پینٹاگون نے ’غلط فہمیاں دور کرنے کے لیے‘ اڑن طشتریوں کی ویڈیوز جاری کر دیں

image


امریکی محکمہ دفاع نے فضا میں نظر آنے والی غیر شناخت شدہ اشیا یا اڑن طشتریوں کی تین ویڈیوز جاری کر دی ہیں۔

پینٹاگون نے کہا ہے کہ ان ویڈیوز کو سرکاری طور پر جاری کرنے کا مقصد ان کے اصلی یا نقلی ہونے سے متعلق عوام کو غلط فہیموں سے بچانا ہے۔

یہ ویڈیوزسنہ 2007 اور سنہ 2017 میں بھی سامنے آ چکی ہیں۔

امریکہ کے موقر اخبار نیویارک ٹائمز نے دو ویڈیوز شائع کی تھیں جبکہ ایک گلوکار ٹام ڈی لانگ نے جاری کی تھی۔

جب یہ ویڈیوز پہلی بار منظر عام پر آئی تھیں تو کچھ لوگوں نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ یو ایف اوز یا اجنبی برق رفتار جہاز ہیں۔

ویڈیوز میں کیا ہے؟
نیویارک ٹائمز کے مطابق سنہ 2004 میں دو نیوی پائلٹوں نے بحرالکاہل میں سو میل اندر ایک گول سی چیز جو پانی کے اوپر اڑ رہی تھی کی ویڈیو بنائی تھی۔

پھر سنہ 2015 میں دو ایسی ویڈیوز بنائی گئیں جن میں دو غیر شناخت شدہ اشیا تھیں، جن میں سے ایک فضا میں گھوم رہی تھی۔ ایک ویڈیو میں ایک پائلٹ کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا ’اس چیز کو دیکھو، یہ گول گول گھوم رہی ہے۔‘

پینٹاگون نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ایک بھرپور جائزے کے بعد محکمہ اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ ’ان ویڈیوز کو عام کرنے سے ملک کے حساس نظام کی صلاحیت کسی طرح بھی متاثر نہیں ہوتی اور نہ ہی ان غیر شناخت شدہ اشیا کے ہماری فضائی حدود میں داخل ہونے سے متعلق مزید تحقیقات کی راہ میں کوئی رکاوٹ پیش آتی ہے۔

'محکمہ دفاع ان ویڈیوز کو عوام میں غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے جاری کر رہا ہے۔‘

محکمے کے مطابق ان ویڈیوز میں جو چیزیں مشاہدے میں آئی ہیں انھیں ابھی ’غیر شناخت شدہ‘ تصور کیا جاتا ہے۔
 


گلوکار ڈی لونگ نے 2017 میں یو ایف اوز یا اڑن طشتریوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے سٹارز اکیڈمی آف آرٹس اینڈ سائنسز نامی ادارہ قائم کیا تھا۔

پینٹاگون کی جانب سے غیر شناخت شدہ اشیا کی ویڈیوز ریلیز کیے جانے کے بعد گلوکار ڈی لونگ نے اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں اپنے ادارے کے شراکت داروں کا شکریہ ادا کیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ان کا اگلا منصوبہ ہے کہ مزید ٹیکنالوجی حاصل کی جائے اور جوابات حاصل کریں اور لوگوں کو اس سے متعلق آگاہ کریں۔

دفاعی نامہ نگار جوناتھن مارکس کا تجزیہ
کسی نامعلوم چیز سے منسلک سحر آسانی سے نہیں اترتا۔

ان نامعلوم اڑن طشتریوں (یو ایف او) کی کہانی بھی ان میں سے ایک ہے، جس کے ساتھ غیر یقینی کیفیت جڑی ہوئی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس سے حکومتوں اور خاص طور پر امریکی حکومت سے متعلق کئی سازشی تھیوریز پائی جاتی ہیں۔

کئی صدیوں تک لوگ آسمان میں دیکھ کر پراسرار روشنیوں اور چیزوں کے بارے میں اندازے لگاتے رہے۔

لیکن یو ایف او کی جدید کہانی کا تعلق سنہ 1947 میں ایک قصے سے جا ملتا ہے، جب ایک کسان نے امریکی ریاست نیو میکسیکو کے شہر روس ویل میں ایک ملبہ دریافت کیا۔ آغاز میں اسے فلائنگ ڈسک کے طور پر بیان کیا گیا تھا لیکن اب اسے سوویت یونین کی نگرانی کے لیے کسی خفیہ بیلون پروگرام کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔

اس کے بعد مبینہ طور پر جدید ترین طیاروں کی ٹیسٹنگ کے لیے نیواڈا میں مختص ایریا 51 کے نام سے مشہور جگہ مبینہ طور پر یو ایف او پر تحقیق کے ایک ادارے میں تبدیل کر دی گئی۔

سازشی مفروضوں کے حامیوں کے مطابق یہی وہ مقام تھا جہاں امریکی حکومت نے اس جدید خلائی ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے کی کوشش کی۔

گزشتہ برسوں میں بہت سارے ایسے بے تکے مفروضے اپنی موت آپ مر گئے جب سنہ 2017 میں پینٹاگون نے بالآخر تسلیم کر لیا کہ اس نے مبینہ یو ایف او کی تحقیق کا پروگرام ختم کر دیا ہے۔

آج امریکی بحریہ ان نامعلوم اشیا کو ’غیر شناخت شدہ فضائی کرشمہ‘ کہتی ہے تاہم یہ اس خیال کو ہمارے اجتماعی شعور سے نکالنے میں کامیاب نہیں ہو گا بلکہ اس بنیادی سوال کو جنم دے گا کہ کیا ہم واقعی اس کائنات میں تنہا ہیں؟


Partner Content: BBC

YOU MAY ALSO LIKE: