عالم کفر کے روبوٹ

معلوم نہیں سیکولر جنونی انتہا پسندوں کو ہیرو بننے کا اتنا شوق کیوں ہو تا ہے ایک نام نہاد دانشور حالیہ دنوں اپنے کالم کی سطریں پوری کرنے کے لئے آخر میں ایک پیرا گراف لکھتے ہیں کہ صبح صبح مجھے سر تن سے جدا کرنے کی دھمکی پر مبنی ایس ایم ایس موصول ہو ا اور پھر ای میل آئی کہ میرے پاس تین دن باقی رہ گئے اس لئے میں صبح ہی کالم لکھنے بیٹھ گیا .... موصوف پہلے ہی سیکولرازم اور سوشلزم کے چیمپئن تھے اب تو گڑھی خدا بخش کے مجاوروں نے انھیں قومی ایوارڈ کے لئے نامز د کر کے گویا اسلام اور علمائے کرام کے خلاف زہر اگلنے کا لائسنس دے دیا ہے اس لئے ان کی ہر تحریر اور گفتگو میں اسلام اور علماء کی مخالفت سرفہرست ہو تی ہے ۔گزشتہ دنوں موصوف نے اپنے لکھے گئے کالم میں ناموس رسالت ﷺ ایکٹ کی مجوزہ ترمیم کے خلاف کراچی میں لاکھوں مسلمانان پاکستان کی احتجاجی ریلی پر تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ ”یہ پاکستان کی تاریخ کا پہلا روبوٹ ہے جسے ”غازی “بنانے کے لئے مولانا فضل الرحمان ٬ سید منور حسن اور دوسرے مذہبی لیڈر رسول اکرم ﷺ کی امت کو گمراہ کر کے اگلے روز کراچی کی سڑکوں پر لائے اور اپنی تقریروں میں یہ فیصلہ سنا دیا“اب اپنے حالیہ کالم میں موصوف لکھتے ہیں کہ ”سلمان تاثیر نے آسیہ بی بی کا مقدمہ پڑھا اور اپنے طور پر تحقیق کی کہ وہ بے گناہ ہے کرسچین برادری کے لیڈروں نے ان سے مدد مانگی۔وہ ملزمہ سے ملنے جیل چلے گئے۔ٹی وی کیمروں کے سامنے آسیہ بی بی نے یہ تک کہا کہ ”محمد (صلی اللہ علیہ وسلم )آخری نبی ہیں میں ان کی گستاخی کا سوچ بھی نہیں سکتی “اسلام میں گناہ گار کی توبہ بھی قبول کرلی جاتی ہے ۔آسیہ نے سچ مچ جرم کا ارتکاب کیا تھا تب بھی میڈیا کے سامنے اس کے الفاظ پر یقین اور رحم کرنے کی گنجائش موجود تھی“۔

اس سے قبل کہ ہم موصو ف کی ا س تحریر پر کوئی تبصر ہ کریں ہم اس کیس کے سیاق وسباق پر ایک نظر ڈالتے ہیں ۔جون 2010ءکو ضلع ننکانہ صاحب کے علاقے چک نمبر۳۱ اٹانوالی کی رہائشی ایک عیسائی خاتو ن آسیہ بی بی نے نبی اقدس ﷺ اور ان کی زوجہ مطہرہ حضرت خدیجة الکبری کی شان میں (نعوذ باللہ )لغو زبان استعمال کی (میرا قلم آقا علیہ السلام کے بارے میں ایسے الفاظ لکھنے کی جسارت نہیں کرسکتا)بہرکیف ان الفاظ کو اس بدبخت کے ہمراہ مقامی زمیندار کے با غ میں کام کرنے والی دو مسلمان بہنوں عافیہ اور عاصمہ نے سنا تو انھوں نے زمیندار کے بیٹے محمد افضل کو بتایا جس کی موجودگی میں اس گستاخ رسول نے اس بات کا اعتراف کیا کہ ہاں اس نے یہ الفاظ ادا کئے ہیں ....پھر یہ بات گاﺅں کے لوگوں تک پہنچی تو گاﺅں کے امام مسجد قاری سلیم نے گاﺅں کے لوگوں کی موجودگی میں اس سے اس بارے میں پوچھا تواس ملعونہ نے دوسری بار نبی اقدس ﷺ کی اہانت کا اقرار کیا اور ساتھ ہی معافی چاہی ....اس پر گاﺅں کی پنجایت نے19جون کو فیصلہ دیا کیونکہ یہ ملعونہ خود اس بات کا اعتراف جرم کر رہی ہے اور یہ جرم ایسا ہے جس کی کوئی مسلمان معافی نہیں دے سکتا لہٰذا اس ملعونہ کو قانون کے سپرد کردیا جائے چنانچہ اس پر زیر دفعہ 295سی مقدمہ نمبر326/9تھانہ ننکانہ صدر میں درج کیا گیا اور ملزمہ کو اسی روز گرفتار کر لیا گیا۔ ایس پی انویسٹی گیشن شیخوپورہ سید محمد امین بخاری نے آزادانہ تحقیقات کرتے ہوئے مدعی اور ملزمہ کے بیانات قلمبند کئے تحقیقات کے دوران ملزمہ گناہ گار ثابت ہوئی اس طرح ایس پی نے چالان مکمل کر کے معاملہ عدالت کے سپرد کردیا ۔ڈیڑھ سال تک مقدمہ ایڈیشنل جج محمد نوید اقبال کی عدالت میں چلتا رہا تمام قانونی تقاضے پورے کرنے کے بعد عدالت نے جرم ثابت ہو نے پر8نومبر2010ءکو آسیہ مسیح کو سزائے موت اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی اس سزا کے بعد اس ملعونہ کے شوہر عاشق مسیح نے ہائی کورٹ میں اپیل دائر کردی جس کی سماعت کی تاحال کوئی تاریخ مقرر نہیں ہوئی بہرکیف معاملہ عدالت میں ہے۔

اب ہم آتے ہیں موصوف کی تحریر کی جانب کہ ڈیڑھ برس کے دوران مقدمہ چلا بارہا اس خاتون نے اس کا اعتراف کیا کہ ا س نے یہ الفاظ ادا کئے ہیں تمام قانونی تقاضے پورے کئے گئے لیکن ایک فرد (سلمان تاثیر) تمام اداروں اور عدلیہ کو پس پشت ڈالتے ہوئے چند گھنٹوں میں تحقیقات کے بعد اس ملعونہ کو بے گناہ قرار دے دیتا ہے اور پھر اس کو رہا کرنے کے لئے عملی کوشش شروع کردیتا ہے تو کیا یہ قانون کی بالادستی ہے یا قانون موم کی طرح ہے جسے جب چاہا ادھر موڑ دیا اور اس سے اپنی مرضی کا فیصلہ لے لیا اس اقدام سے ثابت یہ ہوا کہ سیکورٹی اداروں اور عدالتوں کا وجود ایک بے معنی فضول چیز ہے ....جب ایک فرد ہی ساری تحقیقات کر کے چند گھنٹوں میں بے گناہ یا گناہ گار کا فیصلہ کرسکتا ہے پھر تو یہ پولیس کے ادارے اور عدالتوں کو بند کردینا چاہیے ۔ بہرکیف موصو ف لکھتے ہیں کہ ”ٹی وی کیمروں کے سامنے آسیہ بی بی نے یہ تک کہا کہ ”محمد (صلی اللہ علیہ وسلم )آخری نبی ہیں میں ان کی گستاخی کا سوچ بھی نہیں سکتی “اسلام میں گناہ گار کی توبہ بھی قبول کرلی جاتی ہے ۔آسیہ نے سچ مچ جرم کا ارتکاب کیا تھا تب بھی میڈیا کے سامنے اس کے الفاظ پر یقین اور رحم کرنے کی گنجائش موجود تھی“یہ تھی موصوف کی منطق....جو نعوذ باللہ اپنی اس تحریر میں نبی اقدسﷺ جیسی بزرگ وبرتر ہستی سے بھی زیادہ علم رکھنے کا دعویٰ کر گئے کیونکہ اگر کفر و الحاد کی عینک اتار کر بحثیت مسلمان تاریخ اسلام کا معمولی سا مطالعہ بھی کر لیتے تو انھیں معلوم ہو جاتا کہ محمد عربی ﷺ کی شان میں گستاخی کے بعد معافی نہیں سزائے موت ملتی ہے فتح مکہ کے موقع پر نبی اقدس ﷺ نے حضرت یوسف علیہ السلام کی سنت پر عمل کرتے ہوئے اپنے تمام دشمنوں کو معاف کردیا لاتثریب علیکم الیوم....لیکن بات یہاں رک نہیں گئی....اس عام معافی کے باوجود وہ چار افراد جو ارتداد اور توہین رسالت کے مرتکب ہوئے تھے پیش کئے گئے تو ان کے قتل کا فیصلہ خاتم الانبیاءﷺ نے خود فرمایا اور ان تین مردوں اور ایک عورت کو موت کی سزا سنائی گئی۔ ان میں سے خاتون قریبہ جو ابن اخلی کی لونڈی تھی اور مکہ کی مغنیہ تھی آنحضرت ﷺ کی شان میں گستاخی اور ہجو پر مبنی گیت اس کا وطیرہ تھے (بخار ی٬ فتح مکہ اور شبلی نعمانی کی سیرت النبی جلد اول )۔

اب اس ملعونہ گستاخ رسول ﷺ آسیہ مسیح کا مقدمہ عدالت میں ہے اور لاہور ہائی کورٹ نے اپنے حکم امتناہی میں حکومت کو ہدایت جار ی کی ہے کہ وہ توہین رسالت کی مرتکب خاتون کی سزائے موت کو معافی میں نہ بدلے اپنے حکم امتناہی میں عدالت نے کہا کہ معاملہ جب عدالت میں ہو تو صدر مملکت کو معافی کا اختیار نہیں ہے لیکن اس کے باوجود نام نہاد روشن خیا ل طبقات اور مغرب پاکستان پر دباﺅ بڑھا رہا ہے کہ اس ملعونہ کو رہا کیا جائے کلیسائے روم کے پوپ بینی ڈکٹ نے بھی اسے رہا کرنے کا مطالبہ کیا ہے پہلے ہی اٹلی ٬ برطانیہ کے کلیسائے روم میں نصف درجن سے زائد ملعونین ومجرمین کو محفوظ رہائش گاہیں اور روزگار فراہم کیا گیا٬ افغانستان کا مرتد عبد الرحمن ٬ مصر کی ملعونہ کمیلا شاہنہ٬ بحرین کا ملعون یاسر الحبیب ٬ کابل کا صحافی احمد یہ سب غداران اسلام کلیسائے روم کی سرپرستی میں مختلف ممالک میں رہائش پذیر ہیں اب امریکہ نے بھی اس ملعونہ آسیہ مسیح کو ویزہ سمیت رہائش دینے کا عندیہ دیا ہے ۔ ہم حکومت وقت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ بحثیت اسلامی مملکت کے حکمران انھیں زیب نہیں دیتا کہ اسلام اور مسلمانوں کی مجرمہ کو عالم کفر کے سپرد کردیں ایسے کسی بھی اقدام کی صورت میں ملک میں امن وامان کی بدترین صورتحال پیدا ہو سکتی ہے جو یقینی طور پر ملکی مفاد میں نہیں ہو گی اس موقع پر ہم حکومت سے یہ بھی مطالبہ کرتے ہیں 295سی آمر کا نہیں اللہ و رسول ﷺ کے بنائے گئے قانون کی تشریح ہے اس لئے اس میں رد وبدل سے گریز کریں ہمار ی دعا ہے کہ اللہ رب العزت اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بالعموم اور کراچی میں بالخصوص امن قائم فرمائے (آمین)
INAM UL HAQ AWAN
About the Author: INAM UL HAQ AWAN Read More Articles by INAM UL HAQ AWAN: 24 Articles with 27383 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.