رمضان

عربی زبان میں رمضان کا مادہ رَمَضٌ ہے، جس کا معنی سخت گرمی اور تپش ہے. رمضان میں چونکہ روزہ دار بھوک و پیاس کی حدت اور شدت محسوس کرتا ہے اس لئے اسے رمضان کہا جاتا ہے۔
(ابن منظور، لسان العرب، ۱۶۲/۷)

ملا علی قاری فرماتے ہیں کہ رمضان رمضاء سے مشتق ہے اس کا معنی سخت گرم زمین ہے لہٰذا رمضان کا معنی سخت گرم ہوا۔ رمضان کا یہ نام اس لیے رکھا گیا ہے کہ جب عربوں نے پرانی لغت سے مہینوں کے نام منتقل کئے تو انہیں اوقات اور زمانوں کے ساتھ موسوم کر دیا۔ جن میں وہ اس وقت واقع تھے۔ اتفاقاً رمضان ان دنوں سخت گرمی کے موسم میں آیا تھا۔ اس لئے اس کا نام رمضان رکھ دیا گیا.
(شرح ابی داؤد للعینی ۵/۲۷۳
ملا علی قاری، مرقاۃ المفاتیح، ۴ : ۲۲۹ )
رمضان فی ضوء القران:

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ(۱۸۳)
اے ایمان والو!تم پر روزے فرض کیے گئے جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تا کہ تم پرہیز گار بن جاؤ۔

اَیَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍؕفَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِیْضًا اَوْ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَؕوَ عَلَى الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَهٗ فِدْیَةٌ طَعَامُ مِسْكِیْنٍؕفمَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا فَهُوَ خَیْرٌ لَّهٗؕوَ اَنْ تَصُوْمُوْا خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(۱۸۴)
گنتی کے چند دن ہیں تو تم میں جو کوئی بیمار ہو یا سفر میں ہو تو اتنے روزے اور دنوں میں رکھے اور جنہیں اس کی طاقت نہ ہواُن پر ایک مسکین کا کھانا فدیہ ہے پھر جو اپنی طرف سے نیکی زیادہ کرے تو وہ اس کے لئے بہتر ہے اور اگر تم جانو تو روزہ رکھنا تمہارے لئے زیادہ بہتر ہے۔
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰى وَ الْفُرْقَانِۚفَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْیَصُمْهُؕوَ مَنْ كَانَ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَؕیُرِیْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْیُسْرَ وَ لَا یُرِیْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ٘-وَ لِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَ لِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰى مَا هَدٰىكُمْ وَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ(۱۸۵)
رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کے لئے ہدایت اور رہنمائی ہے اور فیصلے کی روشن باتوں (پر مشتمل ہے۔) تو تم میں جو کوئی یہ مہینہ پائے تو ضرور اس کے روزے رکھے اور جو بیمارہو یا سفر میں ہو تو اتنے روزے اور دنوں میں رکھے۔اللہ تم پر آسانی چاہتا ہے اور تم پر دشواری نہیں چاہتا اور ( یہ آسانیاں اس لئے ہیں ) تاکہ تم (روزوں کی) تعداد پوری کرلو اور تاکہ تم اس بات پر اللہ کی بڑائی بیان کرو کہ اس نے تمہیں ہدایت دی اورتاکہ تم شکر گزار بن جاؤ.

رمضان فی ضوء الحدیث:

عَنْ ابِی هُرَیْرَةَ رضی الله عنه یَقُوْلُ: قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم: إِذَا دَخَلَ شَهْرُ رَمَضَانَ فتحَتْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ، وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ جَهَنَّمَ، وَسُلْسِلَتِ الشَّیَاطِیْنُ. مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ.

(صحیح بخاری، کتاب الصوم، باب هل یقال رمضان أو شهر رمضان ومن رأی کله واسعا، 2/672، الرقم: 1800، صحیح مسلم، کتاب الصیام، باب فضل شهر رمضان، 2/758، الرقم: 1079)

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور شیاطین کو زنجیروں سے جکڑ دیا جاتا ہے۔‘‘

عَنْ أَبِي هُرَیْرَةَ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم قَالَ: إِذَا جَائَ رَمَضَانُ فُتِحَتْ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ النَّارِ وَصُفِّدَتْ الشَّیَاطِیْنُ.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ۔

( مسلم في الصحیح، کتاب الصیام، باب فضل شهر رمضان، 2: 758، .)

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور شیاطین کو قید کر دیا جاتا ہے۔‘‘
(اس حدیث کو امام مسلم اور نسائی نے روایت کیا ہے۔)
گزشتہ گناہ بخش دیے جاتے ہیں:
عن أبی هريرة رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «من قام رمضان إيمانًا واحتسابًا غفر له ما تقدم من ذنبه» (رواه البخاري ومسلم).

یعنی جو شخص ایمان اور طلب ثواب کے ارادہ سے رمضان کے روزے رکھتا ہے اس کے تمام گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔
عن أبي هريرة رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «من صام رمضان إيمانًا واحتسابًا غفر له ما تقدم من ذنبه، ومن قام ليلة القدر إيمانًا واحتسابًا غفر له ما تقدم من ذنبه» (رواه البخاري ومسلم)
یعنی جو شخص ایمان اور طلب ثواب کے ارادے سے رمضان کے روزے رکھتا ہے اس کے سابقہ تمام گناہ بخش دیے جاتے ہیں، اور جس نے ایمان اور طلب ثواب کے ارادے سے لیلة القدر میں قیام کیا اس کے سابقہ تمام گناہ بخش دیے جاتے ہیں ۔

كل عمل ابن آدم له إلا الصيام؛ فإنه لي وأنا أجزي به:
عن أبی هريرة رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: (قال الله عز وجل: كل عمل ابن آدم له إلا الصيام؛ فإنه لي وأنا أجزي به، والصيام جنّة، وإذا كان يوم صوم أحدكم فلا يرفث، ولا يصخب، فإن سابّه أحد أو قاتله فليقل: إني امرؤ صائم، والذي نفس محمد بيده لخلوف فم الصائم أطيب عند الله من ريح المسك، للصائم فرحتان يفرحهما: إذا أفطر فرح، وإذا لقي ربه فرح بصومه) رواه البخاري ومسلم.
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ عزوجل فرماتا ہے کہ انسان کا ہر نیک عمل خود اسی کے لیے ہے مگر روزہ کہ وہ خاص میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا اور روزہ ڈھال ہے، اگر کوئی روزے سے ہو تو اسے فحش گوئی نہ کرنی چاہئے اور نہ شور مچائے، اگر کوئی شخص اس کو گالی دے یا لڑنا چاہئے تو اس کا جواب صرف یہ ہو کہ میں ایک روزہ دار آدمی ہوں، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے ! روزہ دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ بہتر ہے، روزہ دار کو دو خوشیاں حاصل ہوں گی ( ایک تو جب ) وہ افطا رکرتا ہے تو خوش ہوتا ہے اور ( دوسرے ) جب وہ اپنے رب سے ملاقات کرے گا تو اپنے روزے کا ثواب پاکر خوش ہوگا۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم رمضان میں سب زیادہ سخاوت فرماتے:
قال أخبرني عبيد الله بن عبد الله عن ابن عباس قال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم أجود الناس وكان أجود ما يكون في رمضان حين يلقاه جبريل وكان يلقاه في كل ليلة من رمضان فيدارسه القرآن فلرسول الله صلى الله عليه وسلم أجود بالخير من الريح المرسلة۔
حضرت عبدُاللہ ابنِ عبّاس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : ’’ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ لوگوں میں سب سے بڑھ کر سخی تھے اور رَمضان شریف میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ(خصوصاً) بہت زیادہ سخاوت فرماتے تھے ۔ جبر ئیل ا مین عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام رَمَضانُ المبارَک کی ہر رات میں ملاقات کیلئے حاضِر ہوتے اور رسولِ کریم، رء ُوفٌ رَّحیم عَلَيْهِ أَفْضَلُ الصَّلاةِ وَالتَّسْلِيْم ان کے ساتھ قرآن عظیم کا دَور فرماتے ۔ جب بھی حضرت جبرئیل امین عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی خدمت میں آتے تو آپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تیز چلنے والی ہوا سے بھی زیادہ خیر (یعنی بھلائی) کے معاملے میں سخاوت فرماتے۔ ‘‘ ( بُخاری ج ۱ ص ۹ حدیث ۶)

روزے کب فرض کیے گئے؟:
رمضان المبارک کے روزے ہجرت کے دوسرے سال بعد تحویل قبلہ فرض کیے گئے۔قرآن کریم میں یہ بات مذکور ہے کہ روزہ ایک ایسی عبادت ہے جو سابقہ شرائع اور امتوں میں کسی نہ کسی طرح رائج تھیں۔
عبادت صیام کو رمضان کے ساتھ خاص کرنے کی وجہ؟:
یہ مہینہ نزول قرآن کریم کا مہینہ ہے۔ اس میں شب قدر بھی جو ایک ہزار مہینوں سے افضل ہے ۔۔

رمضان کی برکت:
بیہقی شعب الایمان من سلمان فارسی رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے شعبان کے آخری دن وعظ میں فرمایا : اے لوگو!تمہارے پاس برکت والا مہینہ آیا، وہ مہینہ جس میں ایک رات ہزار مہینے سے بہتر ہے اس کے روزے اللہ تعالی نے فرض کیے اور اسکی رات میں قیام و تراویح پڑھنا سنت کیا جو شخص اس میں نیکی کا کوئی کام کرے تو ایسا ہے جیسے کسی دوسرے مہینہ میں فرض ادا کیے اور اس میں جس شخص نے فرض ادا کیا تو ایسا ہے جیسے کسی دوسرے دنوں میں ستر فرض ادا کیے۔ یہ مہینہ صبر کا ہے اور صبر کا ثواب جنت ہے اور یہ مہینہ باہمی تعاون کا ہے اور اس میں مومن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے ، جو شخص اس ماہ میں روزہ دار کو افطار کروائے اس کے گناہوں کے لیے مغفرت ہے اور اسکی گردن جہنم سے آزاد کر دی جائے گی اور اس افطار کرانے والے کو اتنا ہی ثواب ملے گا جتنا روزہ رکھنے والے کو ملے گا بغیر اس کے کہ اس کے اجر میں سے کچھ کم ہو ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ہم میں سے ہر شخص وہ چیز نہیں پاتا جس سے روزہ افطار کرائے ۔ حضور علیہ الصلوة والسلام نے فرمایا: اللہ تعالی یہ ثواب ہر اس شخص کو دے گا جو ایک گھونٹ دودھ یا ایک کھجور یا ایک گھونٹ پانی سے روزہ افطار کرائے گا اور جس شخص نے روزہ دار کو پیٹ بھر کھانا کھلایا اس کو اللہ تعالی میرے حوض سے پانی پلائے گا کہ کبھی پیاسا نہ ہوگا۔ یہاں تک کہ جنت میں داخل ہوجائے۔ یہ وہ مہینہ ہے کہ اس کا اول رحمت ، اسکا اوسط مغفرت اور آخر جہنم سے آزادی ہے ۔ جو شخص اپنے غلام پر اس مہینے میں تخفیف کرے یعنی کام میں کمی کرے گا ، اللہ تعالی اسے بخش دے گا اور جہنم سے آزاد فرمائے گا۔
(رفیق الصائمین)

اللہ تبارک وتعالی کا انعام:
رمضان اللہ کا تبار و تعالی کا انعام ہے۔۔ اللہ تبارک و تعالی نے جہاں قرآن پاک میں جا بجا متقین سے اپنی محبت کا اظہار فرمایا وہیں ہم پر ایک ایسی عبادت فرض کی جس کا مقصد ہی تقوی و پرہیزگاری کا حصول ہے۔۔ تو روزے دار کو چاہیے کہ وہ ہر برائی سے بچنے کی سعی کرے۔ جھوٹ ، غیبت ، چغلی کے ساتھ ساتھ غیر ضروری امور اور لایعنی باتوں سے بھی گریز کرے۔ یہ مہینہ اللہ تبارک وتعالی کی طرف سے انعام ہے اس کو حسن اخلاق، حسن عبادات سے آراستہ کیجیے، قیام اللیل سے آراستہ کیجیے، تلاوت کلام پاک سے آراستہ کیجیے، علمائے کرام کی صحبت اختیار کر کے دین کی تعلیم حاصل کیجیے، ماضی کی غلطیوں پر نادم ہوں اور آنے والے وقت میں ان گناہوں سے دور رہنے کا عزم کیجیے یہ سوچ کر کہ کیا خبر یہ ہمارا آخری رمضان ہو۔
 

Aalima Rabia Fatima
About the Author: Aalima Rabia Fatima Read More Articles by Aalima Rabia Fatima: 48 Articles with 74268 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.