈھونڈنا ہی تھا اور زیادہ صاحب الرائے اپنی رائے اور استدلال دینے سے باز بھی نہیں آتے اور پوچھنے والے ان سے پوچھ کے ہی رہتے ہیں ۔ اس معاملے میں بھی یہی کچھ ہو رہا تھااور انہیں کچھ نہ کچھ کہنا ہی پڑا کہ یہ خود کشی کیوں ہوئی۔ وہ جتنے منہ اتنی باتوں والی بات بھی تو کبھی کبھی پوری ہونی ہی ہوتی ہے اور سب سے زیادہ اس ناولسٹ پر پوری ہو رہی تھی جس نے کسی قسم کی ظاہری وجہ کے بغیر ہی خود کشی کر لی تھی اور اب وہ پہلے سے زیادہ شہرت حاصل کر چکا تھا ۔ اخباروں کے ادبی صفحات اس کی تصاویر سے مزین ہو چکے تھے۔ بعض اخباروں نے اس کی موت کو اپنی شہ سرخی کے لئے منتخب کر لیا تھا ۔ اب اسے وہ لوگ بھی جان گئے تھے جو ادبی نہیں تھے۔ اس سے پہلے اس کا تعلق ان لوگوں کے ساتھ تھا جو اس کی کتابیں پڑھا کرتے، اس کی نئی کتابوں کا انتظار کیا کرتے اور جلد از جلد انہیں خریدنے اور اپنے دوستوں سے پہلے پڑھ جانے اور پھر اس کی کتابوں کی باتوں اور واقعات کو اپنی ادبی بحثوں کا حصہ بناتے اور یوں اپنی بصیرت اور برتری پر مہرِ تصدیق ثبت کرنے کی کوشش کرتے۔

سیاست ، صرف سیاست میں نہیں ہوتی۔ بلکہ دنیا کی ہر چیز میں سیاست ہوتی ہے۔ کوئی ادبی مجلس، کوئی مذہبی ادارہ اور کوئی محلے داری اور گھر داری بھی سیاست سے آزاد نہیں ہوتی ۔ حتیٰ کہ جنگل تو بھرا ہی سیاست سے ہوتا ہے۔ جنگل کے چپے چپے پر سیاست کی اجارہ داری ہوتی ہے اور معاشرے میں لگنے والی ہر ہر اینٹ کے ساتھ سیاست کا گارا لگا ہوتا ہے۔ اور جہاں سیاست نہیں ہوتی وہاں کچھ بھی نہیں ہوتا ۔ شاید اس کی خود کُشی کے پیچھے بھی کوئی نہ کوئی سیاست کارفرما ہے جو عام لوگوں کی نظر سے اوجھل ہے۔ لیکن وہ سیاست ہے کیا ؟ اس سیاست کے پیچھے کیا سیاست ہو سکتی ہے ؟

بہت کم لوگ اس کی اصل زندگی سے واقف تھے۔ اس کی اصل زندگی کبھی کسی کتاب ،ادبی رسالے یا اخبار میں نہیں چھپی ۔ اس لئے اس کے متعلق لوگ بس وہی کچھ جانتے تھے جو شائع ہو چکا تھا اور جو بات شائع نہ ہو اسے کوئی کیسے جان سکتا ہے ؟ اس کے دل کی کہانی اس کے سوا کوئی نہ جانتا تھا ۔ وہ اپنے ناولوں میں اپنی ذہنی کیفیت سے بالکل الٹ کہانیاں اور کردار تخلیق کر رہا تھا ۔ اور شاید یہی اس کی کامیابی کا راز تھا ۔ وہ ایک کیفیت سے اچھی طرح واقف تھا اور اس کیفیت سے متضاد لکھنے کے لئے اس کی رہنمائی اس کیفیت سے ہو جایا کرتی۔ وہ اتنے زندہ دل کردار تعمیر کرتا کہ لوگ اسے روشن خیالی کا دیوتا سمجھنے لگ پڑے۔ اس کی کوئی بھی کہانی ناامیدی اور مایوسی پر ختم نہیں ہوا کرتی تھی۔ اس کے ناول ٹریجڈی سے بھرے ہونے کے ساتھ ساتھ روشن خیالی، استقلال اور مستقل مزاجی کا پیکر تھے۔ اس کے ہیروز مشکل سے مشکل حالات میں بھی کبھی ہمت نہیں ہارا کرتے تھے اور قسمت کا کبھی شکوہ نہیں کیا کرتے تھے۔

اس کی کہانیوں میں رومانس بھی بہت تھوڑی دیر کے لئے آتا اور پھر ایک صحرائی کیفیت اس کے کرداروں اور خاص طور پر ہیرو کی زندگی پر چھا جاتی۔ اور اسی کیفیت میں اس کا ناول اختتام کو پہنچ جاتا ۔ وہ رومانویت کوا پنے ناولوں کے پلاٹ میں زیادہ سپیس نہیں دیا کرتا تھا ۔ لیکن اس کی اپنی زندگی میں رومانس بہت اہم کردار ادا کر چکا تھا جس کا اس کے ذہن پر وہی اثر تھا جو موسم کا زمین پر ہوا کرتا ہے۔ زمین موسم کے اثر سے کبھی نکل نہیں پاتی جب تک کی موسم خود ہی بدل نہ جائے۔ لیکن اس کے ذہن کا موسم بڑے سالوں سے نہیں بدلا تھا ۔ اگرچہ سالوں کے چار موسم تو ہر سال آتے اور گزر جاتے لیکن اس کے ذہن کا موسم جس پر بہت سال پہلے خزاں کا راج ہو چکا تھا کبھی نہ بدلا تھا اور ہروقت اس پر چھایا رہتا تھا ۔ اس کی خزاں کا موسم اس کے دل و دماغ کے سارے گلوب پر چھا چکا تھا اور کبھی بدلنے کا نام ہی نہیں لیتا تھا ۔ وہ اس موسم کے ہاتھوں بے بس ہو چکا تھا اور اسی مایوسی کی کیفیت سے نکلنے کے لئے ہی وہ ایسے ناول لکھا کرتا تھا کہ لوگ اسے روشن خیالی اور پُرامیدی کا دیوتا کہنے لگ پڑے تھے لیکن یہ دیوتا خود مایوسی اور ناامیدی کے گہرے سمندر سے باہر آنے کی بار بار ناکام کوشش کر چکا تھا ۔ اور دنیا بھر کے بے شمار لوگوں میں وہ روشنی کی کرنیں بکھیر چکا تھا۔ بہت سے مرنے کی تمنا اور اردہ کرنے والوں کو اس ارادے پر عمل کرنے سے وہ باز رکھ چکا تھا ۔ اس کی تحریریں پڑھنے والے مایوسی سے حریت حاصل کر چکے تھے لیکن ہر ناول لکھنے کے بعد وہ دوبارہ پہلے جیسی مایوسی کی دلدل میں گر جایا کرتا اور کئی کئی ہفتے وہ اس کیفت میں مبتلا رہنے کے بعد پھر سے نیا ناول لکھنے بیٹھ جایا کرتا اور اس نئے ناول کے لکھ چکنے تک وہ بڑی حد تک اپنی ذاتی مایوسی سے بچا رہتا اور جب ناول ختم ہو جاتا ، اس کا ہیرو مشکل صورتِ حالات سے باہر قدم رکھتا اور نئے عزم کے ساتھ زندگی کی مایوسیوں کے چھائے بادلوں میں روشنی کی نئی کرن دیکھتا ، وہ خود مایوسی کے اندھیروں میں غوطہ زن ہو جاتا اور اس مایوسی کے اس بحرِ اسود سے باہر لانے کے لئے اس کے پاس کوئی تدبیر اور ترکیب نہ ہوا کرتی۔ یہ بات تو دنیا کی بہت بڑی حقیقت ہے کہ دوسروں کو سمجھانا جتنا آسان ہے، اپنے آپ کو سمجھانا اتنا ہی مشکل ہے۔ اس کی حالت اس چراغ جیسی تھی جو دوسروں کو روشنی دینے کے لئے خود سوزی کرتا ہے۔ اس کی خود سوزی ایک دائرے کی طرح اس کے گرد چھائی رہتی اور وہ اس دائرے سے باہر نکلنے کی بھر پور کوشش کرتا رہتا لیکن اس دائرے کو کبھی توڑ نہ پاتا اور یہ دائرہ ایک سمندر کی زور دار لہروں کی طرح اسے نگل جاتا اور اسے اپنے آپ کا کچھ پتہ نہ چلتا کہ وہ کہاں ہے۔

اس کی زندگی میں تنہائی بہت تھی وہ اپنے جذبات کے لحاظ سے بہت بد نصیب تھا اس کے جذبات کی تسکین نہ ہو پائی تھی اور وہ شہرت کی بلندیوں پر پہنچ کر بھی اپنے آپ کو گلیوں میں بکھرے ہوئے خشک پتوں کی طرح ادھر ادھر بکھرا ہوا ہی محسوس کرتا ۔ اس کی بڑی بڑی ہوٹلوں میں ضیافتیں کی جاتیں، لوگوں کے ساتھ خوش گپیوں سے اس نے کبھی بیزاری کا اظہار نہیں کیا تھا ۔ وہ اپنے ایوارڈ بھی بڑی خوشی سے وصول کیا کرتا۔ کوئی انٹر ویو کے لئے آتا تو کبھی مایوس نہ لوٹتا تھا ۔ اس کے پاس شہرت کے علاوہ دولت کا بھی ماؤنٹ ایورسٹ تھا ۔ لیکن کوئی انسان دولت تو کھا نہیں سکتا اور نہ ہی شہرت انسان کے سارے جذبات کا پیٹ بھرتی ہے۔ اگرچہ شہرت کی بھوک تو شاید حروف والفاظ کا کاروبار کرنے والے ہر شخص کو ہوتی ہے۔ لیکن یہ بھوک بھر بھی جائے تو اس سے سارے جذبات کی تسکین پھر بھی نہیں ہوتی۔ شہرت انسانی جذبات میں سے ایک ہے ، تمام جذبات کی تسکین اس سے نہیں ہوتی۔

اسے بھی شاید صرف شہرت ہی ملی تھی ، سارے جذبات کی تسکین تو نہیں ملی تھی اور وہ صرف اور صرف شہرت پر زندہ نہیں رہ سکتا تھا اور شاید کوئی بھی انسان صرف ایک جذبے کی تسکین پر زندہ نہیں رہ سکتا ،باقی جذبات کی تسکین کی اپنی اہمیت و ضرورت ہے بالکل ایسے ہی جیسا کہ اگر میڈیکل کی اصطلاح میں بات کی جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ شہرت زندگی کی وٹامنز میں سے ایک وٹامن ہے ساری وٹامنز اس میں نہیں آتیں۔ کسی شخص کے جذبات کی کون سی وٹامن پوری ہو رہی ہے اور کون سی نہیں ہو رہی یہ بات کوئی انسان خود ہی جانتا ہے دوسرے کے لئے اسے سمجھنا اتنا آسان نہیں اور دور رہ کر تو کوئی دوسرے کو سمجھ نہی نہیں سکتا ۔ بعض اوقات تو پاس رہ کر بھی دوسرے شخص کے جذبات تک رسائی نہیں ہو پاتی۔ جذبات ، دنیا کی پیچیدہ ترین چیز ہیں جو کہ ایک نامعلوم وائرس سے بھی زیادہ پیچیدہ اور پُر اسرار ہیں۔ ان کہ تہہ تک پہنچنا مشکل نہیں محال ہے۔ اور جذبات ہی انسان کی اصل زندگی ہیں ۔ ظاہر داری تو صرف ظاہرداری ہے جس طرح حقیقت ہی حقیقت ہے۔ ان دونوں کے درمیان لاکھوں میل کی مسافت ہوتی ہے جسے طے کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ اور بڑے لوگ اپنا آپ ظاہر بھی نہیں ہونے دیتے۔ اور ناولسٹ یا ادیب تو ہوتے ہی نقاب پوش ہیں ان کے چہروں پر ایک نہیں کئی ایک ماسک اور نقاب ہوتے ہیں ان کی اصلیت سے بہت ہی کم لوگ واقف ہوتے ہیں۔ اور پتہ اس وقت چلتا ہے جب وہ مشہور شخص کوئی ایسااقدام کرتا ہے جس کی اس سے توقع نہیں ہوتی ۔

اس کی خود کشی بھی کچھ اسی طرح کے تناظر میں واقع ہوئی تھی۔ جب وہ دولت اور شہرت کی انتہا دیکھ چکا تھا تو وہ کسی اور چیز کی بھی انتہا دیکھنا چاہتا تھا۔ اوروہ انتہا اس کی اپنی زندگی کی ہی تھی۔ جب اس کے پاس نئے نالوں کے لئے کوئی نئی کہانی نہ بن سکی اور اس کی مایوسی کا دائرہ پھر سے ایک بحرِ بیکراں کی شکل اختیار کر گیا اور وہ اس سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ یا بہانہ نہ پا سکا تو اس نے نیند کی کافی ساری گولیاں نگل لیں اور پُر سکون موت کی نیند سو گیا ۔ اور تمام دنیا میں اس پر اسرار موت کا تہلکہ مچ گیا ۔ ہر کسی کے لب پے اس کی خود کشی کی بات ایک حیرت اانگیز لیکن پُر لطف کہانی کی طرح محوِ بیان تھی ۔

اس کی مایوسی اس کی نوجوانی سے شروع ہو چکی تھی اور ساری زندگی اس کا پیچھا کرتی رہی تھی ۔ اس کے شب وروز اس مایوسی کی دھوپ اور چھاؤں میں گزرتے گزرتے یہاں تک آن پہنچے تھے۔ اس نے دل ناتواں کی طرح مقابلہ تو خوب کیا تھا لیکن کئی بار کا چیمپئن بھی ایک دن ہار ہی جاتا ہے یا اپنی عزت بچانے کے لئے خود ہی استعفیٰ دے دیتا ہے۔ اور جو استعفیٰ نہیں دیتا اسے ضرور ایک دن ہار کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انسان کا اس دنیا میں مقدر آخر کارہار ضرور دلاتا ہے۔ یعنی اس دنیا میں انسان کی آخر ہار ہے جیت نہیں۔ کئی بار بھی جیت کر دائمی جیت نصیب نہیں ہوتی۔ جس طرح ہر نئے موسم میں نئے پھول کھلنے ہوتے ہیں ،پرانے پھول، پرانے ہوجاتے ہیں اور نئے پھولوں کا کچھ وقت کے لئے راج قائم ہو جاتا ہے۔ اسی طرح انسان بھی ہمیشہ اپنی پوزیشن پے قائم نہیں رہ پاتا اور ایک نہ ایک دن ضرور اپنی پوزیشن چھوڑ جاتا ہے۔ سو یہ ناولسٹ بھی اپنی آخری اننگ ہار چکا تھا اور زندگی نے اس کی کتابِ ہستی کے آخری صفحے کی آخری سطر کے نیچے ڈاٹ۔ ڈاٹ۔ ڈاٹ۔۔۔۔۔۔۔۔ لگا دیئے تھے اور ان ڈاٹس کے بعد لکھ دیا تھا :
اگر وہ خود کُشی نہ کرتا تو وہ اور بھی بہت کچھ کر سکتا تھا۔

Niamat Ali
About the Author: Niamat Ali Read More Articles by Niamat Ali: 178 Articles with 313043 views LIKE POETRY, AND GOOD PIECES OF WRITINGS.. View More