ظہور اسلام سے قبل علم پر ایک مخصوص طبقے کی اجارہ
داری تھی۔اگر اس مخصوص طبقے کے علاوہ کوئی فرد حصول علم کی کوشش کرتا تو اس
کی زندگی اجیرن بنا دی جاتی۔عیسائیوں میں علم پر پادریوں کی اجارہ داری
تھی۔اگر پادریوں کے علاوہ کسی کے علم سے منسلک ہونے کی خبر ملتی تو اسے
نشان عبرت بنا دیا جاتا۔روم میں عیسائی تسلط کے بعد لاکھوں افراد کو تعلیم
وتعلم سے وابستہ ہونے کی وجہ سے اذیت ناک اور جان لیوا سزائیں دی گئیں جبکہ
تیس ہزار افراد کو اس جرم کی پاداش میں زندہ جلا دیا گیا۔یہودیوں میں احبار
نے علم و دانش کو صرف اپنا حق سمجھ کر عوام الناس کے لیے علم و دانش کے
دروازے بند کر رکھے تھے۔ہندومت میں علم پربرہمنوں کی اجارہ داری تھی۔جس وقت
برہمن وید کی تعلیم وتدریس میں مصروف ہوتے،اگر اس وقت کوئی شودر وہاں سے
گزر جاتا اور اس کے کانوں میں وید کی آواز چلی جاتی تواس کےکانوں میں سزا
کےطورپر پگھلا ہوا سیسہ ڈال دیا جاتا۔الغرض اسلام سے پہلے صرف چند افراد نے
علم پراپنا قبضہ جما کر معاشرے کے دیگرافراد پر اپنی برتر ی قائم کر رکھی
تھی۔اسلام نے اس علمی اجارہ داری اور تسلط کا خاتمہ کرکے تعلیم کو معاشرے
کے ہر فرد کا بنیادی حق قرار دیا۔
ان حالات میں جب عام انسانوں کے لیے علم کا نام لینابھی جرم تھا، پیغمبر
اسلام ﷺ پر نازل ہونے والی پہلی وحی نے پوری دنیا کے انسانوں کو حصول علم
کی دعوت دی۔اسلام کا پہلا پیغام ہی پیغام ِ علم تھا۔دین اسلام کی تحریک کا
آغاز ہی علم کے پیغام سے ہوا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"پڑھیےاپنے رب کے نام سےجس نے پیدا کیا۔انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا
کیا۔پڑھیے اورآپ کا رب بہت کریم ہے۔جس نے قلم کے ذریعے سکھایا۔انسان کو وہ
سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا۔"(العلق:1۔۔۔5)
پہلی وحی میں نازل ہونے والی ان پانچ آیات میں دو مرتبہ پڑھنے، دو مرتبہ
سکھانے اور ایک مرتبہ قلم کا ذکر کر کے اس حقیقت کی طرف اشارہ کر دیا گیا
کہ اسلام اول تا آخر علم ہی کا نام ہے۔اسلام نے اپنے پہلے پیغام میں ہی یہ
اعلان کردیا کہ اب علم کے دروازے معاشرے کے ہر فرد کے لیےکھلے ہوئے ہیں۔
قرآن مجید میں بے شمار مقامات پر علم اور اہل علم کی فضیلت کو اجاگر کیا
گیا ہے۔چند آیات ذیل میں بیان کی جاتی ہیں:۔
1۔اللہ تعالیٰ نے اہل علم کے درجات بیان کرتے ہوئے فرمایا:
"اللہ تم میں سے ایمان والوں اور علم والوں کے درجات بلند فرماتا
ہے۔"(المجادلہ:11)
2۔ایک مقام پر اہل ِعلم کے مرتبے کو تمام انسانوں پر فوقیت دیتے ہوئے ارشاد
ہوا:
"کہہ دیجیے کہ کیا علم والے اور بےعلم برابر ہو سکتے ہیں؟"(الزمر:9)
3۔اس امر کی وضاحت بھی کر دی گئی کہ اہل علم ہی کما حقہ اللہ رب العزت سے
ڈرتے ہیں:
"بے شک اللہ کے بندوں میں سے اس سے علم والے ہی ڈرتے ہیں۔"(الفاطر:28)
4۔علم کی اہمیت و فضیلت کا اندازہ اس امر سے بھی ہوتا ہے کہ خالق کائنات نے
اپنے پیارے حبیب ﷺکے دامن رحمت کولاتعداد اور بے حساب علوم سے بھرنے کے بعد
بھی علم میں اضافے کی دعا کرتے رہنے کا حکم دیا۔ارشاد ربانی ہے:
"اور کہہ دیجیے اے میرے رب! میرے علم میں اضافہ فرما۔"(طٰہٰ:114)
مندرجہ بالا آیات مبارکہ سے یہ حقیقت واضح ہے کہ اسلام ہی دین علم ہے اور
اسلام ہی وہ واحد دین ہے جو تمام انسانیت کو نہ صرف حصول علم کی ترغیب دیتا
ہے بلکہ علم حاصل کرنے والوں کو بڑے انعامات اور درجات کی بشارت بھی دیتا
ہے۔آیات قرآنی کی طرح احادیث نبوی ﷺ کا بہت بڑا ذخیرہ علم کی ترغیب اور
فضیلت و اہمیت پر مشتمل ہے ۔چند احادیث پیش خدمت ہیں۔
1۔حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا:"علم
کی طلب ہر مسلمان پر فرض ہے۔"(سنن ابن ماجہ، حدیث:224)
2۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا:"جو علم
کی تلاش میں کسی راہ پر چلا ،اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے جنت کا راستہ آسان
کردیا۔"(مسلم، حدیث:2699)
3۔حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا:"جو
علم کی طلب میں نکلا تو وہ اللہ کی راہ میں ہے یہاں تک کہ وہ واپس لوٹ
آئے۔"(ترمذی،حدیث:2647)
4۔حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نےنبی اکرمﷺکو فرماتے
ہوئے سنا :" اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے دین کی
سمجھ عطا فرما دیتا ہے۔" (بخاری،حدیث:71)
5۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا:"سب سے
افضل صدقہ یہ ہے کہ مسلمان علم سیکھے اور پھر اپنے دوسرے مسلمان بھائی کو
سکھائے۔"(سنن ابن ماجہ، حدیث:243)
6۔حضرت ابوالدرداءرضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نےنبی اکرمﷺکو فرماتے
ہوئے سنا :" بلاشبہ علما ،انبیا کے وارث ہیں۔"(سنن ابی داؤد، حدیث:3641)
7۔حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہماسے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺنے
فرمایا:"جب جنت کے باغات کے پاس سے تمھارا گزر ہو تو جی بھر کر کھا لیا
کرو۔عرض کیا گیا یارسول اللہﷺ!جنت کے باغات کیا ہیں؟آپ ﷺ نے فرمایا علم کی
مجالس۔"(المعجم الکبیر للطبرانی،حدیث:11158)
مذکورہ بالا احادیث سے یہ حقیقت عیاں ہے کہ اسلام ہی وہ واحد دین ہے جو علم
و دانش کو معاشرے کے ہر فرد کے لیے ضروری قرار دیتا ہے۔اسلام نہ صرف حصول
علم اور اشاعت علم کا حکم دیتا ہے بلکہ علم حاصل کرنے والوں اور معاشرے میں
علم کا نور پھیلانے والوں کو دنیوی اور اخروی کامیابیوں اور کامرانیوں کی
بشارت بھی دیتا ہے۔
اسلام کی آمدسے قبل تعلیم وتعلم پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی تھی جبکہ
اسلام نے تعلیم وتربیت کو ہر فرد کا بنیادی حق قرار دیا ہے۔عہد رسالت میں
مساجد میں بچوں اور بڑوں کی تعلیم کا باقاعدہ انتظام کیا جاتاتھا۔اس کے
علاوہ تعلیم وتدریس کے حوالے سے دار ارقم اور صفہ اسلام کے اولین تعلیمی
ادارے تھے۔غزوۂ بدر میں قید ہونے والے کفار میں سے جو پڑھے لکھے تھے ان سے
جرمانہ یا فدیہ لینے کی بجائے انہیں دس دس بچوں کو کتابت سکھانے پر مامور
کر دیا گیا۔یہ واقعہ اس حقیقت کا واضح ثبوت ہے کہ اسلام کی نظر میں حصول
علم کی کتنی اہمیت ہے۔اسلام نے مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کی تعلیم کا بھی
مناسب بندوبست کیا۔نبی اکرم ﷺ نے خواتین کی تعلیم وتربیت کے لیے ہفتے میں
ایک دن مقرر کر رکھا تھا۔جیسا کہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی
ہے کہ ایک مرتبہ کچھ خواتین نبی اکرم ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا
کہ ہمارے لیےبھی ایک دن (تعلیم و تربیت کا )مقرر فرما دیں تو آپ ﷺنے خواتین
سے دن مقرر کرنے کا وعدہ فرما اور پھرآپ ﷺمقررہ دن میں انہیں وعظ و نصیحت
فرمایا کرتے تھے۔(بخاری،حدیث:101)
اسلام نے والدین کوبچیوں کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دینے کا حکم
دیااور جو والدین اس ذمہ داری کو خوش اسلوبی سے پورا کرتے ہیں انہیں جہنم
سے آزادی کی خوشخبری بھی سنائی۔
حضرت عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا:"جس
شخص کے ہاں بیٹی ہو اور وہ اسے اچھا ادب سکھائے،اچھی تعلیم دے اوراللہ
تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں میں سے اس پر خرچ کرے تو اس کی وہ بیٹی اس کے
لیے جہنم کی آگ سے رکاوٹ اور آڑ بن جائے گی۔"(المعجم الکبیر
للطبرانی،حدیث:10447)
مردوں پرنہ صرف خواتین اور بچیوں کی تعلیم کا فرض عائد کیا گیا بلکہ انھیں
گھر کی کنیزوں کی تعلیم کی ذمہ داری بھی سونپی گئی۔نبی اکرم ﷺ نے تین طرح
کےاشخاص کے لیے دوگنے اجر کی بشارت سنائی جن میں سے ایک وہ شخص ہے جو اپنی
کنیز یا خادمہ کی مناسب تعلیم و تربیت کرے۔ارشاد نبوی ﷺہے:
"(ان میں سے)ایک وہ شخص ہے جس کے پاس خادمہ ہواور وہ اسے اچھا ادب
سکھائے،اچھی تعلیم دے اور پھر اسے اللہ کی رضا کے لیے آزاد کرکے اس سے شادی
کر ےاس کے لیے بھی دوہرا اجرہے۔"(بخاری۔حدیث:97)
اسلام نے عرب معاشرے کے سب سے مظلوم طبقے یعنی غلاموں کی تعلیم کا بھی
اہتمام کیا ۔یہ اسلام کی تعلیمات کا ہی اثر تھا کہ حضرت عبد اللہ بن عباس
رضی اللہ عنہما کےغلام عکرمہ اتنے بڑے عالم بن گئے کہ انہیں آج بھی "حبر
الامۃ"یعنی امت کا بہت بڑا عالم کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔
الغرض اسلام ہی دین علم ہے۔یہ اسلام ہی کا فیض تھا جس نے عرب کے صحراؤں میں
جنگ وجدل میں مصروف قوم کو علم و ہنر کا پاسبان بنادیا۔یہ اسلام اور پیغمبر
اسلام ﷺکا ہی فیضان تھا کہ وہ لوگ جو پڑھنا لکھناتک نہیں جانتے تھے،انھیں
اتنےعلوم سے نوازا کہ وہ حصول علم کے لیے مرجع خلائق بن گئے۔اسلام ہی نے
علم کے چراغ روشن کرکےجہالت کی تاریکیوں کا خاتمہ کیا۔اسلام ہی نے معاشرے
کے چند افراد کی علمی اجارہ داری کا خاتمہ کرکےہرفرد کے لیے علم و حکمت کے
دروازے کھولے۔
|