مجھے اپنے ادارے کی طرف سے ہدایت ملی کہ نشریاتی اداروں
سے مستحق صحافیوں کے نام جمع کئے جائیں ، جنہیں رمضان المبارک کی مناسبت سے
راشن پہنچانا مقصود تھا ۔ میں نے ٹی وی چینلز کے بیورو چیف حضرات سے بات کی
۔ اس عمل کے دوران جو اہم بات میرے مشاہدے میں آئی وہ یہ تھی کہ موصولہ
زیادہ تر لسٹوں میں پیشہ ور صحافیوں مثلا رپورٹرز، ایڈیٹرز، پروڈیوسرز
وغیرہ سے زیادہ ترجیح ان کی معاونت پر مامور کیمرہ مین، ڈرائیور، آفس بوائے،
گارڈ اور سوئیپر کو دی گئی ۔ مجھے صحافی برادری کے اس جذبہ ایثار نے بہت
متاثر کیا اور اسے سراہنے کو جی چاہا کہ موجودہ ’’کرونائی‘‘ حالات اور
میڈیا انڈسٹری کو درپیش چیلنج کے باوجود بھی ہمارے صحافی بھائیوں کو اپنے
سے زیادہ خیال اپنے نچلے طبقے کا ہے ۔ حالانکہ آج کے دور میں میڈیا ورکرز
خود کرائسز کا شکار ہیں ۔ کئی کئی ماہ تنخواہ نہیں ملتی ۔ بیشتر اداروں میں
انہیں جبری نکالا جا رہا ہے ۔ کتنے ہی صحافی ادارے بند ہونے کی وجہ سے بے
روزگار ہوئے ۔ اس کے باوجود لسٹ میں انہوں نے اپنے سے زیادہ اہمیت اپنے ہی
نچلے طبقے کو دی ۔
ایک ایسا چینل جو حال ہی میں بند ہوا، کے ایک سینئر جو کہ خود بھی بیروزگار
ہوئے، سے میری بات ہوئی، انہوں نے لسٹ میں اپنے ساتھ فارغ ہونے والے
صحافیوں کا نام پیش کرنے سے زیادہ فوقیت ادارہ کی بندش سے بیروزگار ہونے
والے ’’ہیلپر‘‘ طبقے کو دی ۔
ایک چینل کے بیورو چیف نے تو یہ بھی درخواست کی کہ ان کی دی گئی لسٹ میں
تمام صحافی اور دیگر عملہ سفید پوش ہے، جو سرعام امداد نہیں لے گا، لہذا ان
کی پرائیویسی کا خیال رکھا جائے ۔
مذکورہ روابط کے دوران ایثار اور احساس کی ایسی بہت سی حوصلہ افزاء مثالیں
میرے سامنے ہیں اور میں سوچ رہا ہوں کہ اگر ہم یونہی اپنے سے زیادہ دوسروں
کا خیال کرنے لگ جائیں، ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر دیگر کیلئے
آسانیاں بانٹنے والے بن جائیں …… اپنے علاقوں، محلوں، دفاتر میں اپنے سے
کمزور طبقات کو اہمیت دیں …… زیادہ کے لالچ میں دوسروں کا حق مارنے سے گریز
کریں …… اور پسے ہوئے طبقے کو ساتھ لے کر چلیں …… تو معاشرہ جتنا خوبصورت
ہو جائے گا، اس کا تصور ہی مسحور کن ہے تو حقیقت کس قدر خوشگوار ہوگی ، اس
کا اندازہ خود لگا لیجئے ۔ یقیناً قومیں انہی رویوں سے مضبوط ہوتی ہیں ۔
|