خوردن برائے زیستن است
انواع اقسام کے کھانے چنے جا رہے ہیں اور تقریب کے مہمان جنہیں دعوت ناموں
میں وقت طعام دس بجے شب بتایا گیا تھا اب تقریباً رات کے ساڑھے بارہ بجے
للچائی ہوئی نظروں سے رکھی جانے والی قابوں کو اور پر امید نظروں سے ایک
دوسرے کو دیکھتے ہوئے ایک دوسرے کو یہ تسلی دے رہے ہیں کہ بس تھوڑی دیر اور۔۔۔!
پھر اچانک سے کھانا شروع ہونے کا طبل بجتا ہے اور پھر الامان الحفیظ!
خوبصورت ملبوسات میں لوگ ایسے کھانوں کی طرف لپکتے اور ٹوٹ پڑتے ہیں جیسے
قحط کے ایام میں لوگ امداد کی طرف۔ مختصراً، ایک قیامت صغریٰ کا منظر ہے
اور ہر ایک اپنی استعداد سے کئی زیادہ کھانا لے کر تقریباً آ دھے سے بھی
زیادہ چھوڑ دیتا ہے۔ جی ہاں آپ بلکل ٹھیک سمجھے یہ منظر ہے ہمارے ہاں منعقد
ہونے والی ولیمہ کی تقریبات کا۔
شیخ سعدی کا قول ہے:
خوردن برائے زیستن است
نہ زیستن برائے خوردن
مطلب کھانا زندہ رہنے کے لیے ہو نہ کہ زندگی کا مقصد ہی بس کھانا ہو۔ ہمارے
اس کرہ ارض پر جتنے بھی ممالک ہیں سب کا اپنا اپنا غذائی مزاج اور ثقافت
ہے۔ جیسا کہ پاکستان، انڈیا، ,چین اور میکسیکو کا مزاج مصالحہ دار پکوان کا
ہے اور ہمارے پڑوسی ملک ایران کا مزاج بلکل برعکس ہے۔ ایک مشہور فلسفی کا
قول ہے:
آپ وہ ہیں جو آپ کھاتے ھیں۔ مطلب جس طرح کے کھانے ہم کھاتے ہیں وہ نہ صرف
ہماری صحت بلکہ ہمارے مزاج پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔بقول مشہور مزاح نگار
مشتاق احمد یوسفی صاحب کے کچھ لوگ ماکولات میں معقولات کا دخل جائز نہیں
سمجھتے۔ مطلب مقصد صرف شکم سیری ہے چاہے جو بھی مل جائے۔ ضیافتوں سے ہمیں
یہ بھی پتہ چلتا کہ مسئلہ معلومات کا نہیں بلکے معاملات کا ہے کہ کھانے کے
آداب سے تو سبھی واقف ہوتے ہیں لیکن عملی طور پر ان آداب پر عمل پیرا ہونا
اب وہ جنس ہے جو عنقا ہے۔ جب سے انسان نے اپنی غذاؤں کو پکانے کا سوچا تب
سے اب تک یہ فن ارتقائی مراحل میں ہے اور ابھی تک ماہر طباق نت نئے طریقوں
اور تجربات سے اس میں اور جدت لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک
نہیں کہ جو کھانے کے آداب اسلام میں ہیں اور حضور علیہ الصلاۃ والسلام کے
طریقوں میں ہیں ان ہی میں دنیا و آخرت کی بھلائی ہے۔ اگر ان اسلامی آداب کو
بالائے طاق رکھ دیں تو انسان اور جانور میں کوئی تفاوت نہیں۔
|