حقانیت اسلام اور’’ ایپی فقیر‘‘و’’رام کوری ‘‘کا قبول اسلام

 مارچ6 193 ؁میں جھنڈی خیل کے ایک غیرمعمولی واقع کے باعث نہ صرف بنوں بلکہ پورے سرحد(کے پی کے)اوربالخصوص قبائل علاقوں کی فضامیں اچانک جس خبرنے ایک ہل چل پیداکی وہ یہ تھی ایک ہندو لڑکی نے اسلام قبول کیابظاہریہ کوئی نئی بات نہیں تھی چونکہ اسلام ایک تبلیغی دین ہے اسلام کے دامن رحمت میں روزکوٖئی نہ کوئی کوئی اتارہتاہے اوراب بھی دنیا بھرمیں غیرمسلم اسلام قبول کررہے ہیں لیکن اس خبرنے ہرمسلک سے وابستہ افرادکوچونکادیا چونکہ یہ خبرایک نوجوان ہندو لڑکی سے متعلق تھی خبریہ تھی کہ جھنڈی خیل کی ایک ہندومسماۃمنشادیوی کی اکلوتی بیٹی رام کوری اسی گاؤں کے ایک سیدزادے امیرنورعلی شاہ سے متاثرہوکرمسلمان ہوئی پشتون معاشرہ میں تربیت پانے کے سبب وہ اسلام کی طرف بہت جلدراغب ہوئی اوربلااکرہ وجبراپنی مرضی سے اسلا م قبول کرلیا اسلامی نام نورجہاں رکھاگیابعدمیں اسلام بی بی کے نام سے شہرت پائی۔ا میرسیدنورعلی شاہ نے مشرف بہ اسلام ہونے کے بعداس سے شادی کر لی دونوں میاں بیوی ہنسی خوشی رہنے لگے ۔مگرانگریزاپنے مکراورعیاری سے اس واقعے کے ذریعے مسلمانوں اورہندومیں نفرت کابیچ بوئے ہیں اور اس لڑ کی ا سلام بی بی کو اپنے خاوند سے چھین کر واپس اپنے گھر والوں کے حوالے کرتے ہیں۔جبکہ اس نوجوان مسلمان لڑکے سید نور علی شاہ کو دو سال قید کے حوالے کرتے ہیں اس واقعے پر علاقے کے لوگ سراپہ احتجاج ہوتے ہے اور سرکار کے خلاف بغاوت بلند کرتے ہیں اور اس واقعے سے مسلمانوں میں بڑا اشتعال پھیل گیا ۔اس اشتعال اور بدامنی کے دوران فقیر آف ایپی منظر عام پر آئے اور رفتہ رفتہ سارے قبائل بالخصوص وزیرستان کے بے تاج بادشاہ بن گئے۔فقیر آف ایپی کا اصل نام میر ز اعلی خان تھا۔1857؁میں کھجوری قلعہ کے قریب گڑتہ بانڈہ میں پیدا ہوئے۔والد کا نام ارسلا خان تھا۔ ارسلا خان کے چار بیٹے تھے۔دوسرے بیٹے کا نام میر ز ا علی خان تھا ۔جس نے فقیر ایپی کے نام سے شہرت پائی۔ہمت و استقلال ،صبرو شجاعت ،زہد و تقویٰ اور ریاضت کے یہ پیکر لاغر جسم کے مالک تھے۔علوم ظاہری کی تکمیل کے بعد اسے روحانی تربیت کی ضرورت محسوس ہوئی۔تو وہ اپنے دور کے ولی کامل سید حسن المعروف بہ نقیب جلال ابادی سے طریق قادریہ میں بیعت سے مشرف ہوا۔اور ان سے خرقہ خلافت حاصل کیا۔اپنے آپ کو ہمہ تن دینی خدمت کے لئے وقف کر دیا اور اپنے ابائی گاؤں ایپی میں علمی روحانی خدمت شروع کردیا اسی گاؤں کی نسبت سے وہ فقیر آف ایپی کہلانے لگا۔اﷲ نے روحانی کمالات سے نوازا تھا بیمار دعا کے لئے آتے تو انہیں شفا ملتی۔وہ مستجاب الدعوات تھا۔

ہروقت عبادت اس کاشعارتھاتھوڑے ہی عرصہ میں سارے علاقے کے لوگ اس کے گرویدہ ہوگے اس زمانے میں برصغیرمیں سیاسی تحریکیں بھی زوروں پرتھی شدھی،سنگھٹن اورمسجدشہیدگنج کی بدولت ہندومسلم گشیدگی عروج پرتھی اسلام بی بی کے واقعہ نے جلتی پرتیل کاکام کیااسلام بی بی کوہندوستان لے جانے اورسیدنورعلی شاہ کوجیل بھچ دینے کے بعدبنوں کے عمائدین اورعلماء کرام نے آپس میں مل بیٹھ کرمشورہ کیاکہ اسلام بی بی کے بارے میں معلومات کی جائیں نورالٰہی بنوچی کواس مقصدکے لے ہندوستان بیھج دیا۔ہوشیارپورمیں عدالت کے باہراسلام بی بی کوملااسلام بی بی نے ان سے کہاکہ یہ لوگ مجھ پردباؤڈال رہے ہیں کہ اسلام چھوڑکردوبارہ ہندومذہب اختیارکرولیکن میں نے ایساکرنے سے انکارکردیاجس پران لوگوں نے مجھے ماردینے کی دھمکی دی ہے ۔یہ لوگ مجھے دکھاوے کی خاطرعدالت لائے ہیں اس کے بعدمجھے جان سے ماردیں گے ۔اب میراآخری پیغام نورعلی شاہ تک پہنچا دیں کہ میں نے ا ن کے پیاراوراسلام کی خاطرموت کوبخوشی گلے لگایاہے اورمیراعقیدہ ہے کہ ہماراعشق سچاہے اس لئے قیامت کے دن ضرورملیں گے۔فقیرایپی کوشروع ہی سے فرنگی سے نفرت تھی اوراس واقعہ سے اورزیادہ ہوئی فقیرایپی نے جہادکااعلان کردیا جلدہی ایک منظم لشکرتیارکرلیاہرقبیلہ میں جاتے اورنوجوانوں کوجہادکیلے جمع کرتے تھے ان غازیوں کی بے سروسامانی کایہ عالم تھاکہ محاذپرجاتے توسات اٹھ دن کے لے خشک روٹیاں اورچنے ساتھ لے جاتے نہ رسدرسانی کاکوئی انتظام تھا نہ مناسب اسلحہ جنگ پاس تھاتاہم ہرمعرکہ میں کامیاب رہتے اسے فقیرایپی کاروحانی کمال سمجھاجاتا 1938؁ کے اوئل میں وزیرستا ن میں برطانوی سپاہیوں اورافسروں کی تعدادتیس ہزارتک پہنچ گئی لیکن اتنی قوت کے باوجودفرنگی کوفقیرکے مقابلے میں کوئی کامیابی حاصل نہ ہوئی ۔ہوائی جہازوں سے علاقے پربمباری کی جانے لگی ساری مہذب دنیانے نہتے عوام پرفضائی بمباری کے ظالمانہ اقدام کی مذمت کی خودبرطانوی پارلیمان نے اس فعل کی مذمت کی لیکن انگریزبازنہ آیا۔لوگ بھی فقیرپراپنی جان چھڑکتے تھے اوراس کے حکم پراپنی جان تک قربان کرنے کے لے تیاررہتے تھے ۔چنانچہ قبائلی غازیوں نے بھی انگریزچوکیوں پرحملے تیزکردیئے فقیرایپی بڑی تنظیمی صلاحیتوں کامالک تھااس نے کئی جرنیل اورخلفاء مقرر کررکھے تھے جواس کی غیرحاضری میں اس کے جانشین کے طورپرکام کرتے تھے دوبریگیڈفوج ایک فقیربے نواکے پیھچے لگی ہوئی تھی لیکن اپنی انتہائی کوشش کے باوجودوہ فقیرکی پناہ گاہ تک نہ پہنچ سکی۔اس طرح برطانوی حکومت کاوقارمٹی میں مل گیا فقیرایپی نے اسلام کی اورآزادی کے لئے انگریزحکومت کوناکوچنے چبوائے اوربالآخرانگریزحکومت نے شکست تسلیم کرہی لی۔فرنگی راج اورغیرتمندمسلمان کامصنف لکھتا ہے کہ آپ کے پرانے ساتھیوں کے خیال میں آپ کی تحریک جہادکے مقاصدیہ تھے کہ انگریزسے برصغیرکی سرزمین آزادکرائی جا ئے ا پنی آزادسرزمین پراسلامی جمہوری اورخودمختارحکومت کاقیام ہوجس میں قرآنی قوانین اسلامی نظام عدل مساوات اوررواداری کابول بالاہواورہرایک کوزندگی کے بنیادی حقوق حاصل ہوایک ایسے مثالی معاشرے کاقیام ہوجس میں لوگوں کی جان مال اورابرومحفوظ ہوں۔بالآخرمردمجاہداوراسلام کاشیدائی فقیرایپی رحمۃ اﷲ علیہ 16 اپریل 1960 ؁ء کووفات پائی اور گورویک میں دفن ہوئے ان کی آخری آرام گاہ اب بھی مرجع خاص وعام ہے۔(تفصیل کے لئے فرنگی راج اورغیرتمندمسلمان ازڈاکٹرمحمدنوازمحسود۔تذکرہ سرفروشان صوبہ سرحدازمحمدشفیع صابر۔تاریخ بنوں ازعاقل عبیدخیلوی اس کالم کو ان کتب سے تیارکیاہے)


 

Noor Ullah Rasheedi
About the Author: Noor Ullah Rasheedi Read More Articles by Noor Ullah Rasheedi: 5 Articles with 3974 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.