ایک شخص کی چشم ابرُو کی گردش پر یقین ․․․!

کورونا وائرس نے جہاں انسانوں کی زندگیاں نگل لی ہیں،وہاں دنیا بھر کی معیشتوں کو سخت دھچکا لگا دیا ہے۔پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک پہلے ہی کئی بحرانی محاذوں پر جنگ لڑ رہے تھے،مگر اس وبا نے انہیں ختم کرنے کے دھانے پر لا کھڑا کیا ہے،جب کہ معاشی طور پر مستحکم ممالک بھی اس ندیدہ دشمن سے سخت اضطراب سے دو چار ہیں۔آج دنیا میں بیروزگاری اور معاشی کساد بازاری کا خوف ہے،امریکا جیسے ترقی یافتہ ترین ملک میں کروڑوں لوگ بیروزگار ہو چکے ہیں۔پاکستان میں وبا کی وجہ سے لاک ڈاؤن کو ایک ماہ ہو چکا ہے ،جس سے پہلے سے دگرگوں معیشت مزید تباہی سے دو چار ہو چکی ہے،مگر پاکستان پر اﷲ تعالیٰ کا ہمیشہ سے کرم اور فضل رہا ہے کہ ڈگمگاتے قدموں کو مخدوش حالات میں بھی سہارا مل جاتا ہے۔

پاکستان کے معاشی ’’تباہ کن ‘‘حالت کو سانس ملی،جب آئی ایم ایف،عالمی بینک،ایشین ڈویلپمنٹ بینک،اسلامی ترقیاتی بینک اور پیرس کلب نے پاکستان کے لئے قرضوں کی ادائیگی مؤخر کرتے ہوئے بارہ ارب ڈالر کی وصولی سال کے لئے روک دی ، جب کہ آئی ایم ایف نے پاکستان کے لئے ایک اعشاریہ چار ارب ڈالر کا نیا قرضہ دینے کی منظوری دیے دی ہے اور اسٹیٹ بینک نے شرح سود نو فیصد کر دی ہے۔آئی ایم ایف نے پاکستان سمیت 74ممالک کے چالیس ارب ڈالرز کے قرض ایک سال کے لئے منجمد کر دیئے ہیں۔یوں تو یہ حکومتوں کو وقتی ریلیف دیا گیا ہے ،اس سے بڑھ کر ان سودی اداروں سے خیر کی امید کرنا بیوقوفی ہے۔لیکن اس ریلیف کو ملنے پر بغلیں بجانے کی بجائے بڑے سوچ سمجھ کر اور احتیاط سے فائدہ اٹھانا چاہیے ۔ویسے عمران خان کے بقراط نما ذہن رکھنے والے مشیران کی فوج کے ہوتے ہوئے کوئی اچھے کی امید نہیں ہے۔ان کے مشوروں سے کبھی بہتری نہیں ہمیشہ بحران آیا ہے۔
اس صورت حال تک پہنچنے کی وجوہات ڈھکی چھپی نہیں رہی ہیں۔جس ملک میں جمہوریت کے نام پر کھلواڑ کیا جاتا ہو،وزیر اعظم اور اس کی کیبنٹ الیکشن سے پہلے سلیکٹ ہو جاتی ہو اور دنیا کو دکھانے کے لئے الیکشن کا ڈارامہ رچایا جاتا ہو۔ایک سیاسی پارٹی کو آگے لانے کے لئے دوسری چھوٹی بڑی تمام پارٹیوں کو برباد کر دیا جاتا ہے ،جن لیڈران سے معاہدے کر کے اقتدار سونپا جاتا ہے،جب تک ساتھ بیٹھ کر تمام معاملات چلتے ہیں،وہ درست ہوتا ہے ،لیکن معمولی سے اختلاف رائے کی شدید سزا دی جاتی ہے۔یہی سزا میاں نواز شریف کو دی گئی ۔ورنہ میاں شہباز شریف کے ساتھ مقتدر حلقے کا معاہدہ ہو چکا تھا،مگر میاں نواز شریف آڑے آ گیا۔عمران خان کو موقع مل گیا اور اقتدار کی ڈیل ہو گئی۔یہ ہے پاکستان میں جمہوریت کی اصل تصویر کی جھلک۔
کیا ایسے کبھی ملک ترقی کر سکے گا․․․؟کیا نظام میں تبدیلی ہو سکے گی ․․․؟کیاکرپشن ختم ہوگی․․․؟کیا معیشت مستحکم ہو گی․․؟ممکن ہی نہیں ۔جب تک ایک واضح نظام حکومت نہیں ہو گا،مفاد پرست اور سلیکٹڈ لوگ اقتدار پر براجماں رہیں گے،ملک ترقی کے راستے پر گامزن نہیں ہو سکتا۔اگر اب بھی نظام ایسے چلتا رہا اور رضا باقر جیسے آئی ایم ایف کے ملازم اسٹیٹ بینک کے گورنر مقرر کیے جاتے رہے،وزیر خزانہ کا قلم دان بھی بیرونی طاقتوں کے ملازمین کے ہاتھوں سونپ دیا جاتا رہا،توپاکستان کی بہتری نہیں تنزلی مقدر بنے گی۔اس صورت حال کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ شرح سود کو پہلے اضافہ کیا گیا،پھر کمی کر دی گئی۔شرح سود کو اس لئے بڑھایا جاتا ہے کہ مہنگائی میں کمی آئے،افراطِ زر کو کنٹرول کیا جا ئے،مگر ملک میں مہنگائی بڑھ گئی،اب شرح سود نیچے لایا گیا ہے اور اس سے فائدہ حاصل کرنے کی کوئی منصوبہ بندی نہیں ہے۔گزشتہ ایک ماہ کے اندر اربوں ڈالر پاکستان سے باہر جا چکے ہیں ،جو انوسٹمنٹ کی مد میں آئے تھے،کیوں کہ گزشتہ برس شرح سود میں بے تحاشا اضافہ کیا گیا،لوگ بیرون ملک سے کم شرح سود پر رقوم لے کر سرکاری بانڈز اور دوسری سودی سکیموں میں انوسٹ کرتے ہیں۔ایک سال بڑا منافع کمایا اور جیسے ہی سود کم کیا گیا،انہوں نے اپنی رقم نکال لی ۔اس سے ملک کو اربوں کا نقصان ہوا۔اس کاروبار میں حکومتی لوگ برابر کے حصہ دار ہیں ۔اسی لئے وہ پالیسیاں بنائی جاتی ہیں جس سے اپنے ملکی اور غیر ملکی آقاؤں کو فائدہ پہنچایا جائے ،یہی ان کی ملازمت کے فرائض ہیں ۔یہ مسلط کیے گئے ملازمین غریب طبقہ کو غریب تر اور امیرکو امیر تر کی پالیسی پر عمل پیرا ہوتے ہیں ۔

پاکستان کے سمجھ دار اور مخلص لوگوں کے ذہن میں ایک سوال ہے جس پر بار ہا خامہ فرسا ہیں کہ کیا کوئی ان عالمی اداروں کے ملازمین ہماری ملک وقوم کے مخلص یا معیشت کے لئے کوئی بہتر منصوبہ سازی کر سکتے ہیں؟انہیں اس سوال کا کوئی قناعت بخش جواب نہیں ملتا۔تمدن نے زندگی کو نہایت پُر تکلف اور گراں کر دیا ہے اور یہ ظاہر ہے زندگی جس قدر پُر تکلف ہوتی جائے گی اتنی ہی زیادہ اسباب زندگی کی ضرورت ہو گی۔تمدن ٖروایات زندگی کی پیداوار ہے ،ایک معمولی پرزے سے لے کر بھاری مشینوں تک ہر چیز تمدن کی مظہر ہے ۔ہمیں مادہ پرستی میں الجھا کر مسلسل دلدل میں دکھیلا گیا ہے۔ہمیں اس دلدل سے نکلنے کے لئے عوامی یکجہتی کی ضرورت ہے ۔قیادت ہونا ضروری ہے،مگر شخصیت پرستی سے اجتناب کرنا چاہیے ۔آج عمران خان ہے تو اسے دیوتا یا عقل کل کا مالک سمجھنے کی بجائے ،غلطیوں ،کمیوں، کتاہیوں کا پتلا انسان سمجھنا چاہیے ۔ہر انسان کی ایک حد تک اہلیت ہوتی ہے،دوسرے کو موقع بھی دینا چاہیے ۔ ایک شخص کی چشم ابرُو کی گردش پر بغیر سوچے سمجھے لبیک کہنا درست نہیں بلکہ ہر ایک کو اپنے اپنے فرائض کو سمجھنا اور عملی کام کرنا وقت کی اشد ضرورت ہے۔
 

Irfan Mustafa Sehrai
About the Author: Irfan Mustafa Sehrai Read More Articles by Irfan Mustafa Sehrai: 153 Articles with 109503 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.