سلیم اور رابیعہ کی کہانی

 اِز قلم۔ ڈاکٹر احمد علی

ہزار شکر ہے کہ مایوس کر دیا تم نے یہ اور بات کہ تم سے بہت امیدیں تھیں۔
میں سلیم اور رابیعہ بہت چھوٹی عمر میں تھے پیارومحبت کے جزبے سے بھی نا واقف تھے میں سیلم کراچی میں رہائش پزیر تھا اور رابیعہ لاہور میں رہتی تھی جو کہ اپنے گھر والوں کے ساتھ ہر سال لازمی آتی تھی جن دنوں رابیعہ آتی تھی ان دنوں میری عید ہوجایا کرتی تھی وہ کیا جزبہ تھا اس کا علم ہوئے بغیر ایک انجانی سی مہک محسوس کرتا تھا ر ابیعہ کراچی ہمارے گھر آئی ہوئی تھی رات کافی ہوچکی تھی سب سوچکے تھے میں اور رابیعہ جاگ رہے تھے اور اکثر ایسا ہی ہوتا تھارابیعہ نے کہا سیلم کیا میرے آنے پر تم کچھ عجیب سی خوشی محسوس کرتے ہو اور میرے واپس جانے پر کیسا محسوس کرتے ہومیں سمجھ نہیں پایا کہ رابیعہ کیا کہنا چاہتی ہے میں گم سم سا ہوگیامیری خاموشی توڑتے ہوئے رابیعہ نے کہا کیا ہوا تم خاموش ہوگئے تم جب خط لکھتے تو میں اس خط کو پا کر بہت خوشی محسوس کرتی ہوں میرے خط کے آنے پر تم کو کیا محسوس ہوتا ہے

آج عجیب سا سما تھا ناجانے کیوں رابیعہ نیلے جوڑے میں بہت خوبصورت لگ رہی تھی اسکی آواز میں بہت مٹھاس بھری ہوئی تھی اس کے جملوں سے پھول برس رہے تھے لیکن میں ہر وہ بات جو یہ کہنا چارہی تھی میں سمجھنے سے قاصر تھا ۔

رات کافی ہوچکی ہم دونوں بھی باتیں کرتے کرتے سوگئے دوسرے دن اس نے واپس لاہور جانا تھا اور وہ ایک انجانا میسج دیکر چلی گئی ہاں ایسی ہی رات تھی ایسا ہی سما تھا کہ چاند بھی پورا اور زمانہ بھی جواں تھا میں اس کے جانے کہ بعد کچھ اداس اداس رہنے لگا مسلسل میرے دماغ میں ایک ہی سوال تھا کہ رابیعہ نے جو انجانہ سا میسج دیا ہے اس کا کیا مطلب ہے اور یہ اداسی کس طرح کی ہے میں نے کئی بار رابیعہ کو خط لکھنے کی کوشش بھی کی لیکن اس بارخط لکھنے میں ناکام رہا حالانکہ اس سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا میں اکثر خط لکھتا تھا اور وہ جواب دیتی تھی میں ایک دن اسکی ہی سوچوں میں کھویا ہوا تھا کہ اچانک ڈاکیہ نے گھنٹی بجائی میں بھاگ کر گھر سے باہر نکلا تو دیکھا اس کے ہاتھ میں خط ہے جس پر رابیعہ کی لکھائی تھی میں نے فوری اس سے خط لیا اور اپنے کمرے میں جاکر اسے پڑھنے لگا اس دفعہ خط کیا تھا خوشبو اور پھولوں سے بھر ا گلدستہ تھا جس میں لکھا تھاکہ میں رابیعہ سلیم تم سے پیار کرتی ہوں تم کیا محسوس کرتے ہو باقی کاپی کا پوا صفحہ خالی تھا اچھا تو اس کے جانے کے بعد میری اداسی، پریشانی اور اس کے انجانے میسج کا مطلب یہ تھا جس کو میں سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ اسی جزبے کو ایسی کیفیت جو میری تھی اسے پیار کہتے ہیں اس خط کے بعد میری زندگی کے رنگ بہت رنگین ہو چکے تھے زندگی حسین ہو گئی تھی میں نے جلدی خط لکھنے کی تیاری شروع کردی اور اپنی ساری کیفیت جو اس کے جانے کے بعد رونما ہوئی تھی لکھ ڈالی اور جلدی جلدی جاکر ڈاکخانے میں اسے پوسٹ کردیااور اس کے بعد اپنے خط کے جواب کے انتظار میں کھو گیا بڑی بیتابی سے دن گزرہے تھے میرے سارے کام جوں کے توں پڑے ہوئے تھے صرف میرے پاس خط کے جواب کا انتظار تھا اکیلے میں بیٹھ کر خط کی اس تحر یر کو پڑھنا تھا جس پر لکھا تھا میں رابیعہ سلیم تم سے پیار کرتی ہوں تم کیا محسوس کرتے ہو بس یہی میری زندگی کا مقصد رہ گیا تھا چند دن گزرنے کے بعد رابیعہ کا خط آیا جس میں پیا ر بھری باتیں تھیں اور میرے جواب سے اس نے خوشی کا اظہار کیا تھا اور ساتھ جینے مرنے کے وعدے بھی کیے تھے اسی طرح دن گزرنے لگے گھر والے میری کیفیت کو دیکھ کر کہ غفلت غیر حاضر دماغ اور خوش مزاجی اس دوہری کیفیت سے کچھ پریشان سے تھے دن گزرتے رہے خطوں کا سلسلہ جاری رہا ایک دن اچانک رابیعہ اپنی فیملی کے ساتھ کراچی آگئی میں گھر پر ہی تھا ان سب کو دیکھ کر میری خوشی کی انتہا نہ تھی اتفاق سے ان دنوں آفس سے چھٹیاں لی ہوئی تھیں جو کہ چھٹیاں اور رنگین ہوگئیں ہم دونوں سپورٹ کے لئے اس کا ایک بھائی جس کانام اسلم تھا اس کو بھی ساتھ رکھتے تھے تا کہ کسی کو ہم دونوں کے ملنے پر سیر و تفریح اور گھومنے پھرنے پر اعتراض نہ ہو وقت کتنی تیزی سے گزرا احساس جب ہوا جب اسکے واپسی جانے کا دن آگیااور وہ اپنے شہر لاہور کے لئے روانہ ہو گئی۔

زندگی میں بے شمار موڑ آتے ہیں لیکن یہ سب کیا تھاآہستہ آہستہ سب کو احساس ہو چلا تھا کہ سلیم اور رابیعہ کاکوئی سلسلہ ہے لیکن کسی کو کوئی اعتراض نہیں تھاوقت گزرتا رہا اچانک رابیعہ نے خط کا جواب دینا بند کردیا اورفون بھی اٹینڈ نہیں کررہی تھی جس سے مجھ کو کافی تشویش تھی میں سمجھ نہیں پارہا تھا کہ رابیعہ ایسا کیوں کررہی ہے اس دوران کئی خط لکھے لیکن جواب سے محروم رہا پیار کی نیند سویا ہوا تھا تصور میں ایسا نہیں تھا میں بڑا بے چین تھا روزانہ ڈاکیہ کو تلاش کرتا خط نہ آنے پر مایوس ہو کر واپس آجاتا ایک دن فیصلہ کیا کہ میں لاہور جاوئں بڑی امیدیں لیکرمیں لاہور روانہ ہوگیا۔

لاہور جب اس کے گھر پہنچا تو اچانک آمد پر اس کے گھر والے حیران بھی اور خوش بھی ہوئے خاص طور اس کا بھائی اسلم بہت خوش ہو یار تو آگیا ہے اچھا ہے وقت اچھا گزرے گا باتو ں باتوں میں اس سے پوچھا گھر میں سب ہیں رابیعہ نظر نہیں آرہی ہے تو اس نے کہا وہ آفس گئی ہوئی شام تک آئے گی میں نے چونک کر کہا کیا آفس گئی ہوئی ہے کیا اس نے سروس کرلی ہے ہاں یار سال کے قریب ہو گیا اس نے سروس کرلی ہے اس نے لا پروائی سے جواب دیتے ہوئے کہا اہ یار میں تو موجود ہوں میں سفر سے تھک گیا تھا دوپہر کا کھانا کھا کر سو گیا تھا شام جب میری آنکھ کھلی تو رابیعہ آفس سے آچکی تھی اور مجھ کو اپنے گھر میں پاکر بہت خوش تھی ساتھ کھڑے کہہ رہی تھی زبردست مزہ آگیا میری آفس کی دو روز کی چھٹی بھی ہے خوب رنگ جمے گا دو روز واقعی بہت اچھے گزرے لیکن میں گزرے لمحو ں سے بہت پریشان تھا لاہور آنے کا میرا مقصد بھی یہ جاننا تھا کہ اس نے فون بھی نہیں اٹینڈ کیا اور نہ ہی میرے خطوں کے جواب دیئے پچھلے اور اب کے رویئے میں یہ تضاد کیسا ہے مصر وفیت یا کوئی مسئلہ؟ یہ جاننا میرے لئے بہت ضروری تھا۔

ایک دن موقع ملا میں نے اپنی ساری پریشا نی ، لاہور آنے کا مقصد خطوں کے جواب نہ ملنے اور فون نہ اٹینڈ کرنے کا گلہ کردیا میری وہ ساری باتیں سن کر ہنسی اور اس نے بڑی بے باکی سے کہا سلیم تم ابھی تک اتنے ہی چھوٹے ہو جس عمر میں یہ باتیں کی گئیں تھیں یہ بچپن کی باتیں کیوں یاد رکھی ہوئی ہیں اور تمہارے عجیب عجیب خط آتے تھے میں اس کا کیا جواب دیتی اور فون بھی اسی طرح کے ہونگے اس لئے میں فون بھی اٹینڈ نہیں کرتی تھی کوئی اور بات کر و تمہارے کیا حال ہیں تم میرے بہت اچھے دوست ہو میں تم کو بہت پسند کرتی ہوں وہ بڑی بے باکی سے بولتی رہی اور نہ جانے کیا کیا بولا میں تو سن ہوگیا تھا میری آنکھوں کے آگے اندھیرا تھا کچھ نظر نہیں آ ر ہا تھا کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا میں نے اس کی لکھی تحریر یاد کرائی جو اس نے لکھی تھی میں رابیعہ سلیم تم سے پیار کرتی ہوں تم کیا محسوس کرتے ہو اس نے میری طرف دیکھا اور بڑی لا پروئی سے ہنستی ہو ئی بولی تم بڑے نادان ہو سلیم میں تم سے معافی چاہتی ہوں کہ تمہارے دل کو تکلیف پہنچی میں پھر کہتی ہوں کہ تم میرے اچھے دوست ہمیشہ رہو گے ا س نے ساری باتیں بڑی لاپروائی کے ساتھ کہہ دیں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں مجھ کو ایسا لگا کہ میرے دل کو کسی بھاری پتھر سے کچل دیا گیا ہو آنکھوں سے آنسوں کی جگہ خون بہہ رہا ہو میری زبان ہی نہیں میرا پورا جسم سن ہوگیا تھا اور اچانک میری آنکھوں میں اندھیرا آگیا او ر میں دیکھتے ہی دیکھتے گہری نیند سوگیا جب میری آنکھ کھلی تو میں ایک ہسپتال کے بستر پر تھا مجھ کو یاد نہیں کے میں یہاں کیسے آیا میرے روم میں یا میری تمارداری کے لئے نسیمہ جو میری بھانجی تھی جو اسی شہر میں رہتی تھی اور اسلم جو رابیعہ کا بھائی ہے یہ دو موجو د تھے نسیمہ نے بتایا کہ تم پچھلے ۸ گھنٹے سے بے ہوش تھے تم رابیعہ سے باتیں کررہے تھے کہ اچانک بے ہوش ہوگئے اسلئے ہم ہسپتال لے آئے سب لوگ ابھی گئے ہیں میں زندگی کے پچھلے ۸ گھنٹے کا سفر یاد کرنے کی کوشش کررہا تھا کہ مجھ کو صرف اتنا یاد تھا کہ معلوم نہیں کیا تھا؟ نسیمہ نے جو بتایا شاہد وہی ٹھیک تھا میرے ہوش میں آنے پر یہ دونوں خوش تھے نسیمہ نے گھر میں بتایا کہ میں ٹھیک ہوں اور ہوش میں آگیا ہوں لیکن میں مسلسل خاموش اپنی یاداشت پر ذور ڈال رہا تھا کمرے کی خاموشی توڑتے ہوئے ڈاکٹر نے ٹھک ٹھک کی اور اندر آگیا مجھ کو ہوش میں دیکھ کر خوش ہوا میرا میڈیکل چیک اپ کرکے اس نے کہا آپ بلکل ٹھیک ہیں اور گھر جاسکتے ہیں ہسپتال سے چھٹی کے بعد نسیمہ مجھ کو اپنے گھر لے گئی رات ہوچکی تھی میں طبعیت میں بہت زیادہ تھکان محسو کررہا تھا کھانا کھاکر میں سو گیا صبح سو کر اٹھا تو ساری صورتحال جو ہوئی تھی کیا باتیں ہوئی تھیں سب یاد آگیا تھا میں نے ساری کہانی نسیمہ کو سنائی نسیمہ غور سے میری باتیں سن رہی تھی نسیمہ نے کہا اچھا ہوا تم کو میں اپنے ساتھ لے آئی اور نسیمہ نے کہا مجھ کو اندازہ تھا کہ ایسا ہی ہوا ہوگا اسلئے کہ تمہارے اور رابیعہ کے پیار بھرے تعلقات کا مجھ کو علم تھا اور جو کچھ ہم رابیعہ کو دیکھ رہے ہیں جس سے تم بے خبر تھے اصل میں مسئلہ یہ ہے کہ اس نے جس کمپنی میں سروس کی ہے اس کمپنی کا با س اور اس کے درمیان عشق کا سلسلہ ہوگیا ہے لہذا ؟ کچھ کہتے کہتے وہ رک گئی پھر اس نے کہا کہ اپنے دل کو جلانے سے کیا فائدہ تم اس کا خیال اپنے دل سے نکال دو میں بے بس تھا مجبور تھا اس نے جب مجھ سے بے وفائی کا فیصلہ کرلیا اس نے اپنے دل سے مجھ کو نکال پھنکا تو میں کیا کرسکتا تھا زبردستی سے کسی کے دل کو نہیں جیتا جاسکتا ہے لہذا میں نے کراچی کے واپسی کا ارادہ کرلیا میں ٹکٹ لیکر کراچی کی ٹرین میں سوار ہوگیا قسمت نے میرا یہاں بھی ساتھ نہیں دیا میں یہ ٹرین کا سفر جو ۲۰ سے ۲۲ گھنٹے کا تھا دوران سفر سگریٹ کے دھویں میں دل پر لگی آگ کو بجھانا چاہتا تھالیکن جس بوگی میں ٹکٹ ملا تھا یہ بوگی ٹوٹل ۵ سیٹیوں پر مشتمل تھی جس میس ایک میری سیٹ اور مزید ۴ سیٹیوں پر ایک فیملی بیٹھی تھی جو کہ ایک صاحب انکی بیوی اور دو لڑکیاں تھیں جو کہ میرے لئے انتہائی تکلیف کا باعث تھی میں نے ٹی ٹی سے کہہ کر اپنی سیٹ تبدیل کرانے کی کوشش بھی کی لیکن قسمت؟۔

سفر شروع ہو ئے ایک گھنٹہ گزر چکا تھا اور اس دوران میں سگریٹ کا ایک پیکٹ پی چکا تھا اپنے سارے غم سگریٹ کے دھویں میں اڑادینا چاہتا تھا گاڑی میں بیٹھے یہ صاحب جو اپنی فیملی کے سربراہ تھے بڑے غور سے مجھ کو دیکھ رہے تھے ہمت کرکے ان صاحب نے معذرت کرتے کہا بیٹا آپ کا نام کیا ہے میں نے کہا انکل میرا نام سلیم ہے انہوں نے باتوں کا سلسلہ بڑھاتے ہوئے کہاکس شہر کے رہنے والے ہو میں نے بتایا کہ میں کراچی کا رہنے والا ہوں انہوں نے مزید کہا کہ شکل سے شریف گھرانے سے لگتیہو اور سگریٹ کے عادی بھی نہیں پھر کیا بات ہے جو اتنی سگرٹیں پی گئے اور پھر بھی بے سکون ہو کیا پریشانی ہے میں خاموش رہا اور ہر تھوڑی دیر کے بعد مجھ سے یہ سوال کرتے میں نے اپنی خاموشی کو جاری رکھا اور سگریٹ جو میرے غم کا علاج تھا میں سگریٹ پیتا رہا کچھ دیر بعد میری اس خاموشی کو توڑنے کے لئے آنٹی اور انکی دونوں بیٹیوں نے کوشش شروع کردی آنٹی نے کہا بیٹا ۲۰ سے ۲۲ گھنٹے کا سفر ہے اس دوران کتنی سگرٹیں پیو گے کہیں جل کر راکھ نہ ہو جاو انکے لہجے میں بہت پیار تھا درد تھا اپنا یت تھی اب کہ میں شرمندہ سا ہوگیااس دفعہ انکے جواب میں میں نے اپنی سگرٹیں گاڑی کی کھڑکی سے باہر پھنک دیں میرے اس جوابی انداز پروہ بہت خوش ہوئیں مزید کہا کہ بیٹا سفر تو سفر ہے کیو ں نہ ہم سفر کو جوائنٹ فیملی کی حیثیت سے گزاریں انکے لہجے میں مزید مٹھاس شامل ہو چکی تھی میری نظر جب انکی بڑی بیٹی پر پڑی میں نے محسوس کیا کہ یہ بھی کچھ کہنا چاہتی ہے لیکن چپ ہے جو کہ انتہائی خوبصورت اور عمر میں میری ہی ہم عمر لگتی تھی جسکا نام زوبیہ تھااس فیملی نے دوران سفر میری بہت خاطر کی خاص طور سے زوبیہ نے بہت کمپنی دی انکل میرے اس جوابی راویئے سے بہت خوش تھے اور دوران سفر اس فیملی کی محبت پاکر میں سار ے دکھ درد بھول چکا تھالیکن یہ لمحے وقتی تھے کراچی قریب تھا میری سوچ اور خاموشی کو توڑتے ہوئے انکل نے کہا بیٹا ہمارا سفر بہت اچھا گزرا اور ہمیشہ یاد رہے گا اگر تم مناسب سمجھو تو میں جہاں کراچی میں قیام کروں گا اسکا پتہ یہ ہے آپ ضرور ملنے آیئے اور لاہور جو ہمارا گھر ہے اسکا پتہ یہ ہے جب بھی لاہور آئیں ہمارے ہی گھر قیام کرنا گاڑی اسٹیشن پر رکی سب نے اپنا اپنا سامان اٹھایا اور اپنی منزل کی جانب روانہ ہوگئے میرے پاس کوئی سامان نہ تھا صرف سگریٹ کے کچھ پیکٹ تھے جو میں نے انکل کے کہنے پر گاڑی کی کھڑکی سے باہر پھینک دئیے تھے میں نے انکل اور انکی فیملی کو خدا حافظ کہا اور میں بھی اپنے گھر کی جانب چل دیا زوبیعہ اور اسکی فیملی نے دوران سفر بہت پیار و محبت دی لیکن مجھ کو تو صرف رابیعہ کے دئیے غم اور اس کی بے وفائی عزیز تھی میں ان ہی کے سہارے زندگی گزارے کا فیصلہ کرچکا تھا رابیعہ کے دئیے غم اور اس کی بے وفائی کے سہارے کتنے ہی دن گز گئے لیکن اس کی یاد میں کمی نہ آئی ایک دن میں آفس سے گھر پہنچا تو دیکھا رابیعہ آئی ہوئی تھی اچانک اور غیر توقع اسے اپنے گھر میں دیکھا تو میں ایک دم اسکی جانب لپکنے کو تھا لیکن رک گیا صرف دعا ئسلام پر ہی اکتعفا کیا اور اپنے کمرے میں چلا گیا شاہدمیرا یہ راویہ اس کی توقع میں شامل تھا اس نے بھی کوئی گرم جوشی نہیں د کھائی اسکو آئے ہوئے کافی دن ہوچکے تھے لیکن صرف سلام دعا کے علاوہ کوئی بات نہیں ہوتی تھی ایک دن جب میں آفس سے گھر لوٹا تو گھر میں صرف رابیعہ تھی اور سب گئے ہوئے تھے میں نے کپڑے چینج کئے اور واش روم سے فارغ ہو ا تو اتنی دیر میں اس نے ٹیبل پر کھانا لگادیا تھا اور خود بھی ساتھ بیٹھی ہوئی تھی میرے لئے یہ منظر بہت تکلیف دہ تھا کیو نکہ میں اس کے ساتھ کسی قسم کی گفتگو نہیں کرنا چاہتا تھا میں نے خاموشی سے کھانا کھایا اور اْٹھ کر اپنے کمرے میں چلا گیا میرا یہ انداز اسے بہت ناگوار گزرا ایک دن ایسا ہی ہوا اس دن میں نے آفس سے چھٹی کی تھی اور گھر والے کہیں گئے ہوئے تھے شام کو یہ آئی تو اس نے مجھے اکیلا پا کر ان سارے دنوں کے گلے و شکوہ کر ڈالے میں خاموش رہا مزید اس نے بتایا کہ میں چند دن اور تمہارے گھر ہوں میری جوب جیسے ہی لگ جائے گی میں ایک فلیٹ کرائے پر لے لوں گی میں نے کہا لیکن آپ کی لاہور والی جوب وہاں تو کمپنی کا باس آپ پر فدا تھا اْ س جوب کا کیا ہوا جس چکر میں؟ میں اس کے چہرے کے تاثرات اچھے نا پا کر میں رک گیا بہر کیف آپ کو کوئی فلیٹ کرائے پر لینے کی ضرورت نہیں ہماراگھر بہت بڑا ہے اس نے بات کا رخ بدلتے ہوئے کہا لیکن آپ کا دل بہت چھوٹا ہے جب سے میں کراچی آپ کے گھر آئی ہوں آپکا راویہ کچھ اچھا نہیں پایا اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو میرا یہاں رہنا پسند نہیں آیا میں نے کہا میں تو اس دن سے خاموش ہوں جس دن تم نے ؟ لیکن میں خاموش ہوگیا اس لئے کہ میں مزید گفتگو نہیں کرنا چاہتا تھاگھر کے دروازے کی کھٹ کھٹ سے یہ اندازہ ہوگیا کہ گھر والے آگئے ہیں ہم دونوں خاموش ہو گئے میرا اندازہ بھی ٹھیک تھا گھر کے لوگ آگئے تھے کچھ دنوں کے بعداس کی جوب لگ گئی اور یہ کرائے کا فلیٹ لیکر اس میں شفٹ ہوگئی ازرائے انسانیت اس کا کرائے کے فلیٹ میں شفٹ ہونا مجھے ا چھا نہیں لگا اور میں اپنے آپ کو قصور وار ٹھیرا کر اس سے ہمدردی کرنے لگا تھا اور سوچتا تھا کہ ایک لڑکی کے ساتھ کیا گزری کہ وہ اپنا گھر اپنا شہر اپنی جوب چھوڑنے پر مجبور ہوگئی اس کی بے رخی اس کی بے وفائی میں سب بھول چکا تھامیری والدہ نے میری شادی کے حوالے سے اس کے رشتے کی بات کی تو میں راضی ہوگیا ایک دن اسکا اچانک میر ے موبائل پر فون آیا کہ سلیم تم کو اس بات کا علم ہوگا کہ میرے لئے تمہارا رشتہ آیا ہے میں نے کہا جی معلوم ہے تو سنو میں اس رشتے سے انکار کرتی ہوں اسلئے کہ میں کسی کی ہمدردی کی بنیاد پر زندگی نہیں گزرانا چاہتی ہوں میں نہیں سمجھ سکا کہ یہ کوئی نئی کہانی ہے یا اسکے محسوسات ہیں لیکن اس بار میرے دل پر کسی قسم کا اثر رونما نہیں ہوا میں نے نارمل انداز میں اسکا فون سنا اوردوسرے دن اپنی والدہ کو کس اور جگہ رشتے کے لئے کہہ دیا وقت گزرتا رہا زندگی روادواں رہی کچھ عرصے بعد میری شادی ہوگئی شادی کے بعد ویسے بھی زہنی تبدیلی آجاتی ہے میں زندگی کے رنگوں میں کھو گیا تھا کچھ عرصے بعد رابیعہ کی بھی شادی ہوگئی اور اپنی دنیا میں مست ہوگئی وقت گزرتا رہا میں سب کچھ بھول چکا تھا بچے ہوگئے باوجود اسکے کہ رابیعہ میری قریبی رشتے دار تھی لیکن ہم آپس میں نہیں ملتے تھے میں ایسی محفل سے پرہیز کرتا تھا جہاں رابیعہ کی موجودگی ممکن ہو ۔

ایک دن میں لا سانیہ ریسٹورینٹ میں اپنے دوست کے ساتھ لنچ کررہا تھا کہ میری نظر سامنے ٹیبل پر بیٹھی دو خاتون پر پڑی جو مجھ کو بڑے غور سے دیکھ رہی تھیں پہلے تو میں اسے اپنا وہم سمجھا باوجود اس کے کہ کافی دیر تک میں انہیں نظر انذاز کرتا رہا لیکن میں نے محسوس کیا کہ یہ مجھ کو مسلسل دیکھ رہی ہیں چونکہ کسی سے غیر ضروری تعلقات قائم کرنے کا بھی میں عادی نہیں تھا اسلئے میں اپنا لنچ مکمل کرکے چلنے ہی والا تھا کہ یہ دونوں خاتون بغیر اجازت ہمارے سامنے خالی سیٹوں پر بیٹھ گئیں گو کہ میرے لئے انتہائی ناگواری کا بھی باعث تھا لیکن میں نے بڑے ادب سے دریافت کیا آپ کو ہم سے ملنا ہے جی ہمیں آپ سے ہی ملنا ہے مجھ سے مخاطب ہوتے ہوئے ایک خاتون نے جواب دیا اور ساتھ میں سوال کیا کہ آپ کا نام سلیم ہے میں نے کہا جی میرا نام سلیم ہی ہے لیکن آپ کون ہیں اس نے میرے سوال کا جواب دئیے بغیر دوسرا سوال کیا کہ کیا آپ کراچی ہی کے رہنے والے ہیں میں نے کہا جی ہاں لیکن آپ کون ہیں آپ نے بتایا نہیں اس نے میرے سوال کا جواب دئیے بغیر تیسرا سوال کر ڈالا کہ آپ پاکستان کے اور شہروں میں بھی آتے جاتے رہے ہیں میں اس دفعہ میں جھنجلا گیا تھا لیکن میں نے پھر بھی اس کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ یس میڈم میں پاکستان کے تمام شہروں میں گھومتا رہا ہوں اور لاہور کافی گیا لیکن کافی عرصے سے میں کہیں نہیں گیا میں نے مزید کئے بغیر سوالوں کے بھی جواب دے دئیے اور کہا مزید کیا معلوم کرنا چاہتی ہیں اس دفعہ اس نے کہا کہ سلیم میرا نام زوبیعہ ہے اور سلیم تمہارا حولیہ تو کافی تبدیل ہوگیا ہے لیکن تمہارا لہجہ ابھی تک روکھا ہے اس دفعہ میں پچھلے سوالوں کی نسبت اور زیادہ پریشان ہو گیا کہ یہ کیا بلاآگئی اور یہ مجھکو اتنا کیسے جانتی ہے اور اتنا فری ہوکر بات کررہی ہے میر ا دوست یہ سب تماشہ دیکھ رہا تھا لیکن چپ تھااب میں نے تھوڑا سبھل کر میں نے سوال کیا کہ زوبیعہ صاحبہ آپ مجھکو کیسے جانتی ہیں کیونکہ میری یاداشت کے کسی کونے میں زوبیعہ نام ضرور ہے لیکن آپ کون ہیں زوبیعہ ایک دم خوش ہوتے ہوئے بولی شکر ہے نام تو یاد آیا وہ ٹرین کا سفر بھی یاد آجائے گا جہاں ہماری ملاقات ہوئی تھی اہو نو تم وہ زوبیعہ ہواور یہ زوبیعہ نے کہا کہ یہ وہی میری چھوٹی بہین جو گاڑی میں ہمارے ساتھ تھی میں نے بے ساختہ کہا یار تم نے مجھے خوب پہچانا زوبیعہ نے کہا سلیم میں تمہیں بھولی کب تھی جو نہیں پہچانتی میرا دوست جو لنچ میں میرے ساتھ تھا اٹھتا ہوا بولا یار آپ ایک دوسرے کو کمپنی دو مجھکو دیر ہورہی ہے میں اور یہ دونوں بہت دیر تک باتیں کرتے رہے اس دوران کافی کا دور چلالیکن زوبیعہ کی ہر بات میں شکوہ تھا اور اس کا ہر شکوہ بر حق تھا اور جو اس نے شکوہ کیا وہ سچ تھا اس نے بتایا کہ گاڑی کی مختصر ملاقات میں میں تم کو دل دے بیٹھی تھی میں نے تمکواپنا سب کچھ مان لیا تھامیرے والدین میری کسی خواہش کو رد نہیں کرتے تھے وہ میری آپ میں دلچسپی دیکھ رہے تھے اوربہت کچھ محسوس کررہے تھے اور ان کی خاموشی مجھکو اور تقویت دے رہی تھی کراچی میں قیام کے دوران امی ابو اور خاص طور سے میں نے آپ کا بہت انتظار کیا لیکن نہ آنا تھا اور نہ آئے دل کو توڑنے والے لاہور جاکر بھی آپ کا کافی انتظار کیا میرے نہ چاہتے ہوئے بھی میری کچھ عرصے کے بعد شادی ہوگئی اسلئے کہ میرا دل آپ کے سوا کسی کو قبول کرنے کو تیار نہیں تھا کچھ عرصے بعد میں اپنے شوہر میں مصروف ہوگئی تھی لیکن قسمت کے کھیل عجیب تھے میرے شوہر کی ایک ایکسڈنٹ میں موت واقع ہوگئی کچھ عرصے بعد امی اور ابو کا بھی انتقال ہوگیا تھا ثوبیہ شادی ہوکر کراچی آگئی تھی اب لاہور میں اکیلی رہ گئی تھی شوہر کا چھوڑا پیسہ بہت تھا لیکن ساتھ رہنے والا نہ تھالہذا میں بھی کراچی شفٹ ہوگئی تھی اس امید کے ساتھ کہ کراچی میں کہیں تو آپ سے ملاقات ہوگی سو آج زوبیعہ یہ کہتے کہتے رک گئی آنکھوں میں آنسوں تھے آواز بھرا گئی تھی زوبیعہ کی گفتگو میں حقیقی پیار تھا اور میں اپنے دل ہی دل میں اپنے آپ کو کوس رہا تھا کہ میں کتنا ظالم ہوں شرمندہ بھی ہورہا تھا کہ ایک بے وفا لڑکی کے دئیے غم اور اس کی بے وفائی کے سا تھ زندگی گزرنے کا غلط فیصلہ کیوں کیا اتنی محبت دینے والی لڑ کی اورشفقت آمیز فیملی کو اہمیت نہیں دی اپنی زندگی بربادکی وقت کافی گزر چکا تھا لیکن زوبیعہ کے شکوے ختم نہ ہو رہے تھے کہ اچانک زوبیعہ کی بہین ثوبیہ کے موبائل پر گھنٹی بجی باتوں کا سلسلہ ٹوٹ گیا ثوبیہ کے شوہر کی کال تھی کہ تم کہاں ہو کافی دیر ہوگئی ہے ثوبیہ نے بہانا کرتے ہوئے جواب دیا کہ مارکیٹ میں دیر ہوگئی تھی اب ہم لاسانیہ رسٹورنٹ پر کافی پینے آگئے تھا ثوبیہ کے شوہر رحیم نے کہا ٹھیک ہے میری دوسری کال پر باہر آجانا زوبیعہ نے فوری اپنا فون نمبر دیا اور میرا نمبر مانگا میں موبائل اتفاق سے گھر بھول آیا تھا اسلئے بہانا کرنے میں آسانی ہوگئی تھی میں نے کہا کہ میں موبائل نہیں رکھتا ہوں ثوبیہ کے شوہر کی دوسری کال آگئی تھی جلدی جلدی میں دوبارہ ملنے کا وعدہ لیکروہ چلی گئی وقت بہت گزر چکا تھا اور میں زہنی طور سے بہت تھک چکا تھا ہوٹل کا بل دے کر گھر کا رخ کیا رات سونے کی بہت کوشش کی لیکن احساس شرمندگی سے نیند ناجانے کہاں کھو گئی تھی صبح ہونے تک میں جاگتا رہا پھر اچانک آنکھ لگ گئی رات بھر جاگنے اور دیر تک سونے سے طعبیت میں بہت بھاری پن تھا میں اپنا موبائل بند کرکے دن بھر گھرپر ہی رہازوبیعہ کی اس اچانک ملاقات نے مجھکو جھنجو ڑ دیا تھا میں دوبارہ سے ٹوٹ گیا تھا رابیعہ کی پچھلی یادیں اور اس کے دیئے سارے غم تازہ ہوکر سب سمٹ آئے تھے زوبیعہ سے احساس شرمندگی اور تکلیف کا باعث بن رہا تھالیکن وقت اب اتنا آگے جاچکا تھاکہ میں کچھ نہیں کرسکتا تھا میرے بچے ہو چکے تھے اور میں زوبیعہ سے شادی کرکے اپنے بچوں کے آگے شرمندہ بھی نہیں ہونا چاہتا تھا اس لئے میں نے فیصلہ کیا کہ میں زوبیعہ سے نہیں ملوں گا
جیسے جیسے دن گزرتے رہے میری طعبیت میں خرابی بڑھتی گئی رابیعہ کی پچھلی یادیں اور اس کے دیئے سارے غم شدت اختیار کرنے لگے

دل و دماغ نے کام کرنا چھوڑ دیا جسم کا درجہ حرارت ۱۰۱ اور ۱۰۲ کے درمیان رہنے لگا جسم ناکارہ ہوتا گیا اور میں کسی کام کے قابل بھی نہ رہا اکثر ہسپتال میں زندگی گزرتی تھی وقت کے ساتھ ساتھ میری طعبیت سے سب لوگ مایوس ہوچکے تھے نسیمہ بھی لاہور سے ملنے آگئی سب پریشان تھے کہ مجھکو کیا ہوگیا ہے نسیمہ ملنے آئی ہوئی تھی اور نسیمہ ہی کو میں اپنے دل کے زحم دیکھا سکتا تھا کیونکہ میں نے اس کے ساتھ دوستانہ زندگی گزرای تھی موقع ملنے پر اس سے کہا نسیمہ میں تم کو ایک ذمہ د اری دے رہا ہوں اور مجھکو امید ہے کہ تم خوب اچھے طریقے سے اس ذمہ داری کو پوری کرنے کی اہلیت بھی رکھتی ہو نسیمہ نے کہا میں بلکل میں ذمہ داری پوری کروں گی لیکن مسئلہ کیا ہے میں نے کہا کہ میری بیماری اصل جسمانی بیماری نہیں یہ تو میڈیکل رپورٹیں بھی بتا رہی ہیں اصل مسئلہ میں نے تمہارے موبائل پر ایک میسج کیا ہے پڑھ لینا جس پر لکھا ہے کہ یہ دل کے پرانے زخم ہیں جو ناسور بن کر ریس رہے ہیں یہ میسج میرے مرنے کی خبر دیتے ہوئے اسے فارورڈ کرنا جس کو تم اس سے متعلق سمجھو نام نہیں لکھا ہے اور ایک افسانہ آپ بیتی کے نام سے دے رہا ہوں اسے پڑھکر سب سمجھ آجائے گا کہ کس کو یہ میسج فارورڈ کرنا ہوگااس افسانے کا اختتام تم نے لکھنا ہے کیونکہ میرے مرنے کے بعد میسج پڑھکر اس کے کیا تاثرات ہوتے ہیں یہ تم نے تحریر کرنا ہوگا مرنے کے بعد تو یہ ادھورا رہے جائے گا اسلئے اب یہ ذمہ داری تمہاری ہے ویسے بھی میں جسمانی دماغی طور سے بلکل ناکارہ ہوتا جارہا ہوں مزید لکھنے کے بھی قابل نہیں رہا نسیمہ افسانہ آپ بیتی لیکر رخصت ہو گئی طعبیت کی زیادہ خرابی کی وجہ سے ہسپتال ہی میں تھا ڈاکٹروں کے مطابق میری چند دن کی اور زندگی تھی اسی لئے گھر والوں نے مجھے ہسپتال میں ہی رکھنا مناسب سمجھا تھا۔

میں( نسیمہ )نے جب اس افسانہ آپ بیتی کو تفصیلی پڑھا و اضع ہوگیا تھا کہ یہ میسج رابیعہ کے لئے ہی ہے دوسرے دن میں رابیعہ کے پاس گئی اور میسج اسے دیکھایااور اسے بتایا کہ سلیم ہسپتال کے بستر مرگ پر پڑا ہے جس کی وجہ تم سے جدائی اور تمہاری بے وفائی ہے ڈاکٹروں کی رپورٹ کے مطابق یہ زندگی کے سانس پورے کررہا ہے تم اگر میرے ساتھ چلو تو شاہد اسکی زندگی کا چراغ روشن ہو جائے رابیعہ کچھ دیر خاموش بیٹھی رہی پھر یکہ یک چلنے کے لئے کھڑی ہوگئی پہلی مرتبہ سلیم کے لئے اسکی آنکھوں میں آنسوں تھے میں رابیعہ کو لیکر ہسپتال پہنچی جب کمرے میں داخل ہوئے تو سب کچھ ختم ہوچکا تھا کمرے میں دو ڈاکٹر موجود تھے اورسلیم کی فیملی کے آنکھوں میں آنسوں تھے ڈاکٹر کہہ رہے تھے کہ سلیم کی موت واقع ہو چکی ہے اب اس کے بعد میں نے رابیعہ سے کچھ کہنا مناسب نہ سمجھاموت کی رسومات نمنٹنے کے بعد ایک دن میں رابیعہ کے پاس گئی اورسلیم کی طرف سے دی گئی افسانے کے اختتامی تحریر کے حوالے سے اس میسج کے بارے میں ذکر کیا کہ اس مسیج کے حوالے سے تمہارے کیا تاثرات ہیں جو کہ افسانے کو مکمل کرنا تھا دریافت کیارابیعہ کی آنکھوں میں آنسوں تھے اور خاموش تھی اس نے کسی قسم کا کوئی تبصرہ کرنا مناسب نہ سمجھا اور یہ سلیم کے افسانہ آپ بیتی کا اختتام ہے
 

Sonia Ali
About the Author: Sonia Ali Read More Articles by Sonia Ali: 34 Articles with 32710 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.