کرونا وائرس اور ہماری ہٹ دھرمی

آج کل دنیا کے میڈیا پر زیادہ تر کرونا وائرس کے موضوعات پر بات ہو رہی ہے۔ اور اس سے بچنے کے طریقے اور احتیاطی تدابیر اختیار کی جا رہی ہیں لیکن ہر ملک میں اور خاص طور پر پاکستان میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو ہر واقعے اور ہر بیماری میں مذہبی پہلو اور اغیار کی سازشیں ڈھونڈنا شروع ہو جاتا ہے۔ اسی سلسلے میں لکھی گئی ایک تحریر امید ہے کہ قارئین کو پسند آئے گی

چاچا عارف مسجدسے نماز پڑھ کر باہر نکلے تو شہزاد اندر آ رہا تھا چاچا نے مصافحہ کرنے کے لیے ہاتھ آگے بڑھایا تو شہزاد جو کہ وائرس کے ڈر کی وجہ سے کافی احتیاط برت رہا تھا اس کو مجبوراََ مصافحہ کرنا ہی پڑا لیکن اس وقت تک چاچا کے چہرے پر ناگواری کے اثرات نمودار ہو چکے تھے انہوں نے فوراََ لفظی حملہ کردیا ”مکی پتا یا توں وائرس کولا ڈرنیاں مکی ہتھ نیں ملانا چاہنا لیکن ایہہ گل یاد رکھیں کہ یو وائرس اساں مسلماناں کی کہہ وی نا آخنا مکی تہہ ویسے وی اے سارا ڈرامہ لگنا“ (مجھے معلوم ہے کہ تم اس وائرس سے ڈرتے ہوئے مجھ سے ہاتھ نہیں ملانا چاہ رہے تھے لیکن یہ بات یاد رکھنا کہ یہ وائرس ہم مسلمانوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا اور مجھے تو ویسے بھی یہ سب ڈرامہ لگ رہا ہے)یہ بول کر چاچا مسجد کے گیٹ کے پاس کھڑے ہوگئے اور آخری نمازی کے باہر نکلنے تک انتظار کرتے رہے اور جن لوگوں سے ساری زندگی مصافحہ نہیں کیا تھا ان سے بھی گرمجوشی سے ہاتھ ملاتے رہے پھر تو ان کے سر پر مصافحہ کرنے کا بھوت سوار ہو گیا ہر چھوٹے بڑے کو مصافحہ کرتے گھروں میں جاکر مصافحہ کرتے، شام کے وقت اپنے قریبی بازار کا چکر لگاتے اور بازار میں ہر دکاندار کے پاس جاکر فرداََ فرداََ مصافحہ کرتے اور ساتھ ہی کرونا وائرس کو لتاڑتے اور اس کو چیلنج کرتے کہ اگر تجھ میں ہمت ہے تو مجھے پکڑ، اس کے بعد چا چا نے ابھی تک مصافحہ مشن جاری رکھا ہوا ہے

قارئین کرام! اس تمہید کا مقصد یہ ہے کہ ہم مسلمان ہیں اور ہمارا ایمان ہے کہ موت کا ایک وقت مقرر ہے لیکن موت دو طرح کی ہوتی ہے ایک تو قدرتی موت جس میں طبعی موت بھی شامل ہے اور حادثاتی موت بھی، اور دوسری موت خودکشی والی موت یعنی کہ اپنے آپ کو قتل کرنا ان دونوں اموات میں مذہبی لحاظ سے یہ فرق ہے کہ قدرتی موت اللہ تعالی کی طرف سے ہوتی ہے چاہے ادھیڑ عمری کی وجہ سے مرے چاہے کسی حادثے سے فوت ہوجائے مرنے کے بعد ہر بندے نے اپنے اعمال کا حساب کتاب دینا ہے جس کے اعمال اچھے ہوئے جنت میں جائے گا اور جس کے اعمال خراب ہوئے وہ جہنم میں جائے گا اور دوسری خودکشی والی موت ہے اس کے بارے میں حدیث کی کتابوں میں بھی آتا ہے کہ جس بندے نے اپنی جان خود لی مرنے کے بعد قیامت تک اس پر وہی عذاب مسلط رہے گا جس عذاب سے اس نے اپنی جان کا خاتمہ کیا اور مرنے کے بعد بھی ایسے شخص کی بخشش مشکل ہے کیونکہ جان اللہ تعالی کی امانت ہے اور اللہ تعالی کی امانت میں خیانت کرنا بہت بڑا گناہ ہے

قارئین محترم! اس وقت دنیا میں کرونا وائرس سے 19لاکھ سے زائد لوگ متاثر ہوچکے ہیں جبکہ ایک لاکھ سے زیادہ اموات ہوچکی ہیں,پہلے پہل جب یہ وائرس پھیلنا شروع ہوا تو ہمارے نادان دوست کہتے تھے کہ یہ چائنا والے حرام کھاتے ہیں تب ان کے اوپر اللہ کا عذاب نازل ہوا ہے، پھر کچھ دنوں میں شوشا اٹھا کہ یہ وائرس امریکہ کی سازش ہے پھر دیکھتے ہی دیکھتے امریکہ بھی اس کی لپیٹ میں آگیا،جب اس نے اٹلی،سپین اور فرانس کارخ کیا تو ہمارے دوستوں نے کہا یہ وائرس صرف کافروں کو متاثر کر رہا ہے کوئی بھی مسلمان ملک یا مسلمان شخص اس سے متاثر نہیں ہو سکتا، جب ایران اس کی لپیٹ میں آیا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ وائرس مسلمان ممالک میں بھی پھیل گیا پھر سارے کہنے لگے کہ جو بندہ وضو کرتا ہے اور نماز پڑھتا ہے یہ وائرس اس شخص پر اثر انداز نہیں ہو سکتا،پھر تبلیغی جماعت کے احباب بھی اس سے متاثر ہوگئے تو یہ کہا گیا کہ حکومت ڈالر لینے کے لیے جھوٹ بول رہی ہے۔یہ وائرس پھیلا ضرور چین سے ہے لیکن جب کوئی وبائی مرض حملہ کرتا ہے تو پھر نہ وہ مذہب پوچھتا ہے اور نہ ہی امیر کو دیکھتا ہے اور نہ ہی غریب کو دیکھتا ہے بس جتنی احتیاط کریں گے اتنا ہی محفوظ رہیں گے باقی امریکہ،اٹلی اور سپین وغیرہ میں اس کی شدت کی وجہ بھی یہی تھی کہ وہاں آبادی بہت گنجان ہے اس لیے لوگوں کو محدود ہونے میں کافی مشکلات کا سامنا تھا اور جب انہوں نے سماجی دوری اختیار کی تو اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی اوران کی بد احتیاطی کی وجہ سے نقصان زیادہ ہوا اس کی نسبت کم آبادی والی جگہوں اور مقامات پر اس کے حملے کی وہ شدت نہیں تھی۔

قارئین کرام!سوچنا یہ ہے کہ اس کے پھیلاؤ میں زیادہ کردار کون ادا کر رہا ہے اور اس سے کیسے بچا جا سکتا ہے اور ہمارے ذہنوں میں جو غلط فہمیاں ہیں وہ کیسے ختم ہوگی گی کیونکہ یہ بیماری خود کبھی بھی نہیں لگتی اور نہ ہی یہ ہوا کے ذریعے پھیلتی ہے بلکہ اس کو ہم لوگ باہر سے خود گھر میں لے کر آتے ہیں،اس کے علاوہ بھی دنیا میں کئی امراض ایسے ہیں جو ایک دوسرے کی قربت سے لگتے ہیں اور شروع میں ان کا بھی کوئی باقاعدہ علاج دریافت نہیں ہوا تھا لیکن جوں جوں وقت گزرا ان بیماریوں کا علاج بھی دریافت ہوگیا،اسی طرح اس کرونا وائرس کا علاج ابھی تک دریافت نہیں ہوا لیکن جب تک اس کا علاج یا اس کی کوئی ویکسین سامنے نہیں آتی تو اس کا علاج صرف یہی ہے کہ احتیاط کی جائے،احتیاط کو نسی ہے ڈاکٹر حضرات روزانہ ٹی وی پر بھی اور سوشل میڈیا پر بھی بتاتے ہیں،لیکن اس کے علاوہ ہمارے مذہب نے ہمیں 14سو سال پہلے ایسی بیماریوں سے بچنے کے لئے یہ احتیاطی تدابیر بتا دی تھی اسلام واحد مذہب ہے جس میں صفائی کو نصف ایمان کہا گیا ہے ہمارے مذہب میں ہر وقت صاف ستھرا رہنا، رہنے والی جگہ کو صاف رکھنا کھانے کے برتن، پہننے کے کپڑوں کو صاف رکھنا یہ نصف ایمان ہے
قارئین محترم! اب دیکھتے ہیں کہ اس وبائی مرض کی احتیاطی تدابیرمیں موجودہ سائنس اور مذہبی حوالے سے حیرت انگیز مماثلت کیا ہے کہ ڈاکٹر بھی اس بیماری سے بچنے کے لیے وہیں احتیاطی تدابیربتا رہے ہیں جو تدابیر ہمیں آج سے چودہ سو سال پہلے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائی تھیں جیساکہ ڈاکٹر حضرات کہتے ہیں کہ اپنے ہاتھوں کو بار بار دھوئیں اور بیس سیکنڈ تک ان کو ملتے رہیں تو ہمارے مذہب میں ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سینکڑوں سال پہلے یہ بتا دیا تھاکہ جب وضو کریں تو اپنے ہاتھوں کو تین بار دھوئیں اور تین بار ہاتھ دھونے میں بھی تقریبا بیس سیکنڈ لگ ہی جاتے ہیں پھر ڈاکٹر حضرات کہتے ہیں کہ منہ کے ذریعے یہ وائرس جسم کے اندر داخل ہو سکتا ہے تو ہمارے مذہب میں وضو کے ٹائم کلی کرنا یعنی کہ منہ میں تین دفعہ پانی ڈالنا اور پھر اس کو نکالنا کیا یہ حیرت انگیز مماثلت نہیں ہے؟ اسی طرح ڈاکٹر کہتے ہیں کہ یہ وائرس ناک کے ذریعے بھی انسانی جسم میں داخل ہوتا ہے تو اسلامی تعلیمات کے مطابق تین دفعہ ناک میں پانی ڈالنا وضو کے ٹائم سنت ہے جبکہ دوسرے کسی بھی مذہب میں با قاعدہ طور پر ایسی تدابیر یا ایسے طور طریقے نہیں بتائے گے کہ انسانی جسم کو صاف کیسے کرنا ہے لیکن اسلام نے ہمیں ایک چھوٹے سے چھوٹا طریقہ بھی بتایا ہے پھر اس کے بعد ڈاکٹر یہ کہتے ہیں کہ بار بار اپنے چہرے کو مت چھوئیں یعنی کے چہرے کے ذریعے بھی یہ جراثیم جسم کے اندر داخل ہوجاتے ہیں تو اسی طرح ہمارے مذہب میں چہرے کو ایک دفعہ نہیں دو دفعہ نہیں بلکہ تین دفعہ دھونا یعنی کہ تین دفعہ دھونے کے بعد ہی جراثیم ختم ہوں گئے یہ اسلام نے ہمیں بتایا ہے اس کے بعد پھر سر اور گردن کا مسح کرنا اور اس کے بعد دونوں پاؤں دھونا، ڈاکٹر جو کچھ آج ہمیں بتا رہے ہیں کہ وائرس کہاں کہاں سے حملہ آور ہوسکتا ہے ہمارے مذہب نے ہمیں سینکڑوں سال پہلے یہ بتا دیا تھا کہ انسانی جسم کے کون کون سے اعضاء جو سامنے ہیں ان کو بار بار دھونا چاہئے،اس کے علاوہ بھی ہمارے مذہب میں ہمیں بتایا گیا ہے کہ ہر کھانے سے پہلے ہاتھوں کو دھوئیں، کھانے کے بعد ہاتھ کو دھوئیں اس کے علاوہ جب باتھ روم میں جائیں واپسی پر بھی ہاتھ دھوناضروری ہے ہمارے مذہب نے ہمیں بتایا ہے کہ کھانا کھانے سے پہلے کلی اور کھانا کھانے کے بعد بعد بھیکلی کرنا اچھی عادت ہے، تو یہ تھیں جدید سائنس اور ہمارے مذہب کی مشترکہ ہدایات یعنی کہ ڈاکٹروں کی جن باتوں کو ہم ماننے کے لئے تیار نہیں یا جن پر ہم اعتراضات کرتے ہیں آج سے چودہ سو سال پہلے اسلام نے ہمیں یہی احتیاطی تدابیربتا دیں تھیں۔

قارئین کرام! نہ تو میں نے سائنس پڑھی ہوئی ہے اور نہ ہی ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کی ہے لیکن یہ باتیں مجھے پہلے سے اسی لیے معلوم ہیں کہ ہمارے مذہب نے یہ تعلیم ہمیں بہت پہلے دے دی تھی

آج بھی گاؤں کے اکثر بوڑھے بزرگ حضرات جو واجبی سی دنیاوی تعلیم رکھتے ہیں لیکن ان کے ہاں اب بھی یہ رواج ہے کہ کھانے سے پہلے اور بعد میں ہاتھ لازمی دھلوائے جاتے ہیں.اس کے علاوہ بھی ہزاروں مثالیں ایسی موجود ہیں کہ ہمارے مذہب نے ہمیں زندگی گزارنے اور دوسرے کی حفاظت کرنے کی سختی سے تاکید فرمائے اس لیے اس سوچ اور غلط فہمی سے نکلنا ہوگا کہ یہ وائرس کافر ہے یا مسلمان یہ حلال ہے یا حرام کیونکہ جب کوئی و بائی بیماری، آفت یا مصیبت آتی ہے تو وہ یہ نہیں دیکھتی یہ کافر کا جسم ہے یا مسلمان کا جسم،یہ حلال کھانے والے کا جسم ہے یا حرام کھانے والے کا جسم، یہ بیماری بلا تفریق ہر انسان کو متاثر کرسکتی ہے ہاں اس سے ان لوگوں کے بچنے کے چانس موجود ہیں جن کی قوت مدافعت دوسروں سے مضبوط ہو اس سے وہی لوگ زیادہ متاثر ہوتے ہیں جو پہلے سے کسی مرض کا شکار ہیں

قارئین کرام! اب اصل کام یہ ہے کہ ہمیں اس سے خود بھی بچنا ہے اور دوسروں کو بھی بچاناہے کیونکہ اسلام نے ہمیں یہی سکھایا ہے کہ جس نے ایک شخص کی جان بچائی گویا اس نے انسانیت کو بچایا، اب احتیاط اسی میں ہے اس موذی بیماری سے بچنے کے لئے ہمیں اپنے آپ کو کچھ دن محدود رکھنا ہوگا, جیسے ہم لوگ ایک دوسرے کو ہاتھ ملاتے ہیں گلے ملتے ہیں لیکن اصل میں جو اسلامی تعلیمات ہیں کہ جب کسی مسلمان بھائی کو ملو تو السلام علیکم کہنا چاہیے اس کو ہم خاص اہمیت نہیں دیتے،اب تو ہم نے ہٹ دھرمی اختیار کرلی ہے کہ کچھ بھی ہو جائے ہم نے مصافحہ ضرور کرنا ہے بجائے مصافحہ کرنے کے السلام وعلیکم کہیں ثواب بھی کمائیں اور دوسرے کو دعائیں بھی دیں، اس کے علاوہ سماجی تقریبات جیسے شادی،منگنی اور اس کے علاوہ جو باقی اس طرح کی تقریبات ہوتی ہیں ان میں کم سے کم جائیں اور ایسے وبائی امراض کے دورانیے میں کوشش کریں کہ ایسی تقریبات ہی منعقد نہ کی جائیں، اب اسلامی تعلیمات میں سے یہ بھی ہے کہ اللہ تعالی کی سب سے ناپسندیدہ جگہیں بازار ہیں اور آج کل ہم بازاروں میں بے مقصد گھومتے ہیں اور وہاں پر کئی گھنٹے ضائع کر دیتے ہیں اس لیے کوشش کریں کہ بازار میں کم سے کم جائیں اگر بہت زیادہ ایمرجنسی ہو تو ایک بندہ جائے اور اشیائے ضروریہ خرید کر کر وہاں کھڑے ہونے کے بجائے گھر میں آجائیں،تقریبا تمام جید علمائے کرام نے بھی یہ کہا ہے کہ اس وبائی مرض کے دوران سنتیں اور نوافل گھر میں پڑھ کر آئیں، ویسے بھی سنتیں اور نفل گھر میں پڑھنا ایک مستحب عمل ہے اور علماء نے یہ بھی کہا ہے کہ بوڑھے افراد یا بیمار افراد اور بچے مساجد میں کم آئیں اس لیے ہمیں یہ کوشش کرنی چاہیے کہ عبادت ضرور کریں لیکن دوسروں کی صحت کا خیال بھی رکھیں اور مساجد میں آئیں لیکن وہاں گھنٹوں کھڑے رہنا یا گپ شپ لگا نا یہ صحت کے لئے بھی خطرناک ہے،اللہ کرے اس وائرس سے جلد از جلد ہماری جان چھوٹ جائے تو اگر جان بچ گئی تو اس کے بعد بازاروں میں جائیں گے، گھومیں پھریں گے عبادات کریں گے، سماجی تقریبات میں شرکت کریں گے اور جنازوں میں شرکت کریں گے لیکن اگر جان ہی نہ بچی تو پھر کونسی باتیں کریں گے کونسی تقریبات منعقد کریں گے کونسی سیروتفریح کریں گے، یہ ضرور سوچیے گا
 

Shahid mehmood
About the Author: Shahid mehmood Read More Articles by Shahid mehmood: 23 Articles with 20998 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.