نما زمومن کی معراج اور دین کا
ستون ہے اسلام اور کفر میں فرق نماز ہے جو اس کی پابندی کریگا اس کیلئے نو
ر کا سبب ہوگی اسلام اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ دین ہے اور اسلام کی بنیاد
پانچ باتوں پر رکھی گئی ہے ۔پہلی بات کلمہ شہادت (یعنی اس بات کی گواہی
دینا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے ’’ بندے ‘‘
اور رسول ہیں)دوئم نماز قائم کرنا سوئم رمضان کے روزے رکھنا چہارم زکوٰۃ
ادا کرنا پنجم حج ادا کرنا ۔ نماز اردو زبان کا لفظ ہے اور شریعت اسلامی
میں اس کا مطلب ہے ایک خاص ترتیب سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا۔نماز کو
عربی میں صلوٰۃ کہتے ہیں اس کے حروف اصلی تین ہیں (ص، ل ، الف) عربی لغت کے
اعتبا ر سے نماز کے معنی ہیں دعا کرنا ۔تعظیم کرنا ،آگ جلانا،آگ میں جانا،
آگ پر گرم کر کے ٹیڑھی لکڑی کو سیدھا کرنا وغیرہ۔عربی زبان کا یہ قاعد ہے
کہ کسی لفظ کے لغوی معنی اور شرعی معنی میں مناسبت ضرور ہونی چاہیے پس جس
قدر صلوٰۃکے لغوی معنی ہیں وہ شرعی اعتبار سے صلوٰۃ کے عمل میں موجود ہیں
مثلاً
۱۔نماز میں اپنے لئے ،والدین کیلئے اور تمام مسلمانوں کیلئے دعا ہے۔
۲۔تعظیم کی تین صورتیں ہیں کھڑے ہونا ، جھکنا ،سجدہ کرنا یہ سب نماز میں
موجود ہیں ۔
۳۔نماز کے ذریعے انسان کے دل میں عشق الہی کی آگ بھڑکتی ہے۔
۴۔نماز ی کے گناہوں کا جل کر خاک ہوجانا احادیث سے ثابت ہے۔
۵۔نمازی کے ٹیڑھے اور برے اخلاق کا درست ہونا اظہر من الشمس ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے ان الصلوٰۃ تنھی عن الفحشاء والمنکر (سورۃ
العنکبوت:۸۵)
شریعت میں نمازی کے عمل کو دوسرے عملوں کی نسبت یہ خاص امتیازی شان حاصل ہے
کہ تمام احکام زمین پر فرض ہوئے۔نماز معراج شریف کی رات میں عرش سے اوپر
جاکر فرض ہوئی۔اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب ﷺکو پاس بلا کر خاص الخاص حضوری
میں آمنے سامنے مقام تدلیٰ پر فرض کی۔جس قدر اہتمام اس فرض کا ہوا بقیہ
فرائض کا اہتمام اس کا عشر عشیر بھی نہیں ہوا نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا
:الصلوٰۃ عماد الدین (نماز دین کا ستون ہے)امام جلال الدین سیوطی ؒ نے
درِمنثور میں نقل کیا ہے کہ جب نبی کریم ﷺ معراج کی شب بیت المقدس میں مسجد
اقصیٰ کے دروازے پر پہنچے تو وہاں ایک جگہ حوران جنت کو بیٹھے ہوئے دیکھا
۔حوروں نے نبی کریم ﷺکو سلام کیا ۔آپ ﷺ نے پوچھا کہ تم کون ہو؟حوران جنت نے
جواب میں عرض کیا ’’ نحن خیرات حسان نساء قوم ابرار یا رسول اللہ ﷺ ‘‘
ترجمہ یا رسول اللہ ﷺ ہم نیک لوگوں کی بیبیاں حوران جنت ہیں ۔آج آپ ﷺ کے
پیچھے نماز پڑھنے آئیں ہیں۔یہ سن کر آپ ﷺ وہاں سے آگے چلے جب مسجد اقصیٰ کے
اندر پہنچے تو ساری مسجد کو نماز یوں سے بھرا ہواپایا ۔ایک دراز قامت
خوبصورت بزرگ کو نمازمیں مشغول دیکھ کر پوچھا کہ جبرئیل !یہ کون ہیں عرض
کیا یہ آپ کے جد امجد سیدنا حضرت آدم علیہ السلام ہیں۔ایک اور نورانی شکل و
صورت والے بزرگ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا جن کے سر اور داڑھی مبارک کے بال
سفید تھے ۔پوچھا کہ جبرئیل !یہ کون ہیں عرض کیا کہ یہ حضرت ابراہیم خلیل
اللہ ہیں ۔ایک اور بزرگ کو دیکھا جنکی رنگت سانولی سلونی بڑی من موہنی
تھی۔چہرے پر جلال کے آثار نمایاں تھے۔ پوچھا کہ جبرئیل !یہ کون ہیں عرض
کیاکہ یہ اللہ تعالیٰ کے عاشق صادق لاڈلے پیغمبر حضرت موسیٰ علیہ السلام
ہیں۔ الغرض کریم ﷺ کے وہاں پہنتے ہی حضرت جبرائیل علیہ السلام نے اذان کہی
،آسمان کے دروازے کھلے فرشتے قطار اند قطار آسمان سے نازل ہوئے ۔جب ساری
مسجد اند باہر سے بھر گئی تو ملائکہ ہوا میں صف بستہ ہوئے حتیٰ کہ زمین اور
آسمان کا خلا پر ہوگیا ۔اتنے میں حضرت جبرائیل علیہ السلام نے اقامت کہی تو
صف بندی ہوگئی ۔امام کا مصلیٰ خالی تھا۔حضرت جبرائیل علیہ السلام نے امام
الاولین ولا آخر ین سید الانس و الملائکہ سرور کونین حضرت محمد ﷺ کاہاتھ
مبارک پکڑ کر عرض کیا ۔اللہ تعالیٰ کی قسم !مخلوق خدا میں آپ ﷺ سے افضل اور
کوئی نہیں ۔آپ ﷺ امامت فرمائیے۔چناچہ نبی کریم ﷺنے دو رکعت نماز ادا فرمائی
۔سلام پھیرنے کے بعد جبرئیل علیہ السلام نے عرض کیا اے محبوب کل جہاں ﷺ آپ
ﷺ کے پیچھے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء مرسلین اور ساتوں آسمانوں کے خاص
خاص فرشتوں نے نماز ادا کی ہے نما زسے فراغت پر آپ ﷺ کو براق کی سواری پیش
کی گئی ۔آپ ﷺ آسمانوں پر تشریف لے گئے۔ملائکہ کے قبلہ بیت المعمور کے پاس
پہنچ کر آپ ﷺ نے نماز ادا فرمائی ۔فرشتوں نے اقتداء کی نماز کے بعد آپ ﷺ نے
دو طرح کے لوگ دیکھے ،ایک گورے سفید رنگ کے جن کے لباس بھی سفید تھے۔دوسرے
وہ جن کے چہرے سیاہ اور کپڑے میلے تھے۔نبی ﷺ نے پوچھا جبرئیل !یہ کون لوگ
ہیں عرض کیا یہ روشن چہرے والے آپ ﷺ کی امت کے نیک لوگ ہیں اور سیاہ چہرے
والے آپ ﷺ کی امت کے گنہگار لوگ ہیں ۔آپ ﷺنے وہیں پر گنہگاروں کیلئے شفاعت
فرمائی جو قبول ہوئی۔یہاں سے چل کر سدرۃ المنتہیٰ پر پہنچے۔پھر وہاں سے آگے
ایک اور سواری آئی جیسے رف رف کہا جاتا ہے۔ آپ ﷺ کو یہاں سے اوپر کی طرف
عروج نصیب ہوا حتی ٰکہ آپ ﷺ صاف سیدھے میدان یعنی خطیر القدس پہنچے وہاں آپ
ﷺ پرتجلی کا خاصہ ورود ہوا۔آپ ﷺنے فوراًفرمایا:’’التحیات للہ والصلوات
والطیبات ترجمہ تما م قولی عبادتیں تما م بدنی عبادتیں اور مالی عبادتیں
اللہ ہی کیلئے ہیں ‘‘پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ارشاد ہوا’’اسلام علیک ایھا
النبی و رحمۃ اللہ و برکاتہ ترجمہ اے نبی ﷺ آپ پر سلامتی ہو اور اللہ
تعالیٰ کی رحمت اور برکتیں ہوں‘‘نبی ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی عنایت و مہربانی
کو دیکھا تو گنہگار امت یاد آئی فرمایا’’السلام علینا و علیٰ عباد اللہ
الصالحین ترجمہ سلامتی ہو ہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر‘‘اللہ رب العزت
کویہ ہم کلامی اتنی پسند آئی کہ اسے یاد گار بنادیا۔ارشاد ہوا اے محبوب ﷺہم
نے آپ ﷺکی امت پر پچاس نمازیں فرض فرمائیں ۔نبی ﷺؑ اس وقت محو تجلیات الہٰی
تھے۔آپ ﷺؑ پر پانچ سو نمازیں فرض کردی جاتی تو آپﷺؑ قبول فرمالیتے۔کیا نہیں
دیکھا کہ دنیا کا فانی عشق فانی محبوب اور فانی وصال کی حالت ہوش اڑا دیتی
ہے ۔عورت جیسی نازک چیز دیدار یوسف علیہ السلام میں ایسی غافل ہوئی کہ
ترکاری کے بجائے اپنی انگلیاں کاٹ لیں ،فرہاد نے شیریں کے دیدار کے بدلے
کوہستان کھود مارے ،ادھم فقیر نے شاہ بلخ کی لڑکی کے حسن و جمال کو دیکھ کر
سمندر خالی کرنے پر کمر باندھ لی۔الغرض مشکل ترین بوجھ کو سر پر اٹھا لینا
دیدار محبوب کے وقت آسان ہوتا ہے۔اللہ اکبر ۔حسن مولیٰ کے سامنے عشق لیلیٰ
کی کیا حیثیت ہے۔جب نبی کریم ﷺؑ دیدار الہٰی میں مگن تھے۔آپ ﷺؑ کیلئے پچاس
نمازیں پڑھنے کا حکم بہت آسان تھا۔آپ ﷺ خوشی خوشی واپس تشریف لائے ۔راستے
میں سیدنا موسی کلیم اللہ نے توجہ دلائی کہ اے محبوب کل جہاں ﷺآپ ﷺ محو
تجلی تھے۔آپ ﷺ کی ساری امت تو محو تجلی نہ ہوگی۔میری امت کیلئے دو نمازیں
پڑھنی مشکل تھیں ۔آپ ﷺؑ بارگاہ الہٰی میں پھر حاضری دیجئے اور آسانی کیلئے
فرمائش کیجئے۔چناچہ چند بار اوپر نیچے آنے کا معاملہ پیش آیا ۔صرف پانچ
نمازیں فرض رہ گئیں۔لیکن پروردگار عالم نے فرمایا’’ما یبدل القول لدی و ما
انابظلام للعبیدترجمہ میرے ہاں فیصلے تبدیل نہیں کئے جاتے اور میں بندوں پر
ظلم کرنے والا نہیں ہوں ‘‘آپ ﷺ کی امت پانچ نمازیں پڑھے گی۔مگر انکو ثواب
پچاس نمازوں کا ملے گا۔
حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ نے منبہات میں حضر ت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ
سے روایت کیا ہے کہ جو شخص اوقات کی پابندی کے ساتھ نماز کی محافظت کرے
اللہ تعالیٰ نو چیزوں سے اس کا اکرام فرماتے ہیں ۔
۱۔اللہ تعالیٰ اس کو اپنا محبوب بنالیتے ہیں ۔۲۔اللہ تعالیٰ اس کو تندرستی
عطا فرماتے ہیں ۔۳۔ فرشتے اس کی حفاظت کرتے ہیں ۔۴۔اللہ تعالیٰ اس کے گھر
میں برکت عطا فرماتے ہیں۔۵۔اس کے چہرے پر صلحاء کا نور ظاہر ہوتا ہے ۔۶۔ اس
کا دل نرم فرمادیتے ہیں ۔۷۔قیامت کے دن اس کو پل صراط سے بجلی کی تیزی
گزاریں گے ۔۸۔جہنم سے نجات عطا فرمائیں گے ۔۹۔ جنت میں نیک لوگوں کا ساتھ
عطا فرمائیں
حدیث شریف میں ہے کہ جب انسان سجدہ کرتا ہے تو شیطان روتا ہو ا بھاگتا ہے
اور کہتا ہے افسوس انسان کو سجدے کا حکم ہوا اور اس نے سجدہ کرلیا اور اس
کو جنت مل گئی ۔مجھے سجدے کا حکم ہوا میں نے انکار کردیا اور مجھے جہنم
ملی۔دراصل اسلام میں نماز کو جو مقام ومرتبہ حاصل ہے وہ محتاج بیان نہیں
۔قران میں اللہ نے نماز قائم کرنے کا سو سے زیادہ بارحکم دیا ۔حضورﷺ نے
ارشاد فرمایا نماز میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے ۔نماز مومن کی معراج ہے اور دین
کا ستون ہے اسلام اور کفر میں فرق ہے جو شخص نماز کی پابندی کریگا تو نماز
اس کیلئے نور کا سبب ہوگی کمال ایمان کی دلیل ہوگی اور قیامت کے دن بخشش کا
ذریعہ بنے گی۔
کیا اللہ تعالیٰ اپنے بندے کیلئے کافی نہیں۔قرآن میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد
ہے کہ اللہ نے انسان میں نیکی اوربدی دونوں قسم کے اعمال انجام دینے کی
صلاحیت رکھی ہے۔ لیکن فلاح وہی پائے گا جس نے اپنے نفس کو غلط خواہشات برے
جذبات اور خراب عادات سے پاک کیا اور وہ شخص خائب و خاسر ٹھہرے گا جو
نفسانی خواہشات میں مبتلا ہوگیا نفس کی خواہشات سے رہائی حاصل کرکے خود کو
بارگاہ الہی سے کمال تذلیل و عاجزی کے ساتھ وابستہ کرلینا کوئی کھیل نہیں
یہ کام وہی انجام دے سکتے ہیں جنہیں اللہ کی توفیق و مدد حاصل ہو قران کریم
نے اس سعادت کے حصول کیلئے پانچ چیزیں لازمی قرار دی ہیں اول عبادت دوم
استعانت سوم توکل چہارم صبر پنجم شکر ۔نبی کریم ﷺ نے اپنی سنت مطہرہ اور
احادیث میں یہی فرمایا کہ ایک بندہ خدا کیلئے اسکا اللہ ہی کافی ہے خود
قران بھی انسان کو یہی سبق پڑھاتاہے ۔کیا اللہ اپنے بندے کیلئے کافی نہیں
ہے۔انسان اگر اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہے تو نہیں کرسکتا اسلئے ہر
حال میں اور ہر وقت اس خالق و مالک کا شکر ادا کرنا چاہیے کیونکہ اللہ کا
وعدہ ہے کہ ’’اگر تم شکر کرو گے تو میں اپنے انعامات بھی بڑھاتا چلا جاؤں
گا دیگر یہ کہ شکر کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ انسان میں غرورپیدا نہیں
ہوتا عبادات استعانت توکل صبر اور شکر یہی وہ پانچ چیزیں ہیں جن سے انسانی
نفس کا تزکیہ ہوتا ہے۔نبی کریم ﷺ کے بعد حضرت ابو بکر صدیق ہوں کہ عمر بن
خطاب ،عثمان غنی ہوں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہم ،خواجہ حسن بصری ہوں کہ
جنید بغدادی ،ابو بکر شبلی ہوں کہ رابعہ بصری،شیخ عبدالقادر جیلانی ہوں کہ
بہاؤالدین زکریا یا خواجہ چشتی ہوں کہ شیخ سہروردی رحمۃاللہ علیہم تمام
اکابرین شریعت و طریقیت نے قرآن کے اسی اصول اور نبی کریم ﷺ کے انہی خطوط
سیرت پر عمل کر کے تزکیہ و طہارت اور مقام و مرتبہ حاصل کیا ۔ |