لاک ڈاؤن کی ابتدا سے کرونا کی انتہا تک

لاکڈ ڈاؤن کی ابتدا سے کرونا کی انتہا تک

لاکڈ ڈاؤن کی ابتدا سے کرونا کی انتہا تک

خبریں آج کل کرونا سے شروع ہوکر کرونا پہ ختم ہورہی ہیں۔کرو ناوائرس جو کہ اس وقت اک عالمی مسئلا بن چکا ہے اور تیزی سے پھیلتی یہ وباء رکنے کا نام نہیں لے رہی۔۔۔

پر نظام زندگی رک سا گیا ہے تعلیمی سلسلہ جو بتدریج جاری تھا تھم سا گیا ہے نجی ا سکول مالکان جو فیس نہ ملنے کے ڈر سے اسکول بند ہوجانے کا خوف کھائے بیٹھے ہیں اور اسی ہڑاہوڑی میں فیس بک کمپین شروع ہوگئی ہے جو والدین کو اکساتی ہے کہ فیس نہ دو، کیا اس کمپین کا کوئی جواز بنتا ہے؟ دوسری طرف تعلیمی انتظامیہ ہے جو اندھا دھند ایک سے بڑھ کر ایک فیصلہ کر رہی ہے اوراپنے کارکنوں کو کام پہ بلانے کے بہانے ڈھونڈرہی ہے۔۔۔

فیصلہ تو ہماری نوجوان نسل کا بھی درست نہیں جو کرونا وائرس کی تباہ کاریوں کو پس پشت ڈالے علاقوں کے میدانوں کو کرکٹ کھیل کھیل کر آباد کیے ہوئے ہیں۔حالانکہ گھر میں رہ کر مطلب قرنطینہ میں رہ کر بھی بہت سے کام کیے جا سکتے ہیں ہزاروں آئیڈیاز تو ہمارے اداکار دے چکے ہیں۔بے شمار آئیڈیاز انٹرنیٹ پر بھرے پڑے ہیں بچوں اور نوجوانوں کو ان کے لحاظ سے سرگرمی کروانا والدین کا کام ہے صرف باہر نکل کر مٹرگشت کرنا ہی وقت گزارنے کا ذریعہ نہیں۔۔۔

اور انہیں مٹرگشت کرتے ہوئے حسرت سے دیکھنے والا ہمارا وہ طبقہ ہے جو مجبوری کی بنا پر اس شدید لاکڈ ڈاؤن میں بھی اپنی نوکری پر جارہا ہے اب وہ چاہے بینکرز ہوں، میڈیا پرسنزیا فرمز میں کام کرنے والے۔۔۔
میرے پیارے ہم وطنوں انہی کا خیال کر لیجئے جن کے کندھوں پرگھر چلانے کی ذمہ دار ی ہے جو نہیں جائیں گے تو نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے یا ان کے نہ جانے سے بینکنگ اورمیڈیا کا نظام مفلوج ہوجائیگا۔۔۔
آپ کو اللہ نے ان ذمہ داریوں سے مبرا رکھا ہے تو شکر بجا لائیے اور اس شکر کے ساتھ ساتھ اپنی دعاؤں میں ان لوگوں کو بھی یاد رکھئے جو ان مشکل حالات میں بھی ضرورت مندوں کو راشن پہنچا رہے ہیں اور ایک ذمہ دار شہری ہونے کا ثبوت دے رہے ہیں۔
آپ کوراشن کی ضرورت نہیں توخدارا کسی اورکا حق تو نہ ماریں، بلا ضرورت راشن جمع کرکے اسے بیچنا کہاں کی ایمانداری ہے؟
بیچنا تو صنعتوں کو اپنا مال ہے پر رکیے! تھم جائے۔۔۔
کیا ہم سب بھول گئے کہ اس وبائی مرض کا کوئی علاج نہیں کوئی ویکسین نہیں پھر بھی اپنی اور دوسروں کی زندگی کو خطرے میں ڈال رہے ہیں بازارکھولنے کی بات کرکے۔
زندگی تو ایک ہی بار ملتی ہے۔ بے شک زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے لیکن احتیاط کرنے کاحکم بھی اللہ پاک نے فرمایاہے۔۔۔
اگر آ پ اس وقت اپنے جدید مصنوعات سے لیس اور آرام دہ کمرے میں بیٹھیں ہیں،انواع و اقسام کے کھانوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں
تو ناشکراپن نہ کریے ۔۔۔
ایک لمحے کو سوچیے کوئی ایسا تو نہیں آپ کے آس پاس جس کے گھر کا چولہا ٹھنڈا پڑا ہو؟ اگر ایسا ہے تو آخرت میں آپ سے بھی پوچھ گچھ ہوگی۔۔۔

کر سب کا بھلا تو
انسانی دل گر رکھتا تو
زندگی تو پلک جھپکتے گزر جانی ہے
بس یہ بات سمجھ جا تو۔۔۔

ازقلم:سمیرا ایم۔ایس۔سایحہ (فرام: کراچی، پاکستان)
 

Sumaira M. S. Saaiha
About the Author: Sumaira M. S. Saaiha Read More Articles by Sumaira M. S. Saaiha: 14 Articles with 24758 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.