رخشندہ مہرش کے کمرے میں آئیں تو وہ اپنے ڈوپٹے پر لیس
لگا رہی تھی ۔
کتنی خوبصورتی سے لیس لگائی ہے۔ انہوں نے ڈوپٹے کا پلو پکڑا۔
امی آپ نے ہی سکھایا ہے اور آپ ہی حیران ہوجاتی ہیں ۔
ہاں کیوں کہ تم مجھ سے بھی ذیادہ نفاست سے کام کرتی ہو۔
لیکن امی شہزین کہہ رہی تھی کے یہ سب آوٹ آف فیشن ہوگیا ہے۔ اب کوئی لیس
نہیں لگاتا۔
رخشندہ کے چہرے کی مسکراہٹ غائب ہوگئ تھی جو بات کہنے آئی تھیں اس کے لئے
ہمت چاہیئے تھی۔
ہاں ٹھیک کہا شہزین نے باقی ڈوپٹوں پر میں الگ الگ ڈیزائن کی پیکو کروا
دونگی۔ فی الحال میں تم سے ضروری بات کرنے آئی ہوں ۔
جی کہیئے۔
تمہاری خالہ کا فون آیا تھا انہوں نے شہزین کے لئے احزم کا رشتہ مانگا ہے۔
مہرش کی مسکراہٹ بھی غائب ہوگئ تھی۔ یہ تو اچھی بات ہے امی۔ اس نے توقف کے
بعد جواب دیا۔
ہاں لیکن میں نے انہیں کوئی جواب نہیں دیا سوچنے کے لئے وقت مانگا ہے۔ پھر
تم سے پوچھے بغیر بھی ہاں نہیں کرسکتی۔ وہ اسکا ری ایکشن جاننے کی کوشش کر
رہی تھیں۔
مجھ سے پوچھنے کی کیا ضرورت ہے امی جس کے لئے رشتہ آیا ہے اس سے پوچھیں اگر
شہزین راضی ہے تو آپ ہاں کردیں۔اس نے ڈوپٹہ طے کیا اور الماری میں رکھنے
لگی رخشندہ اس کے چہرے کا بدلتا رنگ دیکھ رہی تھیں لیکن وہ پر سکون تھی۔
شہزین۔۔۔۔۔ خوش ہے اس رشتے سے میں تابندہ کو ہاں بول دیتی ہوں۔ وہ کھڑی
ہوتے ہوئے بولیں۔ خوش رہو۔ انہوں نے اسکے سر پر ہاتھ رکھا اور چلی گئیں ۔
کتنی دیر وہ بے مقصد الماری کا دروازہ تھامے کھڑی رہی۔
تو یہ تھی وہ وجہ جو تمہیں بار بار یہاں لاتی تھی۔ اور میں سمجھتی تھی تم
میرے لئے آتے ہو۔ میں اپنی بے نور آنکھوں سے تمہارا پیار دیکھتی رہی اور تم
نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم نے تو مجھ پر کبھی ایک نظر پیار کی بھی نہیں ڈالی۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رقیہ کے گھر میں دو شادیوں کی وجہ سے کافی رونق تھی۔ راحیلہ اور ثوبیہ اپنی
شاپنگ کی پلاننگ کر رہی تھیں ساتھ ہی رقیہ فیضان اور غزوان کے ساتھ مہمانوں
کی لسٹ بنوا رہی تھیں۔
بھئی تم دونوں اپنی شاپنگ کرنے جاو تو امبرین اور مہرش کی بری کے جوڑے بھی
لے آنا ۔ رقیہ نے اپنی بیٹیوں کو یاد دلایا۔
کیا ہو گیا امی۔ آپکو پتا ہے امبرین کی چوائس کا اسے کسی کے لائے ہوئے کپڑے
پسند نہیں آئیں گے۔ اسے ساتھ لیکر جانا پڑے گا۔ ثوبیہ نے امبرین کی دی گئ
ہدایات دہرائیں۔
اچھا ٹھیک ہے فیضان تمہیں اور امبرین کو لے جائے گا۔ پھر مہرش کے لئے بھی
ویسے ہی ڈریسس لے لینا۔ انہوں نے جان چھڑائ۔
نہیں امی امبرین نے پہلے ہی منع کیا ہے کہ بری کے جوڑے ایک جیسے نہیں ہونے
چاہیئے۔ فیضان نے بھی امبرین کا پیغام پہنچایا۔
افوہ ایک تو آجکل کی لڑکیوں کے نخرے بھی نا۔ بھئ تو الگ الگ ڈیزائن کے کپڑے
لے لینا۔
کیوں امی؟ جب امبرین اپنی پسند کے ڈریسس پہنے گی تو مہرش کا بھی حق ہے کے
اپنی شاپنگ خود کرے۔ غزوان نے مداخلت کی۔
ہیں۔ تمہارا دماغ تو ٹھیک ہے وہ کیسے شاپنگ کرسکتی ہے؟ رقیہ نے حیرانی سے
بولا۔
وہ شاپنگ کیوں نہیں کرسکتی۔ ممانی جان اسے لیکر جاتی ہیں اپنے ساتھ وہ
کپڑوں پر ہاتھ رکھ کر اسکے کام کا اندازہ لگا لیتی ہے اور واقعی اسکی چوائس
بہت اچھی ہے۔ آپ نے اسکی ڈریسنگ نہیں دیکھی۔ غزوان نے انہیں یاد دلایا۔
ہاں لیکن ڈریسس کے کلرز اور ڈیزائن شہزین نکلواتی ہے اس میں سے سلیکٹ کرتی
ہے وہ ورنہ ہاتھ لگا کر صرف ڈیزائن سمجھ میں آتا ہے کلر نہیں۔ ثوبیہ نے طنز
کیا۔
ہاں تو ٹھیک ہے تم ڈیزائن اور کلر نکلوا لینا وہ سلیکٹ کر لےگی کے کونسا
لینا ہے۔ غزوان نے مشورہ دیا۔
بالکل نہیں میرا دماغ خراب نہیں ہے اور نہ ہی میرے پاس اتنا فالتو ٹائم ہے
کے میں اسے ٹٹول کر شاپنگ کراوں۔ ثوبیہ غصے سے اٹھ کر چلی گئی تھی۔
امی دیکھا آپ نے۔ غزوان نے شکایتی نظروں سے رقیہ کو دیکھا۔
ٹھیک ہی تو کہہ رہی ہے۔ تمہارا تو دماغ خراب ہے تمہاری ضد کی وجہ سے شادی
کروا رہی ہوں اس نابینا لڑکی سے اب اس سے ذیادہ امید مت رکھو۔ انہوں نے دو
ٹوک جواب دیا۔
امی وہ نابینا لڑکی آپکی سگی بھتیجی ہے اور آپ اسکے بارے میں ایسا سوچتی
ہیں ۔ تم فکر مت کرو غزوان میں تمہارے اور مہرش کے ساتھ چلونگی شاپنگ کرنے۔
راحیلہ نے معاملہ سلجھایا۔
غزوان اثبات میں سر ہلاتا ہوا چلا گیا تھا۔ اپنے گھر والوں کا رویہ بار بار
اسے دکھی کر دیتا تھا۔
شکر ہے میں تو اس خواری سے بچا۔ فیضان نے شکر ادا کیا۔
فیضان بس کردو تم لوگ۔ اور امی آپ بھی اب اسے قبول کر لیں اب۔ راحیلہ نے
ایک بار پھر سمجھایا۔ رقیہ غصے سے اسے گھور کر رہ گئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپکو کیا ضرورت تھی غزوان مجھے شاپنگ پر لے جانے کی ضد کرنے کی؟ رونے سے
اسکی آواز بھاری ہو رہی تھی غزوان کو اس نے طبیعت کی خرابی کا کہہ کر ٹال
دیا تھا۔
بھئ کیوں ضرورت نہیں تھی کپڑے تمہیں پہننے ہیں تو تمہاری پسند کے ہونے
چاہیئے۔
ہاں لیکن مجھے کیا فرق پڑتا ہے۔۔۔۔
ہاں لیکن مجھے تو فرق پڑتا ہے۔ تم دیکھنا جد چیز پر ہاتھ رکھو گی وہ چیز
تمہاری ہوگی۔ غزوان نے اسی کے لہجے میں جواب دیا۔
مہرش کی ہنسی پھر تھم گئی تھی۔ ( ہر چیز میری نہیں ہو سکتی غزوان) اس نے دل
میں سوچا۔
اچھا بتاو شہزین تو بہت خوش ہوگی۔ غزوان بے خبر تھا اسکی کیفیت سے۔ رخشندہ
نے فون کرکے رقیہ کو بتایا تھا احزم اور شہزین کے رشتے کا۔
ہاں بہت خوش ہے۔ ہوائوں میں اڑ رہی ہے۔
ویسے تمہیں پتا ہے مجھے تو پہلے ہی شک تھا ان دونوں پر بلکہ یقین تھا۔
غزوان نے انکشاف کیا۔
کیا؟ آپکو اندازہ تھا۔۔۔۔۔ وہ حیران تھی۔
ہاں بس مجھے ڈر تھا کے کہیں احزم تم میں انٹرسٹڈ نہ ہو۔ لیکن پھر جب میں نے
اسکا انٹرسٹ شہزین میں دیکھا تو سکون کا سانس لیا۔ مجھے اسکا تم سے
فرمائشیں کرنا بالکل پسند نہیں تھا۔ اور پھر تم کسی کو منع بھی نہیں کرتیں۔
لیکن اب تمہیں اسکی کوئی فرمائش پوری کرنے کی ضرورت نہیں۔ سن کیا تم نے ؟
جی سن لیا۔ شاید امی بلا رہی ہیں میں بعدمیں بات کرتی ہوں۔ اس موضوع پر
مزید بات نہیں سننا چاہتی تھی وہ۔
تو آپکو بھی اندازہ ہوگیا تھا غزوان ایک میں ہی بے خبر تھی۔۔۔۔۔۔ اس نے دل
میں سوچا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باقی آئندہ
|