اسسٹنٹ کمشنر بہاول پور نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، سادہ
سی پھل والی ریڑھی کے مالک پر تھپڑوں کی بارش کر دی۔ اس نے کچھ بھی کیا ہو،
مگر بظاہر اس کا جرم یہی تھا کہ وہ ایک محکوم تھا اور مارنے والا حاکم۔
محکوم کو علم تھا کہ اس کی مدد کو کوئی نہیں آئے گا، اور حاکم اس زعم اور
غرور میں تھا کہ اس کے ساتھ پولیس کی صورت میں سرکار وردیاں پہنے موجود ہے،
جو کسی بھی وقت کسی بھی حکم عدولی کے مرتکب کو مزا چکھانے کے لئے چاک
وچوبند کھڑی ہوتی ہے۔ اگر کسی نے ’’کارِ سرکار‘‘ میں مداخلت کے بارے میں
سوچ بھی لیا، پولیس غضب ناک ہو کر برس پڑتی ہے۔ خیر یہاں تو خود اے سی صاحب
ہی برس پڑے۔ حسبِ امکان تھپڑ مارے جانے کی معمولی سی ویڈیو بھی بن گئی اور
سوشل میڈیا سے ہوتے ہوئے یہ خبر ٹی وی چینلز تک پہنچ گئی۔ سنا ہے پنجاب کے
متحرک اور مصروف وزیر اعلیٰ نے واقعہ کا نوٹس لے لیا ہے ،کمشنر اور ڈپٹی
کمشنر سے رپورٹ طلب کر لی ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ جلد ہی دودھ کا دودھ
اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ یہ امید اس لئے ہے کہ خبر میڈیا پر عام ہو
چکی ہے اور عوام میں غم وغصہ پایاجاتا ہے۔ ورنہ تو ایسی رپورٹیں طلب ہوتی
رہتی ہیں، ’’مٹی پاؤ‘‘ پالیسی پر عمل جاری رہتا ہے۔ ایسی فائلوں سے دفاتر
بھرے پڑے ہیں۔
بہاول پور میں ہی ضلعی حکومتوں کے دنوں میں ایک ڈی سی او بھی تھپڑ مارنے کے
شوقین تھے۔ یہ کام عموماً’’ پرموٹئے ‘‘افسر کرتے ہیں۔ براہِ راست بھرتی
ہونے والے اگرچہ ابتداء میں بہت نرم مزاج اور ٹھنڈے دماغ کے حامل ہوتے ہیں،
مگر ضلعی انتظامیہ کا افسر ہو یا پولیس کا کچھ ہی عرصہ بعد ’’ایک ہی صف میں
کھڑے ہو گئے محمود وایاز‘‘ کے مصداق نئے پرانے سب ایک رویے کے حامل ہو جاتے
ہیں۔ نمک کی کان میں کچھ تو جاتے ہی نمک ہو جاتے ہیں اور کچھ کو نمک بننے
میں کچھ وقت لگ جاتا ہے۔ بیوروکریسی کی تربیت ہی کچھ اس قسم کی ہوتی ہے کہ
وہ خود کو عوام’ کالانعام ‘سے بالاتر مخلوق جانتی ہے، ان سے کچھ فاصلے پر
رہنا ہی ان کی تربیت کا حصہ ہوتا ہے،تاہم استثناء تو ہر جگہ ہوتا ہے، کچھ
افسران بہت عوام دوست اور ہمدرد ہوتے ہیں۔ جیسے اچھے افسران کی تعداد بہت
کم ہے اسی طرح ’’ہتھ چھُٹ‘‘ افسر بھی بہت کم ہیں، مگر یہ پورے ادارے کے
ماتھے پر بدنما داغ کی طرح ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے ان کے دفاتر کا عملہ
بھی نالاں ہوتا ہے اور جن لوگوں سے ان کا واسطہ پڑتا ہے وہ بھی برے شخص کے
طور پر ہی اسے یاد رکھتے ہیں اور یقینا گھر والوں کے ساتھ بھی ایسے لوگ
آمرانہ رویہ ہی اختیار کرتے ہیں اور انہیں بھی اپنا مخالف ہی پاتے ہیں،
معاشرے میں کوئی بھی اگر ان کی عزت کرتا ہے تو صرف اور صرف اُن کے شر سے
محفوظ رہنے کے لئے۔
تھپڑ مارنے کے معاملے میں اپنے ایک وفاقی وزیر بھی اپنا کوئی ثانی نہیں
رکھتے۔ پارٹیاں تبدیل کرنے میں بھی انہیں مہارت حاصل ہے، ہاتھ کے ساتھ زبان
کا استعمال بھی خوب کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ عوام بھی ان کے بارے میں خصوصی
تصورات و نظریات رکھتے ہیں۔ تمام تر معاملات میں مجال ہے کہ کپتان نے اپنے
اہم کھلاڑی سے کبھی جواب طلب کیا ہو، کبھی پوچھ گچھ کی ہو؟ اس کا مطلب بہت
واضح ہے کہ فواد چوہدری کی ’’غیر نصابی ‘‘ سرگرمیوں کو وزیر اعظم کی بھر
پور حمایت حاصل ہوتی ہے۔ یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ کپتان اور کھلاڑی
جب آپس میں مل بیٹھتے ہوں گے تو ’’تھپڑ‘‘ اور تضحیک والے معاملات پر خوب
ہنستے ہوں گے۔ یہی عالم سرکاری افسران کا بھی ہے۔ تھپڑ کھانے والے افراد کی
بدقسمتی کہ وہ کمزور ہیں اور مارنے والوں کے ساتھ طاقت ہوتی ہے، مگر ایسے
لوگ دل سے اتر جاتے ہیں، اور محبت والے خانے سے ان کا نام ہمیشہ کے لئے کٹ
جاتا ہے۔
انہی اے سی نے گزشتہ دنوں شہر کے ایک مصروف پٹرول پمپ کی پیمانہ کم ہونے پر
تیس ہزار روپے ’’کمر توڑ‘‘ جرمانہ کیا، جسے لاکھوں روپے جرمانہ ہونا چاہیے
تھا اور پمپ سیل کیا جاتا۔ انہی اسے صاحب کے ہوتے سبزیوں وغیرہ کی قیمتیں
آسمان تک پہنچ چکی ہیں، حکومتی فیصلے کے برعکس بھی بہت سی دکانیں کھلی
ہیں۔اے سی موصوف کے پہلے بھی ایسے ہی دست درازی کے واقعات موجود ہیں۔ اے سی
نے غریب پھل فروش کو تھپڑ مارنے والا اقدام کس قانون کے تحت کیا؟ کیا لاک
ڈاؤن کے دوران پھل بیچنا جرم تھا؟ کیا پھل فروش غیر قانونی کام کا مرتکب ہو
رہا تھا کہ اس کی سزا اسے بیچ چوراہے کے تھپڑ مارنا تھا؟ یہ کسی بڑی شاہراہ
یا چوک کا واقعہ نہیں، بلکہ ایک مصروف اور تنگ بازار کا ہے، ریڑھی بھی خالی
سی دکھائی دیتی ہے، وہاں بہت سی دکانیں بھی کھلی ہوئی تھیں، کسی دکان دار
پر زور نہ چلا، کہ وہ اکٹھے ہو کر ہڑتال وغیرہ کر دیتے ہیں۔ یہ صاحب
انگریزوں کے اصل پیرو کار لگتے ہیں، انگریز افسر ہندوستانیوں کے غلام ہونے
کے ناطے ان سے غیر انسانی اور تضحیک آمیز سلوک ہی کرتے تھے، موصوف نے بھی
یہی جانا کہ اگر کرسی انگریز کی ہے تو مجھے بھی کالا انگریز بن کر ہی رہنا
چاہئے۔ ایسے ہتھ چھٹ افسر کے شر سے عوام کو محفوظ رکھنے کا بہترین طریقہ
یہی ہے کہ اسے کچھ دے دلوا کر گھر بھیج دیا جائے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد ایسے
لوگ گھر کے باہر کرسی رکھ کر بیٹھے رہتے ہیں، کیونکہ اندر ونِ خانہ کسی سے
بنتی نہیں، اور باہر بھی اسے کوئی منہ نہیں لگاتا کہ تیس پنتیس برس کسی کو
انسان نہیں جانا ہوتا، تب ایسے اخلاق والے سابق افسر کے گھر کے باہر سے
کُتا بھی بھاگ کر گزرتا ہے۔
|