امسال مسجد حرام ومسجد نبوی میں صرف ۱۰ رکعت نماز تراویح کیوں؟

مسجد حرام ومسجد نبوی انتظامیہ کے سربراہ اعلیٰ شیخ عبد الرحمن السدیس کے اعلان کے مطابق کورونا وبائی مرض سے بچاؤ کے لئے امسال ماہِ رمضان میں مسجد نبوی ومسجد حرام کے متعلق چند تبدیلیاں کی جارہی ہیں۔ دوسرے خلیفہ حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کے زمانہ میں صحابۂ کرام کی اتفاق رائے سے باقاعدہ شروع ہوئی بجماعت بیس رکعت نماز تراویح اور تین رکعت وتر کے بجائے امسال دس رکعت نماز تراویح اور تین رکعت وتر ادا کئے جائیں گے، پہلے امام تراویح کی چھ رکعت اور دوسرے امام چار رکعت اور تین وتر ادا کریں گے، وتر کی تیسری رکعت میں قنوت یعنی دعا مختصر ہوگی۔ البتہ رمضان کے آخری عشرہ یعنی اکیسویں شب سے آدھی رات کے بعد تہجد کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کی جائے گی۔ اور ختم قرآن تراویح اور تہجد میں ملاکر ۲۹ ویں شب کی نماز تہجد میں ہوگا۔ امسال مسجد حرام ومسجد نبوی میں افطار کا انتظام نہیں کیا جائے گا، دونوں مساجد میں ہر سال لاکھوں اﷲ کے مہمان افطار کیا کرتے تھے۔ نیز مسجد حرام ومسجد نبوی میں حضور اکرم ﷺ کی ایک اہم سنت اعتکاف ادا نہیں کیا جائے گا۔ اور رمضان میں بھی عمرہ کی ادائیگی پر پابندی جاری رہے گی۔

مسجد حرام ومسجد نبوی میں، اسی طرح اسلام کی پہلی مسجد ’’مسجد قبا‘‘ میں پابندی کے ساتھ ۲۰ رکعت نماز تراویح ہوتی چلی آرہی ہیں۔ سعودی حکومت نے بھی دوسرے خلیفہ کے عہد سے جاری سلسلہ کو باقی رکھا اور اس کی شکل یہ ہوتی تھی کہ نماز عشا کے بعد پہلے امام دو دو رکعت کرکے ۱۰ رکعت نماز تراویح پڑھاتے تھے، پھر دوسرے امام دو دو رکعت کرکے ۱۰ رکعت نماز تراویح اور تین رکعت وتر پڑھاتے تھے۔ کبھی کبھی ایک ہی امام مکمل ۲۰ رکعت بھی پڑھاتے تھے۔ ہر سال اہتمام کے ساتھ ۲۹ ویں شب کو نماز تراویح میں ختم قرآن ہوتا تھا۔ وتر کی تیسری رکعت میں عربی زبان میں لمبی دعائیں بھی ہوتی تھی۔ رمضان کے آخری عشرہ یعنی ۲۱ ویں شب سے نماز تراویح کی تو ۲۰ رکعات ویسے ہی ادا ہوتی تھیں، البتہ آدھی رات کے بعد نماز تہجد کی دو دو رکعت کرکے دس رکعت جماعت کے ساتھ ادا کی جاتی تھیں۔ نماز تہجد کے بعد جماعت کے ساتھ تین رکعت وتر ادا کئے جاتے تھے۔ یعنی آخری عشرہ میں ۲۰ + ۱۰ + ۳ = ۳۳ رکعت بجماعت ادا ہوتی تھیں۔ نماز تراویح کی بیس رکعت میں ۲۹ ویں شب میں قرآن ختم ہوتا تھا جبکہ نماز تہجد میں پڑھا جانے والا قرآن نماز تراویح سے الگ ہوتا تھا جس میں مجموعی طور پر کم وبیش ۱۵ پارے پڑھے جاتے تھے۔

سعودی عرب کے نامور عالم، مسجد نبوی کے مشہور مدرس اور مدینہ منورہ کے (سابق) قاضی شیخ عطیہ محمد سالم ؒ(متوفی ۱۹۹۹) نے نماز تراویح کی چودہ سو سالہ تاریخ پر عربی زبان میں ایک مستقل کتاب (التراویح اکثر من الف عام فی المسجد النبوی) لکھی ہے، جس میں انہوں تاریخی شواہد کی روشنی میں تحریر کیا ہے کہ مسجد نبوی میں پورے چودہ سو سالہ دور میں بیس رکعت سے کم تراویح ادا نہیں کی گئیں۔ مسجد حرام میں بھی بیس رکعت نماز تراویح ہی ہوتی چلی آرہی ہیں۔ تراویح پڑھنے کی اگرچہ بہت فضیلت احادیث میں وارد ہوئی ہے، لیکن فرض نہ ہونے کی وجہ سے تراویح کی تعداد رکعت میں یقینا گنجائش ہے، یعنی بیس رکعت پڑھنا ضروری نہیں ہے۔

لیکن میں امام حرم مکی شیخ عبدالرحمن السدیس کا مکمل احترام کرتے ہوئے نمازِ تراویح کی دس رکعت کی تعین پر اعتراض درج کرتا ہوں کیونکہ حرمین میں تراویح کی دس رکعت کی تعیےن کے لئے شرعی دلیل درکار ہے جو موجود نہیں ہے۔ کورونا وبائی مرض سے بچاؤ کے لئے عمرہ پر پابندی اور پنچ وقتہ نماز کے ساتھ نماز تراویح میں عام لوگوں کو اجازت نہ دے کر صرف چند افراد کو مسجد حرام ومسجد نبوی میں نماز پڑھنے کی اجازت دینے کی گنجائش مل سکتی ہے، لیکن نماز تراویح کے لئے دس رکعت کو منتخب کرنے کی بات سمجھ سے بالاتر ہے۔ حالانکہ ضرورت تھی کہ آخری عشرہ میں نماز تہجد کی جماعت کے اہتمام کے بجائے ۱۴۰۰ سال سے جاری حرمین میں نماز تراویح کی بیس رکعت کا اہتمام کیا جاتا کیونکہ آخری عشرہ میں نماز تہجد کی جماعت کا اہتمام آل سعود کی حکومت کے دوران شروع ہوا ہے۔ خلفاء راشدین، خلافت بنو امیہ، خلافت بنو عباسی اور خلافت عثمانیہ میں ایک مرتبہ بھی رمضان کے آخری عشرہ کی ہر رات کو نماز تہجد کی جماعت کا اہتمام نہیں کیا گیا۔ حضور اکرم ﷺ کے قول وعمل اور صحابۂ کرام کے عمل سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ پورے سال پڑھی جانے والی نماز تہجد اصل میں انفرادی نماز ہے، لیکن نفل ہونے کی وجہ سے نماز تہجد کو جماعت کے ساتھ ادا کرنے کی گنجائش تو ہے، لیکن وقت کی تعیےن کے ساتھ جماعت کے ساتھ نماز تہجد کا اہتمام کرنا صحابۂ کرام، تابعین اور تبع تابعین کے عمل کے خلاف ہے۔ حضور اکرم ﷺ اور صحابۂ کرام کے نقش قدم پر چل کر نمازتہجد کا گھر میں انفرادی طور پر ہی پڑھنا زیادہ افضل ہے۔

اگر دس رکعت تراویح کے بجائے آٹھ رکعت تراویح کا فیصلہ کیا جاتا تو پھر بھی بات سمجھ میں آتی کہ امت مسلمہ کی ایک جماعت کی رائے کو سامنے رکھ کر فیصلہ کیا گیا ہے۔ اگرچہ جمہور علماء وفقہاء وچاروں ائمہ نے بیس رکعت تراویح کی رائے کو اختیار کیا ہے۔ اس لئے میں مسجد حرام ومسجد نبوی انتظامیہ کے سربراہ ڈاکٹر عبد الرحمن السدیس اور سعودی حکومت سے درخواست کرتا ہوں کہ اپنے فیصلہ پر غور کرکے دونوں حرم میں صحابۂ کرام کے مشورہ سے حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کے زمانہ سے چلی آرہی بیس رکعت تراویح کا ہی پورے رمضان میں اہتمام کیا جائے اور آخری عشرہ کی نماز تہجد کی جماعت کو ختم کردیا جائے، کیونکہ دنیا میں کورونا وبائی مرض کی موجودگی کے دوران جب حرمین میں چند افراد دس رکعت نماز ادا کرسکتے ہیں تو بیس رکعت کیوں نہیں؟ دوسری بات عرض ہے کہ نماز تراویح اور نماز تہجد دونوں نمازیں الگ الگ وقت میں پڑھنے پر وبائی مرض کے پھیلنے کے خدشات زیادہ ہیں۔ اس لئے نماز عشا کے فوراً بعد بیس رکعت نماز تراویح پڑھی جائے، آخری عشرہ میں نماز تہجد ادا نہ کی جائے۔ دوسری درخواست یہ ہے کہ حضور اکرم ﷺ۲ہجری میں روزہ کی فرضیت کے بعد سے وفات تک ہمیشہ رمضان میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔ صحابۂ کرام، تابعین اور تبع تابعین اور بڑے بڑے محدثین، مفسرین اور فقہاء بھی حضور اکرم ﷺ کی اس سنت پر اہتمام سے عمل کرتے تھے، لہذا حرمین میں اعتکاف کو بالکل ختم نہ کیا جائے بلکہ جس طرح گنتی کے چند افراد نماز پنچ وقتہ اور نماز تراویح پڑھیں گے اسی طرح چند افراد سماجی فیصلہ کو باقی رکھتے ہوئے اعتکاف بھی کریں تاکہ حرمین میں حضور اکرم ﷺ کی یہ اہم سنت فوت نہ ہو۔ آخر میں عرض ہے کہ ۱۴۰۰ سالہ اسلامی تاریخ میں متعدد مرتبہ وبائی امراض پھیلے، حتی کہ حجاز مقدس میں بعض بیماریوں سے ہزاروں افراد انتقال فرماگئے، لیکن کبھی بھی اس نوعیت کے فیصلے نہیں ہوئے کیونکہ ہمیں وبائی مرض سے بچاؤ کے لئے تدابیر تو اختیار کرنی ہے، لیکن ہر مسلمان کا یہ ایمان وعقیدہ ہے کہ مشیت الٰہی کے بغیر نہ مرض آسکتا ہے، نہ موت۔ حسبنا اﷲ ونعم الوکیل۔

Najeeb Qasmi
About the Author: Najeeb Qasmi Read More Articles by Najeeb Qasmi: 188 Articles with 164485 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.