لگیاں نے موجاں ہن لائ رکھی سوہنیا

یہ تحریر کرونا وائرس کی وجہ سے پیدا ہونے والے حالات اور انکے حل پہ لکھی گئ ہے

خلاف معمول اتوار کو جلدی اٹھ جانا میری نفسیات میں شامل ہو چکا ہے جس کی اور وجوہات کے ساتھ ساتھ ایک وجہ یہ بھی تھی کہ سارا دن گھر والوں کو کوسا جائے کہ سارا دن آپ سوئے رہتے ہیں کچھ کام بھی کر لیا کرو ، مجھے دیکھو صبح کا جاتا ہوں اور سارا دن فخر کے مارے دوسروں کے سامنے نصیحتوں کے انبار لگائے جائیں ۔

مگر اب ایک اور وجہ جو کہ مثبت تھی، میری نفسیات میں شامل ہو گئ اور وہ یہ تھی کہ صبح کا مطالعہ بہت مفید ہوتا ہے اگر بندہ یہ روٹین بنا لے تو زندگی میں کبھی مار نہیں کھاتا۔

چونکہ یہ لاک ڈان کے دن ہیں تو میں بھی دنیا کی معیشتوں پر لاک ڈان کے اثرات کا مطالعہ کر رہا تھا کہ اچانک میری سماعتوں میں بیداری آئ اور مجھے یہ سننے کو ملا " لگیاں نے موجاں ہن لائ رکھی سوہنیا " صدا لگانے والے نے صدا لگائ اور یہ سنتے ہی میرے جسم میں ارتعاش آ گیا۔

ارتعاش کیوں نہ آتا جب میں نہ نظر آنے والے دشمن کی تباہ کاریاں پڑھ رہا تھا، میں پڑھ رہا تھا کہ سپر پاور کہلانے والے ملک کا طاقتور ترین صدر جس کا ایک حکم دنیا کی آبادی کا فیصلہ کرتا ہے، جو چاہے تو ملکوں اپنے ایک فیصلے سے تباہ کرا دے یا انہیں امن کا انعام دے، وہ صدر جو ہوا میں مکے لہرا کر کہتا تھا کہ اس چھوٹے سے وائرس کا جوانمردی سے مقابلہ کریں گے ،ہاں وہی صدر جو اس وائرس کو چین کے وائرس کا نام دیتا تھا اب وہی صدر، ہاں ہاں وہی صدر بے بسی کے عالم میں بہت ٹوٹے ہوئے انداز میں بیان دے رہا تھا کہ ہم بے بس ہو گئے ہیں، یہ وائرس ہمارے کنٹرول میں نہیں رہا،اور اگر ہم نے لاکھ اموات ہونے تک اسے روک لیا تو بہت بڑا معجزہ ہو گا۔ اس ہولناک منظر کے بعد جب میری سماعتیں یہ آواز میرے قلب و دماغ تک پہنچائیں تو یقینا ارتعاش پیدا ہونا ہی تھا۔

ارتعاش کیوں نہ پیدا ہوتا جب میں پڑھ چکا تھا کہ وہ ملک جس نے پوری دنیا کو اپنی کالونی بنایا ( کالونی، جہاں وہ اپنی مرضی سے کچھ بھی کر سکتا ہے، سفید کو سیاہ، سیاہ کو سفید کہہ سکتا ہے، غلام کو آقا، آقا کو غلام بنا سکتا ہے) اس ملک کا وزیراعظم اس کی لپیٹ میں آ جائے اور بیان جاری کرے کہ ہم عوام کے لیے کچھ نہیں کر سکتے ، ہم بے بس ہو گئے ہیں، اب خدا ہی ہمیں بچا سکتا ہے، اور ساوتھ افریقہ جیسا ملک جو 1995 تک اسکی کالونی رہا برطانیہ کے لوگوں کے داخلے پر پابندی لگا دے ،،اس حولناک منظر میں یہ بول " لگیاں نے موجاں ہن لائ رکھی سوہنیا" ایک عجیب فضا پیدا کرتا تھا۔

جب اٹلی جیسا ملک یہ سوچنے پہ مجبور ہو جائے لگ جائے کہ ان دوستوں کا کیا فائدہ جنہوں نے مشکل وقت میں سوائے میرے ساتھ بارڈر بند کرنے کے اور کوئ مدد نہ کی ہو۔ اور یقینا یہ مدد نہیں تھی۔
میرے جیسا عام آدمی کیسے یقین کر سکتا کہ وہ دوستی جسے دنیا کی طاقتور ترین دوستی کہا جاتا تھا جو دوسری جنگ عظیم کے بعد وجود میں آئ، وہ دوستی جس کی مثالیں میرے جیسے لاکھوں پچپن سے سنتے آ رہے تھے کہ ان 28 ممالک کے درمیان کوئی بارڈر نہیں ہے، اٹلی کا شہری دوسرے 27 ملکوں کا بھی شہری ہوتا ہے اور اس کو وہ سارے حقوق جو اٹلی میں ملتے ہیں باقی ممالک میں بھی ملتے ہیں ۔ ایسی دوستی جس میں 28 ممالک کی کرنسی ایک ہو اور وہ دوستی جس کے بل بوتے پر دنیا کے کسی ملک کو بھی دھمکی دی جاتی تھی اب شاید ٹوٹنے کو ہے۔

اس ہولناک منظر میں ایسی کیا موجیں تھی جن کا علاج گلی گلی کیا جا رہا ہے ۔ یقینا جو طبقہ یہ آوازیں ہم کو سنا رہا تھا اسکی موجیں ہی موجیں تھی۔ اسکو بغیر مانگے بغیر کسی پریشانی کے اسکی دہلیز پر اس کے گھر کے لیے راشن کو پہنچایا جا رہا تھا جس کے لیے وہ پہلے صبح سے لیکر شام تک ہزاروں دہلیزوں پہ جا کر بھی نہیں حاصل کر پاتا تھا اب اتنی وافر مقدار میں اسے دیا جا رہا تھا کہ صبح کو دینے والے دے جاتے تھے مگر شام کو پھر دستک ہوتی تھی کہ راشن کی ضرورت ہے تو ہم لے آئے ہیں اور آگے سے اتنی فراخ دلی کے ساتھ کہا جاتا کہ ہمیں صبح مل گیا ہے ۔یقینا اس طبقے کے لیے موجیں ہی موجیں تھی جسے صبح کا کھانا تو میسر آتا تھا مگر شام کو ترسیں آنکھوں کے ساتھ سو جانا ہی تمام مصیبتوں کے چھٹکارے کا واحد ذریعہ ہوتا تھامگر نیند بھی کیونکر آئے۔ اب اس طبقے کو 15 دنوں کا راشن مل رہا تھا ۔صرف راشن ہی نہیں 12 کی ہزار کی کثیر رقم بھی انکو دی جا رہی تھی۔

یقینا آواز دینے والے کے لیے موجیں ہی تھی کہ پہلے موٹر سائیکل، گاڑیوں کا شور اسکی آواز کو دبا دیتا تھا اب گلی گلی گونج رہی تھی ۔

اور شاید آواز دینے والا ہمیں ڈرا رہا تھا کہ ہوش کے ناخن لو۔ ہوش کے ناخن لو اور ہماری زندگیوں کو عذاب نہ بناو اور ایک عہد کرو کہ ہم تمہاری اور تمہارے جیسے ہزاروں کی موجیں یوں ہی لگائے رکھیں گے شاید وہ ہمیں ڈرا رہا تھا کہ وعدہ کرو کہ آئیندہ ہمارے معاشرے میں کوئ بندہ بھوک سے نہیں مرے گا، کسی باپ کو خودکشی نہیں کرنی پڑے گی، کسی ماں کو معصوم بچے کا پیٹ بھرنے کے لیے دنیا جہاں کی قیمتی چیز ،اپنی عصمت نہیں لوٹانی پڑے گی۔ شاید رب العالمین کی ذات اس جیسے منادیوں سے یہ آوازیں لگوا رہے ہوں کہ اے انسان! میں نے تمہیں دولت دی، شہرت دی اس خے ساتھ ساتھ آسائیشیں دی مگر بدکے میں توں نے میرے بندے کو کیا دیا توں نے اس دولت کا اب جو کرنا ہے کر میں اپنے بندے کا انتظام خود کرتا ہوں۔ مگر تیرے لیے توبہ کا دروازہ کھلا ہے آ جاو اور میری مخلوق سے معافی مانگو اور میں تمہیں معاف کر دوں ۔ شاید ہمیں یہ بتایا جا رہا ہو کہ نمازیں تو تم لمبی لمبی پڑتے ہو ، اونچی اونچی آواز میں ممبروں پہ بیٹھ کے خطبے بھی دیتے ہو مگر کبھی اپنے پڑوس میں یہ دیکھنے کی زحمت گوارا کی کہ آج انہیں کھانا نصیب ہوا یا نہیں ۔آج میرے پڑوس میں رہنے والا بچہ بھوک سے تو نہیں سویا، آج میرے پڑوس میں رہنے والی کسی مسکین کی عزت تو نہیں لٹی ، آو کہ توبہ کا دروازہ کھلا ہے میرے ان بندے بندیوں سے معافی مانگواور ان سے عہد کرو کہ آج سے تمہاری موجیں ختم نہیں ہونگی۔

اور منادی خوشی سے جھومتا صدائیں لگا رہا ہو کہ آو مجھ سے عہد کرو کہ میری موجوں میں کمی نہیں آئے گی اور یقینا ہمیں ایسے عہد میں ذرا سی بھی دیر نہیں کرنی چاہیے کہ ہمارے سروں سے عذاب ٹلے یا انکی موجیں لگانے والا تو ان بول کے بدلے ضرور موجیں لگائے رکھے گا۔

" لگیاں نے موجاں ہن لائ رکھی سوہنیا
چنگے آں یا مندے آں نبھائ رکھی سوہنیا" ۔

 

Muhammad Usman
About the Author: Muhammad Usman Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.