حسب پروگرام چودہ نومبر1979رات گیارہ بے کے قریب ریل گاڑی
فیصل آباد اسٹیشن پر رکتی ہے۔ ہمارا بیج بوگیوں میں سوار ہوتا ہے، گارڈ
گرین جھنڈی لہراتا ہے تو ریل نے زور دار آواز وسل بجائی اور ساتھ ہی رینگنا
شروع ہو گئی۔باہر جھانک کر دیکھا رات کے اندھیرے میں پلیٹ فارم پر کھڑے
والدین، بہن بھائی ہاتھ ہلا کر الوداع کر رہے تھے۔ مجھے ہاتھ ہلا کر الوداع
کہنے والا کوئی نہیں کیونکہ میں اسے واپس گھر بھیج دیا تھا کہ جاو میں واپس
نہیں آتا باقی بیٹھے ہیں جب سے ریل پر سوار ہونگے میں بھی ان کے ساتھ ہی
سوا ر ہو جاؤں گا۔ لوگوں کو نمناک آنکھوں سے ہاتھ ہلاتے دیکھا تو میں ذرا
اداس سا ہو گیا کہ ہمارے ساتھ کیا ہونے جارہا ہے۔ خیر میں نے اس خیال کو
جھٹک دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہم پلیٹ فارم سے دور آچکے تھے۔ اپنی اپنی سیٹ
پر بیٹھے، ایک دوسرے سے متعارف ہونے لگے۔ کبھی کبھی گاڑی کا وسل سنائی دیتا
تو چونک جاتے، چند ایک نام میرے ذہن میں ہیں جو ہم سفر تھے۔ معشوق علی گوہر،
محمد اعجاز، محمد صابر، منشاء، اسلم (نور پور)۔ یہاں ریل رکتی کچھ لڑکے
نیچے اتر جاتے پلیٹ فارم کاچکر لگاتے اور وسل ہوتے ہی پھر سوار ہو جاتے۔
میں ایسا کرنے سے ذرا ڈرتا تھا شاید میرا یہ پہلا ریل کا سفر تھا اور وہ
انجانی منزل کی طرف جسے نہ پہلا سنا اور نہ دیکھا تھا۔ خدا نخواستہ پلیٹ
فارم ہی رہ جاؤں تو کون مجھے کہاں پہنچائے گا۔ریل یہاں رکتی گھنٹوں رک رہتی،
میں بھی دلیر ہو گیا تھا، دوسروں کے ساتھ نیچے اتر جاتا، ریل مختلف
اسٹیشنوں پر رکتی ہوئی،ریل گاڑیوں سے جڑتی ہوئی، مختلف شہروں سے ہوتی ہوئی
تقریباً دو اڑھائی دن کی مسافت کے بعد اپنی منزل پر صبح چار بجے کے قریب
کوہاٹ اسٹیشن پر پہنچی (ریل پسنجر تھی)۔
وہاں ہمیں لینے کے لیے پہلے سے گاڑیاں، ٹرک کھڑے تھے، میں بھولا بھالا دیکھ
کر اب اداس ہو گیا، ایسی گاڑیاں اور ٹرک کبھی نہ دیکھے تھے کیونکہ میں ایک
ایسے گاؤں سے جہاں آج بھی بہتر سال بعد پرائمری سکول ہی ہے۔ خیر سب لڑکے
اپنا اپنا بیگ، سامان لیے نیچے اترے، یہ معصوم بھی ریگزین کا بیگ ہاتھ میں
تھامے نیچے اترا، دوسرے ہاتھ کتاب تھی کیونکہ اس کملے کو پڑھنے کا بڑا شوق
تھا۔ ان گاڑیوں اور ٹرکوں میں سوار ہوئے، ہمیں رات کے اندھیرے میں ایک بہت
بڑی کالونی نما جگہ پر اتار دیا، موسم سرد تھا، وہاں لمبی لمبی بیرکیں تھیں،
ہمیں کہا گیا ان کمروں میں کچھ دیر کے لیے جہاں جگہ ملتی ہے بیٹھتے جاؤ،
ناشتہ کرکے تمہیں تمہارے رومز تک چھوڑتے ہیں۔جس روم میں مَیں داخل ہوا۔
ڈرتے ڈرتے ایک چارپائی کی پواندی بیٹھا، سونے والے کی آنکھ کھل گئی۔ اس نے
منہ سے کمبل اٹھا کر دیکھا تو ہچکیاں لے کر رونے لگا، میں پریشان ہوگیا،
ایک نئی مصیبت میں پھنس گیا، اسے کیا ہوا؟ میں نے اسے چہرے سے کمبل کھینچا
اور پوچھا او بھائی کیا ہوا؟ کہنے لگا توبھی جہاں آگیا کہہ کر اور زیادہ
ہچکیاں لینے لگا۔ اتنے میں ہمیں اطلاع ملی کہ سگنل لائن میں باہر نکل
کرکھڑے ہو جاؤ، اب صبح کی پو پھوٹ رہی تھی، کالونی نماجگہ جازب نظر آنے لگی،
خوبصورت گراسی پلاٹ، ایک بڑا کنکریٹ کا کھلا گراؤنڈ، بے بہا درخت، جیسے ہی
آپس میں ہم کھسر پھسر کرنے لگے تو ایک صاحب نزدیک آئے کہنے لگے بی کوائٹ،
نو نائز، لائن چلناشروع ہوئی ہم آہستہ آہستہ ایک لمبی بلڈنگ میں داخل ہو
رہے تھے، جب میں داخل ہوا تو کیا دل کو بہلانے والی خوشبو، پراٹھے، بریڈ،
کیک، انڈوں کی مہک نے دماغ تر کر دیا۔ اس بلڈنگ کے اوپر لکھا ہوا تھاMESS،
او ہو اسے میس کہتے ہیں۔بڑے بڑے ٹیبل سزے ہوئے ہیں، ہر چیز قرینے سے سجی
ہوئی ہے۔ ناشتہ کی سروس شروع ہوئی اور ساتھ کہا گیا کہ جس کا جس چیز کواور
کھانے کا دل کرے تو بتا دے۔ خیر ناشتہ، بریڈ، انڈے کیک، چائے سے فارغ ہوئے،
باہر نکلے تو کافی روشنی ہو گئی تھی۔ باہر دو انسٹرکٹر کھڑتے تھے جو لائنز
بنوا رہے تھے۔
لائنز بن گئی اپنا اپنا سامان ہاتھ میں ہے، گاڑیاں جا چکی ہیں، کمانڈ ملتی
ہے۔ Put your bags on your headsہم ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے، ایک بولا
مجھے تو پہلے ہی معلوم تھا یہ کھلاتے بھی اچھا ہیں اور رولاتے بھی اچھا
ہیں۔ آواز آئی بی کوائٹ۔ پھر کمانڈ ملتی ہے، دوڑے چل۔ اب سمجھ آنے لگی اس
معصوم کو کہ بچے یہ کوئی ٹریننگ سنٹر ہے، اباجی کا کھیت نہیں۔ ہم دوڑ کر
اقبال ہاوس پہنچ گئے۔ ڈبل سٹوری بلڈنگ، نئی تعمیر شدہ، خوبصورت ارد گرد
گراسی پلاٹ، سرسبز پودے۔ اقبال ہاوس کے پہلے روم کے باہر ایک چوق و چوبند
یونیفارم میں ملبوس کھڑا تھا جس نے انسٹرکٹر کو دیکھ کر جوشیلے انداز میں
ایکٹو ہو کر سلام کیا۔ رومز میں گئے ہمیں ایک ایک بیڈ، لاکر الاٹ کر دیا
گیا، کچھ انسٹرکشن پاس ہوئیں۔ ترو تاز ہو جاؤ کچھ ٹائم دیا گیا، پھر سب کو
نیچے اتار لیا گیا، سامنے ہی گراؤنڈ میں جمع ہو گئے، ایک انسٹرکٹ سول کپڑوں
میں ماشاء اللہ ایکٹو پرسنلیٹی سامنے آکرانگریزی میں محو گفتگو ہوئی۔ گفتگو
تو ایسے شروع ہوئی جیسے کسی ٹیپ ریکارڈر کا پلے والا بٹن دبا دیا ہو۔چند
فقروں کے بعد انہوں نے پوچھا سمجھ لگی سب خاموش۔۔کچھ سر ہلایا نہیں سر۔ ان
کا نام کارپورل بہادر خاں تھا۔ پھر سے محوگفتگو ہوئے، ہم بھی ذرا سنجیدہ
ہوگئے۔ ہمیں کہا گیا اب مادری زبان نہیں چلے گی۔ جسٹ انگلش، نہیں آتی تو
سیکھو، پھر ہمیں دوڑا کر ایک اور دور بلڈنگ میں لے گئے وہاں سے ہمیں بھی
یونیفارم آئٹمز ایشو ہو گئے، مزے کی بات ایک اور کہ اگلے روز ہمیں باربر
شاپ پر لے جایا گیا۔ سب کے بڑے بڑے بال، زلفیں، بڑے اسٹائلش ہیئر سٹالز،
باری باری شپ میں داخل ہونے لگے جو باہر آئے ایک دوسرے کو پہنچاننے سے
انکار کر دے۔ بالکل وہی حال جو عہد وفا ڈرامے پی ایم اے کاکول میں دیکھا۔
ٹریننگ شروع ہو گئی۔ ماں یاد آنے لگی، شخصیت میں نکھار آنے لگا، جومیرے
جیسے کالج میں بڑے پھنے خاں تھے بھگی بلی بن گئے۔یہ وہ ماحول میسر آیا جس
نے ساری دُنیابدل کر رکھ دی۔ آپ کا ماحول، محفل ہی سب سے بڑا کردار اداکرتا
ہے جس سے بہت بڑی تبدیلی رونما ہوتی ہے۔ ٹریننگ سنٹر کی دُنیا ہی اور تھی،
ایک سال کی ٹریننگ نے اتنا تبدیل کر دیا جو سوچا بھی نہ تھا، ابھی مزید دو
سال کا دورانیہ باقی تھا جو کراچی میں مکمل ہونا باقی ہے۔ اب چالیس سال بعد
احساس ہوتا ہے کہ اکیڈمیز میں شخصیت نکھارنے کی ہزاروں میں فیس وصول کی
جاتی ہے، اور وہ اس ٹریننگ سنٹر سے بہت پیچھے ہیں۔ اللہ کا شکر ہے ہمیں بڑے
بڑے عہدوں والا ٹیچرز نے پڑھایا، موٹیویشن دی، تراشا، جس نے ہمیں تعلیمی
اور عسکری اعتبار سے یکسر تبدیل کردیا۔ ان اساتذہ کو سلام پیش کرتا ہوں
ورنہ ہم اس قابل کہاں تھے۔ ایک طویل عرصہ کے بعد بھی ان اساتذہ کانام لے کر
یاد بھی کرتاہوں اور دعا بھی۔ دوستو! اگر آپ کو زندگی میں کچھ سیکھنے کا
موقع ملتا ہے تو ضرور سیکھیں۔ زندگی بار بار نہیں ملتی اور اساتذہ کا جتنا
احترام کرو گے منزلیں اتنی ہی آسان ہو تی جائیں گی۔ ذرا سوچیں اور اپنی
زندگی میں رہ جانے والی کوتاہیوں کو اپنی اولاد میں نہ آنے دیں۔ شکریہ
|