امداد۔ ضرورت مندوں کی کریں !!

ملک بھر میں کورونا نافذ ہونے کے بعد مختلف تنظیموں اوراداروں کی جانب سے فلاحی و امداد ی کام کئے جارہے ہیں ، کچھ تنظیمیں بڑے پیمانے پر کام کررہی ہیں تو کچھ تنظیمیں اپنی اپنی استطاعت کے مطابق کام کررہی ہیں ، لیکن ایک بات دیکھنے میں یہ آئی ہے کہ بیشتر علاقوں میں امدادی کام طریقے سے نہیں ہوپارہاہے ، کئی علاقوں میں کئی تنظیمیں بار بار امداد ی سامان مہیا کررہے ہیں ، جبکہ اس سامان کی مدد کچھ تنظیمیں دے چکے ہوتے ہیں ۔ مثال کے طورپر ایک غریب محلے میں کسی تنظیم کی جانب سے چاول کی تھیلی دی گئی ہے تو دوسری تنظیم بھی چاول ہی تقسیم کررہی ہے ۔ جتنی ضرورت چاولوں کی ہوتی ہے وہ ایک حد تک پوری ہوچکی ہوتی ہے اور اب انہیں دال دانے اور مسالوں کی ضرورت رہتی ہے ایسے میں دوسری ضروریات کو پورا کرنے کے لئے بھی تنظیموں کو آگے آنے کی ضرورت ہے ۔ کئ علاقے ایسے بھی ہیں جہاں پر کچھ لوگ بار بار امداد حاصل کرنے کے لئے امراء اور تنظیموں کے اداروں کا رخ کرتے ہیں لیکن جو لوگ عزت نفس کے تعلق سے سوچتے ہیں وہ گھروں میں ہی رہ جاتے ہیں جس کی وجہ سے ان تک امدادی سامان نہیں پہنچ پاتااور اپنی عزت بچانے دوسروں تک پہنچتے بھی نہیں ہیں ۔ لاک ڈائون ہویا دوسرے قدرتی آفات ، ایسے میں مالی و غذائی امداد متاثرہ علاقوں میں غریب لوگوں تک تو پہنچتی ہے لیکن ان لوگوں کو نہیں پہنچتی جو نوکری پیشہ ، آٹو ڈرائیور یا کسی معمولی روزگار سے جڑے ہوئے ہوتے ہیں ایسے لوگ بھی امداد کے مستحق ہیں ۔ اسی لاک ڈائون کے دوران ہمارے سامنے ایک معاملہ پیش آیا جس میں ایک شخص جو معمولی بروکر تھا وہ لاک ڈائون کے بعد اپنی روزی روٹی کو لے کر اچانک بیمار ہوگیا اور اسکا گھرانہ کبھی بھی کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے والوں میں سے نہیں رہاہے ۔ جب اس شخص کو علاج کے لئے داخل کیا گیا تو انکے پاس اخراجات کے لئے کچھ بھی پیسے نہیں تھے، کچھ جاننے والوں کے پاس سے معمولی رقم قرض پر لے کر اسپتال کے اخراجات پورے کئے ، ڈاکٹر نے انہیں ڈسچارج کیا اور ادویا ت دئے تو انکے پاس سوائے 2 دن کی دوائی لینے کے اور کچھ بھی پیسے نہیں تھے ۔ دودن کی دوائی کی قیمت 60 روپئے تھی ، جب اس بارے میں کچھ نوجوانوں کو اطلاع ملی تو وہ مدد کے لئے انکے گھر پہنچے لیکن وہ متاثر ہ شخص اس قدر شرمندگی محسوس کررہا تھا مانوکہ کوئی اسکی عزت کو تار تار کرنے گیا ہو،ایسے کئی لوگ ہمارے سماج میں موجود ہیں جن کی نشاندہی نہیں ہوپاتی ۔ اسی طرح سے کچھ تنظیمیں ایسی بھی ہیں جو مقامی سطح پر چندے وصول کرتی ہیں اورامداد ی کام دوسری ریاستوں میں کرنے کا دعویٰ کرتی ہیں ، زکوٰۃ ، فطرے ، صدقے سب لے کر بھی جب ایسی تنظیمیں مقامی سطح پر کام نہیں کرتی ہیں تو اس کا کیا فائدہ ہوگا؟ اگر ان تنظیموں سے سابقہ رقومات کو اکھٹا کرنے کا حساب پوچھا جاتاہے تو ایسی تنظیمیں پوچھنے والوں کو ہی بدنا م کرنے لگتی ہیں ، اسلئے ایسی تنظیموں کو چند ہ نہ ہی دیا جائے تو بہتر ہے ، ان لوگوں سے کام کیا جائے جو مقامی سطح پر کام کررہے ہوں ، خدمت خلق کا پرانہ تجربہ رکھتے ہوں اور خدمت خلق کا جھوٹا پرچار نہ کرتے ہوں ۔ امداد ی کام کرنے والے تنظیموں اور اداروں کو بھی چاہیے کہ وہ خدمت کے لئے الگ الگ شعبوں کا انتخاب کریں اور ضرورت مندوں کی مدد کریں ۔
 

Muddasir Ahmed
About the Author: Muddasir Ahmed Read More Articles by Muddasir Ahmed: 269 Articles with 197806 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.