کورونا وائرس کے تعلق سے خوف اور تشویش میں مبتلا ہونا اس
معمولی جرثیمسے آدھی شکست تسلیم کرلینے کے مترادف ہے۔ خوف کے بجائے مقابلے
کی تیاری ہو تب ہی اسے چاروں شانے چت کیا جاسکتا ہے۔ مقابلے کا راز جہاں
باخبری اور احتیاط میں پنہاں ہے وہیں خود کو یہ سمجھانے میں بھی ہے کہ
کورونا ایک جرثیم ہی تو ہے، ایسے کتنے جرثیمہمارے آس پاس ہمہ وقت ٹہلتے
رہتے ہیں جن کا شکار ہوکر اس دارِ فانی سے کوچ کرجانے والوں کی تعداد کئی
ملکوں میں جتنی ہے اتنی تو کورونا کی وجہ سے پوری دنیا میں نہیں ہوئی۔
پوری دنیا کی آبادی کتنی ہے۔اور کورونا کتنوں کو زیر کرسکا؟۔ جتنے لوگ اس
سے متاثر ہوئے ان کا صرف 2%فیصد ایسے تھے جو فوت ہوئے، بقیہ بقید حیات ہیں
اور عام علاج سے انہیں صحت مل گئی یا وہ تیزی سے شفایاب ہورہے ہیں ۔ اس کے
برخلاف، صرف پاکستان میں ملیریا سے متاثر افراد کی تعداد ہزار ںسے زیادہ
ریکارڈ کی گئی۔ علاج معالجہ کی نسبتا بہتر سہولت اور عوام کی باخبری کی وجہ
سے ملیریا بھی اب قابو میں آرہا ہے چنانچہ اس سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد
بھی کم ہورہی ہے۔ پورے ملک میں اس مرض ملیریامیں مبتلا ہوکر لقمہ اجل بن
جانے والوں کی تعداد ، کورونا سے کہیں زیادہ تھی۔ معلوم ہوا کہ کورونا سے
نہ تو متاثر ہونے والوں کی تعداد زیادہ ہے نہ ہی فوت ہونے والوں کی۔ قارئین
جانتے ہیں کہ غذائیت کی کمی کے سبب بھی ہزاروں لوگ بالخصوص بچے دم توڑ دیتے
ہیں ، دیہی علاقوں کا تو حال ہی نہ پوچھئے، کئی بیماریاں علاج معالجہ کے
فوری اور موثر انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے ہلاکتوں کا سبب بنتی ہیں ۔ہم میں
شاید ہی کوئی ہو جو ان حقائق سے واقف نہ ہو۔
انسان احتیاط رکھے، جن چیزوں سے ماہرین نے منع کیا ہے وہ نہ کریں اور اگر
کچھ علامات نظر آئیں تو فوری طور پر علاج کروائے تو یقینی طور پر کورونا
کہلانے والا یہ وائرس اس کا کچھ نہ بگاڑ سکے گا۔ گزشتہ چند دنوں میں کئی
مبصرین نے لکھا ہے کہ کورونا جتنی تیزی سے پھیلتا ہے اس سے زیادہ تیزی سے
اس کا خوف سفر کرتا ہے۔مبصرین کا یہ مشاہدہ غلط کیسے ہوسکتا ہے جبکہ ہمارا
آپ کا مشاہدہ بھی یہی ہے۔
ہم اس خیال سے متفق نہیں ہیں کہ کورونا کے پیچھے بڑی عالمی طاقتوں کی کوئی
سازش یا منصوبہ ہوگا جس کے ذریعہ وہ نامعلوم فائدہ اٹھانا چاہتے ہوں گے۔
بالفرض محال اس تھیوری میں معمولی سی بھی سچائی ہو تب بھی ہر خاص و عام پر
لازم یہی آتا ہے کہ ہر ممکن احتیاط کے ساتھ، خود کو ہمیشہ کی طرح ہشاش بشاش
رکھیں ، نہ تو گھبرائیں نہ ہی خوفزدہ ہوں تاکہ اس مفروضہ سازش یا منصوبے کی
کامیابی کا آلہ کار بننے سے محفوظ رہ سکیں ۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کورونا کے متاثرین میں دو طرح کے مریض ہوتے ہیں ۔
پیکنگ یونیورسٹی کے تحقیق کا(ووہان (چین کے متاثرین کے معائنے کے بعد اس
نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ایک کورونا وائرس وہ ہے جو زیادہ جارح ہوتا ہے جبکہ
دوسرا اتنا جارح نہیںہوتا۔ پہلی قسم کا وائرس ووہان میں ابتدائی دنوں میں
پایا گیا تھا جس پر جنوری کے اوائل میں قابو پالیا گیا تھا۔ شاید یہی وجہ
ہے کہ جتنی اموات چین میں ہوئیں اتنی اگر کسی دوسرے ملک میں ہوئی ہیں تو اب
اٹلی کا نام آرہا ہے جبکہ کسی اور ملک میں اتنی اموات نہیں ہوئی ہیں ۔
خوف کھاجانا کسی مرض سے آدھی شکست تسلیم کرلینے جیسا ہے جبکہ قوت ارادی وہ
ہتھیار ہے جس سے مکمل فتح حاصل ہوسکتی ہے۔ فیصلہ ہمیں کرنا ہے کہ ہم نے
احتیاط سے اس مرض کو روکنا ہے یا بھر خوف کھا کر کئی اور بیماریوں کو جنم
دینا ہے،یہ بات تو طے ہے کہ اگر آپ کسی بھی پروجیکٹ ،کسی بھی ٹارگٹ یا کسی
بھی کام سے خوف کھا جائیں تو آپ آدھی شکست تو اس سے پہلے ہی تسلیم کر لیتے
ہیں ،جب آدھی شکست شروع سے ہی تسلیم کر لیں گے تو آپ کسی بھی کام کو مکمل
کرنے سے پہلے ہی مکمل شکست کھا جاہیں گے جب کہ ہم میں وہ کام بہت احسن
طریقے سے انجام دینے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے لیکن خوف کی وجہ سے آپ اپنی
صلاحیت کو بروء کار نہیں لا سکتے اور آپ اس کام کو خود ہی بگاڑ دیتے
ہیں۔لہذا ہمت کریں اور اللہ پاک پر کامل یقین رکھیں۔کامل یقین کا مقصد یہ
نہیں کہ آپ زہر پی لیں اور کہیں کہ اللہ پر کامل یقین ہے وہ مجھے بچائے گا
تو یہ کامل یقین نہیں ہے بلکہ یہ خود کشی ہے اور خودکشی اسلام میں حرام
ہے،لہذا ہمیں احتیاط کرنی چاہیے اور یہ یقین ہونا چاہیے کہ جو کچھ بھی ہو
گا وہ اللہ کی طرف سے ہو گا اور اللہ اپنے بندوں کے ساتھ کبھی بھی ناانصافی
نہیں کرتا۔
|