سلام اے شیر اسلام

رنگ و نور .سعدی کے قلم سے
اﷲ تعالیٰ سے سچی مَحبَّت رکھنے والے مسلمان کے لئے شہادت سے بڑھ کر اور کیا بڑی نعمت ہو سکتی ہے. سرخ خون کا جوڑا. گلرنگ زخموں سے سجا ہوا جسم. عشق کی لذت بھری دھار سے کٹے ہوئے اعضا. سر اور داڑھی پر مٹی کا غبار، جیسے مہندی کا سنگار. اور فتح کے خمار سے سرشار روح. اﷲ اکبر کبیرا. رب کعبہ کی قسم شہادت بہت عظیم، بہت لذیذ اور بہت مست نعمت ہے. حضرت شیخ اسامہ بن لادن بہت خوش نصیب تھے. وہ زندہ رہے تو مجاہد اور فاتح بن کر. اور رخصت ہوئے تو شہید بن کر. واہ خوش نصیبی، واہ خوش نصیبی. پھر آج’’سعدی‘‘ رو کیوں رہا ہے؟. یہ ٹپ ٹپ برستے آنسو. یہ سینہ چیر کر نکلنے والی ہچکیاں. اور یہ کانپتا ہوا قلم. ہاں بے شک! شیخ اسامہ بہت پیارے انسان، پورے مسلمان اور بڑے مجاہد تھے. اُن جیسوں کی جدائی پر بھی غم نہ ہو تو پھر. کس کی جدائی پر ہوگا. اُن جیسے لوگ صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں. موجودہ زمانے کے مسلمان فخر کر سکتے ہیں کہ وہ ملّا محمد عمر مجاہد. اور شیخ اسامہ شہید کے زمانے میں پیدا ہوئے. ایمان، جرأت، غیرت اور اسلامی فتوحات کا زمانہ. آج مسلمانوں پر جو غم اور صدمہ ہے وہ کسی شکست کا نہیں. بلکہ ایک محبوب شخصیت کے کھونے کا ہے. اور یہ وہ غم ہے جو مایوسی نہیں غیرت اور قربانی کی دعوت دیتا ہے. آج معلوم نہیں کتنے نوجوان گناہوں کو چھوڑ کر. توبہ کی چوکھٹ پر آئیں گے اور اسلام کی خاطر قربانی کا عزم کریں گے. سبحان اﷲ! شیخ اُسامہ کی قسمت تو دیکھیں کہ اﷲ تعالیٰ نے اُن کو سراپا جہاد بنا دیا. نام بھی جہاد کہ جو کافر بھی سنے تو اُس کے دل پر خنجر چلے. آواز بھی جہاد کے جب بھی گونجے دشمنان اسلام کو نقصان پہنچائے. اور وجود بھی جہاد کہ جس کی تلاش میں روز لاکھوں، کروڑوں ڈالر کے خسارے عالم کفر کو بھگتنے پڑے. بے شک اخلاص بڑی چیز ہے. اور ہجرت سے توفیق کے راستے کُھلتے ہیں. عجیب بات ہے کہ امریکہ اور یورپ میں جشن منایا جارہا ہے. یہ بھی اُن کی شکست اور کمزوری کا ثبوت ہے.اُن کو مایوسیوں کے درمیان ایک اچھی خبر ملی ہے. حالانکہ امریکہ اس وقت طوفانوں سے لرز رھا ہے. امریکہ کی وسطی اور جنوبی ریاستوں میں ایسا ہولناک عذاب آیا ہے کہ درخت، کھمبے، گاڑیاں اور مکانات. ہوا میں تنکوں کی طرح اُڑ رہے ہیں. سینکڑوں لوگ مارے جا چکے ہیں. اور کئی ریاستوں میں ہنگامی حالت کا اعلان ہے. خود ابامہ کا کہنا تھا کہ میں نے ایسی خوفناک تباہی پوری زندگی میں نہیں دیکھی. اُدھر کابل میں تین چار دن پہلے ایک افغان پائلٹ’’گل احمد‘‘نے نو امریکی فوجی افسر اور ایک امریکی ٹھیکیدار کو بھون دیا. فونکس پر فدائی حملے میں اُنتیس امریکیوں کی. اور اس تازہ واقعہ میں دس امریکیوں کی لاشیں. امریکی عوام نے وصول پائیں. قرآن پاک کی بے حرمتی کا وبال بری طرح سے طوفان اٹھا رہا ہے. ان حالات میں حضرت شیخ اسامہ بن لادن کی شہادت پر جشن منایا جا رہا ہے. حالانکہ شیخ کو وہ سب کچھ مل گیا جو وہ چاہتے تھے. اور امریکہ کے ہاتھ میں کچھ بھی نہ آیا. کل تک شیخ اسامہ کافروں کی کمزوری اور شکست کا نشان تھے. اور آج شیخ اُسامہ اپنی فتح اور سرفرازی کا نشان ہیں. وہ نہ تو کسی محاذ پر لڑ رہے تھے کہ اُن کی شہادت سے وہ محاذ بند ہو جائے گا. اور نہ وہ ایسی حالت میں تھے کہ مجاہدین کی تشکیلات کرتے ہوں. وہ تو اس طرح سے تھے جس طرح کسی لشکر میں اسلامی جھنڈا ہوتا ہے.مجاہدین اس جھنڈے کو دیکھتے ہیں تو جم کر لڑتے ہیں. اس جھنڈے میں ایک ’’ہلال‘‘ ہوتا ہے جو اسلا م کی عظمت کا پیغام سناتا ہے. اور ایک ستارہ ہوتا ہے جو جہاد کی دعوت دیتا ہے. مگر جب ایسی شخصیت کو شہید کر دیا جائے تو اس جھنڈے میں ایک اور ستارہ ابھر آتا ہے. اور یہ انتقام پر ابھارنے والا نشان بن جاتا ہے. شیخ اسامہ شہید کے ساتھ کروڑوں مسلمانوں کی دعائیں تھیں . ان دعاؤں کے صدقے اﷲ تعالیٰ کی ایسی نصرت رہی کہ دس سال تک دنیا بھر کی جنگی ٹیکنالوجی سر پٹختی رہی. کروڑوں ڈالر کے انعامات کا اعلان ہوا. فضا سے سیارچوں نے زمین کے ایک ایک کونے کو کھنگال لیا. سینکڑوں آپریشن لانچ ہوئے. صدر بش کے دو﴿۲﴾ دور حکومت اسی کوشش میں غرق ہو گئے. مخبروں اور جاسوسوں کے ٹولے بھرتی کئے گئے. گرفتار مجاہدین کی ہڈیوں اور کھالوں کو توڑا اور کاٹا گیا. مگر اﷲ تعالیٰ کی حفاظت کے حصار کو کوئی نہ توڑ سکا. یقیناً ان دس سالوں میں عبرت والوں کے لئے بڑی بڑی نشانیاں ہیں. سب مسلمانوں کی خواہش تھی کہ شیخ سلامت رہیں اور جس طرح انہوں نے سوویت فوجوں کو ذلت کے ساتھ افغانستان سے نکلتے دیکھا. اسی طرح نیٹو فوجوں کے انخلا کو بھی دیکھیں. مگر ہر مسلمان اور ہر مجاہد کو یہ بھی علم تھا کہ یہ جنگ ہے اور اس میں کسی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے. حضرات صحابہ کرام(رض) جہاد میں اُترے تو ان کو جہاد کے تیسرے سال ہی یہ سبق پڑھا دیا گیا کہ اس مبارک جہاد میں حضرت آقا مدنیﷺ بھی شہید ہو سکتے ہیں. اگر کامیابی چاہتے ہو تو پھر اپنے دلوں کو اتنے عظیم ترین صدمے اور حادثے کے لئے بھی تیار رکھو. اور اگر یہ حادثہ ہو جائے تو پھر ایک قدم بھی میدان سے پیچھے نہ ہٹنا. حضرات صحابہ کرام(رض) کے لئے اس سے بڑا نقصان اور حادثہ اور کوئی نہیں ہو سکتا تھا. قرآن پاک نے اُن کو اسی حادثے کے لئے ذہنی طور پر تیار کیا تو پھر کوئی حادثہ بھی اُن کے لئے مایوسی اور دل شکنی کا ذریعہ نہ بن سکا. موجودہ جہاد میں شرکت کرنے والے مجاہدین جانتے ہیں کہ اس طرح کے حادثات تو لازماً ہوتے ہیں.یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ مجاہدین تو شہادت کے جام پیتے رہیں اور اُن کے مخلص قائدین اس عظیم نعمت سے محروم رہیں. مجاہدین اگر شہادت کی دعا دن میں پانچ بار کرتے ہیں تو اُن کے قائدین یہی دعا دس بار کرتے ہیں. جہاد میں کسی کی بھی گرفتاری ہو سکتی ہے. مگر گرفتاری اﷲ تعالیٰ کی آزمائش ہے. وہ جن افراد سے مزید کچھ کام لینا چاہتا ہے اُن کو اس آزمائش میں ڈالتا ہے. اور جہاد میں شہادت بھی ملتی ہے. اور شہادت اﷲ تعالیٰ کا انعام ہے. شیخ اسامہ زیادہ خوش نصیب رہے کہ اﷲ تعالیٰ کی آزمائش سے بچ کر انعام کے مستحق ہوئے. معلوم ہوا کہ اُن کی محنت، مزدوری اور مشقت کا وقت ختم ہو چکا تھا . اور اب انشا اﷲ اُن کی راحت، اور خوشی کا وقت شروع ہو چکا ہے. افغانستان میں جب سوویت یونین کے خلاف جہاد شروع ہوا تو دنیا بھر سے سعادت مند مسلمان اس جہاد میں شرکت کے لئے افغانستان پہنچے. شیخ اسامہ اُس وقت ایک نوخیز، نوجوان تھے.سعودی عرب کے ایک مالدار یمنی نسل گھرانے سے تعلق رکھنے والا. انجینئرنگ کا طالب علم اُسامہ جب پشاور پہنچا تو کسی کو خبر نہیں تھی کہ یہ شخص ایک پورے جہادی مکتب فکر کا بانی بننے والا ہے. مفکر جہاد حضرت شیخ عبداﷲ عزام شہید نے خوست کی طرف جو پہلا دستہ روانہ کیا. شیخ اسامہ اُسی دستے کے ایک عام مجاہد تھے. شیخ عزام نے اس دستے کا نام.’’کتیبۃ الغربائ‘‘ رکھا تھا. یعنی مسافروں کا ایک جہادی دستہ. عربی زبان میں’’غریب‘‘ مسافر اور اجنبی کو کہتے ہیں. شیخ اُسامہ اُسی وقت سے جہاد کے ہو گئے . اور جہاد اُن کا ہو گیا.پھر انہوں نے اپنی جہادی جماعت’’القاعدہ‘‘ بنائی. پشاور میں اس جماعت کا دفتر’’ مکتب الانصار‘‘. اور جلال آباد میں اس جماعت کا معسکر’’مأسدۃ الانصار‘‘ کھلے عام چلتے تھے. نواز شریف کے پہلے دور اقتدار میں پاکستان میں مقیم عرب مجاہدین پر زمین تنگ کی گئی تو شیخ اُسامہ کچھ عرصہ کے لئے واپس سعودی عرب جا بیٹھے اور انہوں نے’’یمن‘‘ کے محاذ پر جہاد کی خدمت اور سرپرستی شروع کر دی. پاکستان کے حالات بہتر ہوئے تو واپس آئے مگر اب یہاں پہلے جیسی آزادی نہیں تھی. بالآخر وہ سوڈان چلے گئے. خرطوم میں اُن کا گھر تھا. اور چار تجارتی کمپنیاں. اور درجنوں مجاہدین کے گھرانے.یہاں سے بیٹھ کر شیخ نے صومالیہ میں پنجہ آزمایا. اور افریقہ کے مختلف ملکوں میں اپنا کام پھیلایا. کینیا کے دارالحکومت نیروبی. اور تنزانیہ کے دارالسلام میں امریکی سفارتخانوں پر حملے ہوئے تو. سوڈان کی حکومت نے شیخ سے سوڈان چھوڑ جانے کی درخواست کی. یہ غریب مجاہد الجزائر جا پہنچا. وہاں ایک قاتلانہ حملے میں شیخ کو گویا نئی زندگی ملی اور اُن کا رخ واپس افغانستان کی طرف ہو گیا. جلال آباد میں گورنر حاجی عبدالقدیر خان نے اُن کو رہائش دی. تورا بورا کا مرکز قائم ہوا. اسی اثنا میں طالبان نے افغانستان پر اسلامی امارت قائم فرما دی. شیخ بھی قندھار جا بیٹھے. اور پھر نائن الیون، یعنی گیارہ ستمبر ہوا. اور دنیا ایک نئی جنگ میں جُھلسْنے لگی. اور آج یہ خبر آرہی ہے کہ شیر اسلام بھی شہدا اسلام میں شامل ہو گئے ہیں.شیخ کے ساتھ اﷲ تعالیٰ کی حفاظت کا معاملہ عجیب تھا. کتنی بار موت اُن کے پاس سے گزر گئی مگر وہ موت کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتے رہ گئے. وہ دنیا کے سب سے مطلوب شخص تھے. مگر پھر بھی تقریباً ساٹھ سال کی عمر جی گئے اور پھر موت کے وقت اُسے بھی شکست دیکر شہادت کی زندگی پا گئے. وہ نازونعمت کے پلے ہوئے انسان تھے مگر دین کی خاطر اُن کا دل روتا رہا اور جسم مشقتیں سہتا رہتا. اُن کو شوگر کی تکلیف ہوئی. مگر اُن کے نظریات اور عزائم میں کوئی فرق نہ آیا. انہیں گردوں کا شدید عارضہ لاحق ہوا. مگر مجال ہے کہ اُن کے عزم و حوصلے میں کوئی فرق آیا ہو. جو لوگ جہاد کا کام کرتے کرتے اکتا جاتے ہیں اُن کے لئے شیخ کی زندگی میں بڑا سبق ہے. شیخ کا نظریہ یہ تھا کہ زیادہ سے زیادہ لڑو، زیادہ سے زیادہ پھیلو. اور جتنا ہو سکے زیادہ دیر تک لڑو. شیخ کی اسی محنت اور اخلاص کا نتیجہ تھا کہ اُن کا جہادی فیض اُن کی زندگی میں دور دورتک پھیل گیا. عراق کی لڑائی میں اُن کے ایک ساتھی شیخ ابو مصعب الزرقاوی نے ایوبی(رح) دور کی یادیں تازہ کیں. چیچنیا کے جہاد میں اُن کے ایک ساتھی خطاب شہید نے قفقاز کے پہاڑوں کو جہادی زمزموں سے گرما دیا. یمن کی تحریک میں شیخ کا بڑا حصّہ تھا. اور صومالیہ تو اُن کے مجاہدین کا اب بھی ایک مضبوط بیس کیمپ ہے. دشمنوں نے شیخ کو’’مطلوب‘‘ بنایا تو اﷲ تعالیٰ نے اپنے اس مسافر بندے کو’’محبوب‘‘ بنا دیا. لاکھوں مسلمانوں نے اپنے بچوں کا نام’’اُسامہ‘‘ رکھا. اور دنیا بھر میں ’’اُسامہ‘‘ کا نام عزت وغیرت کا استعارہ بن گیا. ہم جہاد کے میدان میں امیر المؤمنین حضرت ملا محمد عمر مجاہد حفظہ اﷲ تعالیٰ کے نظریات سے رہنمائی لیتے ہیں. مگر اس کی وجہ سے شیخ اسامہ کے ساتھ محبت میں کوئی کمی نہیں آئی. شیخ اُسامہ کا اپنا جہادی انداز تھا. وہ جنگ کو پھیلانے پر یقین رکھتے تھے. اور انتقامی طرزِجنگ کو پسند کرتے تھے. شیخ کے اس طرز جہاد کو دیکھتے ہوئے یہ بات پورے یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ شہادت کے بعد شیخ اپنے دشمنوں کے لئے زیادہ خطرناک ہو چکے ہیں. اُن کے مجاہد ساتھی پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں. اور اُن کی بہت سی کاروائیاں شیخ کے تحفظ کے لئے رکی ہوئی تھیں. اب یہ دستے مزید آزاد ہو جائیں گے. اور اُن کے دلوں میں اُبلنے والے انتقام کے شُعلے خوفناک انداز میں بھڑک اٹھیں گے. خیر دنیا کا جو بھی مقدّر. آج تو شیخ اُسامہ بن لادن کی شادی کا دن ہے. ہاں اُن کی خوشی اور ہم مسلمانوں کے غم کا دن. ہمارے پاس ایسے الفاظ نہیں ہیں جن سے ہم اس عظیم جہادی شہزادے کو خراج تحسین پیش کر سکیں. وہ بے شک اسلام اور مسلمانوں کا قابل فخر اور باعث ِعزت سرمایہ تھے. ہم دل کی عقیدت اور محبت کے ساتھ اُن کی پاکیزہ اور سرفراز روح کو’’سلام‘‘ پیش کرتے ہیں. اے شیر اسلام. الوداع.سلام ہو آپ پر. اور آپ کے تمام اہل خانہ اور رفقا پر جو آپ کے ساتھ ہی شہادت کا تاج پہن گئے. ہم خود راہ جہاد کے ’’غربا‘‘ میں سے ہیں بے گھر، بے وطن. مگر پھر بھی بہت شرمندہ ہیں کہ . شیر اسلام کی شہادت پاکستان میں ہوئی.کاش ایسا نہ ہوتا. کاش ایسا نہ ہوتا.
اللھم صل علیٰ سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیماکثیرا کثیرا کثیرا
Shaheen Ahmad
About the Author: Shaheen Ahmad Read More Articles by Shaheen Ahmad: 99 Articles with 210685 views A Simple Person, Nothing Special.. View More