گزشتہ تحریر میں عنوان مذکورہ اور اپنے مضامین کو قلم بند
کرنے پر تمہید باندھی کہ تحریر میں ربط رہے، اس مضمون میں اور آئندہ متصل
مضامین میں محترم انور شیخ کے الزامات کا جواب دیا جائے گا، لیکن اس سے
پہلے ایک بات کی وضاحت بہت ضروری ہے کہ میں ذاتی طور پر اقبال کے فن پر
علمی تنقید کا قائل ہوں اور یہ مضامین رد بے جاتنقید ہی نہیں بلکہ رد تکفیر
بھی ہیں ، کیونکہ کتاب کے اسلوب میں تنقید بھی تکفیری انداز میں کی گئی ،
فاضل مصنف ایک ذہین شخصیت ہے اس سے انکار نہیں ، کیونکہ حضرت نے اپنی کتاب
کی شروعات بہت دلچسپ انداز میں اسلامی عقائد پر چوٹ لگا کر کی فرماتے ہیں:
’’1952 کی بات ہے جب میں پشاور میں مقیم تھا، ایک شخص نے قرآن کی ایک آیت
تلاوت کی، پھر اس کی وضاحت میں حدیث کا حوالہ دیا بعد میں اس کی حمایت میں
اقبال کا ایک شعر پڑھا ، غضب تو یہ ہے کہ آیت اور حدیث سن کر کسی پر وجدانی
کیفیت طاری نہ ہوئی لیکن اقبال کا شعر سن کر سبھی پھڑک اٹھے اور شاعر اسلام
کے فن و حکمت پر سبھی واہ واہ کرنے لگے‘‘
اول تو میری نظر میں مذکورہ بالا متن قابل غور نہیں کہ مصنف نے نہ ہی تلاوت
کی جانے والی آیت کا حوالہ دیا نہ حدیث بیان کی اور نہ ہی حمایت میں کہا
جانے والا شعر لکھا کہ اس ساری بات میں کوئی ربط تلاش کیا جا سکے یا پھر اس
کے سیاق و سباق پر روشنی ڈالی جا سکے، دوسری طرف اگر واقعی معاملہ اسی طرح
رہا ہو جیسا کہ بیان کیا گیا تو بھی مصنف کی بات انتہائی غیر منطقی محسوس
ہو تی ہے کہ جس خطے کی بات بیان ہوئی عربی وہاں کی زبان نہیں ہے اور جب
سامعین عربی متن کو بنا ترجمے سے سمجھنے سے قاصر ہیں تو وہاں آیت کو سن کر
وجد میں آ جانا چہ معنی دارد؟ سامعین کو تلاوت کی گئی آیت کے بارے سمجھانے
کے واسطے لامحالہ آیت کا ترجمہ بھی اردو یا مقامی زبان میں کیا گیا ہو گا
اور چونکہ قرآن کا زبان و بیان نثری ہے اور ترجمہ بھی نثر کی صورت ہی ہو گا
تو غالب گمان ہے کہ اقبال کا شعر بھی وضاحت کو اختصار سے بیان کرنے کو بطور
ذیب داستاں کہا گیا ہو گا جو کہ ہمارے واعظین کا عام وطیرہ بھی ہے مثال کے
طور پر:
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشہء لب بام ابھی
یہ شعر اکثر سیدنا ابراہیم ؑ اور نمرود کے واقعے کو بیان کرتے ہوئے ذیب
داستاں کے لئے کہا جاتا ہے، یہاں یہ بات قابل غور رہنی چاہیئے کہ شعر میں
الفاظ کا صوتی اثر نثر سے بلکل مختلف اور قافیہ و ردیف کی قید میں ہوتا ہے
جسے سن کر ہر سلیم الفطرت انسان پر ایک لطیف اور پر کیف اثر کا ہو جانا ایک
قدرتی عمل ہے اور اس پر اعتراض کرنا جہاں ناانصافی ہے وہیں شعر وادب سے
مصنف کے بے بہرہ ہونے کا بھی ایک اشارہ ملتا ہے، مصنف کو شاید معلوم نہیں
کہ واہ واہ ہمیشہ شعر و اادب کےفن و حکمت پر ہی ہوتی ہے کلام مجید فرقان
حمید کو سن کر واہ واہ نہیں کیا جاتا بلکہ اس میں جہاں نعمتوں کا ذکر ہو تو
’’سبحان اللہ ‘‘کہا جائے گا اور جہاں عذاب کی وعید ہو ’’الھم اجرنی من
النار‘‘ کہا جائے گا۔ فاضل مصنف کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ جب بھی کوئی
خطیب یا واعظ کسی شاعر کا شعر اپنی تقریر میں شامل کرتا ہے تو وہ زور تقریر
کو بڑھانے کے واسطے ہوتا ہے نہ کہ قرآن کی آیت کے نعم البدل کے طور پر اور
یہ اسقدر بنیادی بات ہے کہ اگر کسی صاحب کتاب / مضمون کو اس کا علم نہ ہو
تو اس پر ’’ إنا لله وإنا إليه راجعون‘‘ ہی کہا جا سکتا ہے۔
آگے چل کر مصنف نے مزید فرمایا:
’’بر صغیر بالخصوص پاکستان میں اقبال کا درجہ اتنا بلند ہو چکا ہے کہ خدا
اور رسول کو بھی اپنی صداقت کے لئے اقبال کی شہادت چاہئے، میں مدت دراز تک
اس قباحت کو سمجھنے سے قاصر رہا لیکن ایک دن اقبال کی چند نظموں کو پڑھ کر
انکی اشتراکیت کا احساس ہونے لگا جو اسلامی اصولوں کی ضد ہے، سوال پیدا ہوا
کہ ایک اشتراکی، شاعر اسلام کیسے ہو سکتا ہے، جب تک عقیدت مند کی طرح انکو
پڑھا اس میں وہی ہریالی دکھائی دی جو ساون کے اندھے کو نظر آتی ہے، جب اسکی
گہرائی میں غوطہ زنی کی تو اقبال ایسا سیپ ثابت ہوا جس میں کوئی موتی نہ
تھا‘‘۔
درج بالا متن میں مصنف کا پہلا جملہ خود وضاحتی ہے کہ یہ محض ذاتی بغض اور
عناد کے تحت لکھا گیا ، مصنف نے ایسا کوئی بھی ایک ثبوت یا کسی عالم کا قول
درج نہیں کیا جس سے مصنف کی یاوہ گوئی کوئی حقیقت نظر آتی ہو، جہاں تک
اقبال کے بلند درجے کا تعلق ہے تو اس میں کوئی شک کی گنجائش نہیں کہ اقبال
نہ صرف اپنے دور کا ایک عظیم اور بلند پایہ شاعر ہے بلکہ اگر اقبال کو شاعر
فردا بھی قرار دیا جائے تو غلط نہ ہوگا اور بادئ النظر میں مصنف لاشعوری
طور پر اسی عظمت سے دلبرداشتہ ہے اور شعری میدان میں اپنی ناکامیوں کا رونا
رونے کے لئے اقبا ل پر کیچڑ اچھال کر اپنا اقبال بلند کرنے خواہش میں مبتلا
ہے مگر بلند پروازی کا خیال کرتے موصوف بھول گئے کہ زمین اپنی کشش ثقل سے
بے نیا ز نہیں۔ اقبال کے ایک بڑے ناقد محترم حمید نسیم نے جہاں اقبال کے
تمام شعری فلسفے سے اختلاف کیا ہے وہیں اقبال کے فنی قدو قامت کی تعریف
کرتے لکھا کہ :
’’میں سمجھتا ہوں حکیم الامت کہنابھی علامہ اقبال کے لئے ان کے مقام و
مرتبے سے کم درجے کا ہے‘‘
آخر میں مصنف نےساون کے اندھے کی بات کی تو میری نظر میں یہاں ساون کے
اندھے نہیں بلکہ ہر موسم کے اندھے کی ترکیب لڑانی چاہیئے ، مصنف نے اپنی
پوری کتاب میں کل پانچ سے سات شعری نمونوں کا ذکر کر کے اس پر اپنی بسیار
تحریری کے عارضے کو آشکار کیا ہے ، اگر مصنف نے اقبال کے تمام کلام کو پڑھا
ہوتا تو شاید یہ نوبت نہ آتی، مصنف نے کلام اقبال کے دریا سے پانی کے چند
لوٹے لیکر اپنے برتن میں ڈالے اور سر ڈبو کر غوطہ زنی کا دعویٰ کر ڈالا جو
مصنف کے خالی الفکر اور غائب دماغی کا بین ثبوت ہے۔
مصنف نے اقبال کو اشتراکی شاعر کا خطاب اور الزام محض تین نظموں ’’ابلیس کی
مجلس شوریٰ ‘‘ ، ’’فرمان خدا فرشتوں سے‘‘ اور ’’الارض اللہ‘‘ کی بنیاد پر
دیا ہے جسکا ذکر آئندہ صفحات میں کیا جائے گا، یہاں ضروری ہے اقبال کے
سیاسی شعور پر بات کی جائے کہ وہ کس قسم کے نظام کے حامی تھے، اقبال پر
اشتراکیت کا الزام لگانے سے قبل صرف اس شعر سے ہی بات واضح ہو جاتی ہے کہ:
جلال بادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
اگرچہ اقبال کے درج بالا خیال کے بعد بحث کی گنجائش نہیں رہتی ، لیکن مصنف
کے لگائے ہوئے الزام کی تردید میں اقبال کے سیاسی خیالات پر کچھ روشنی
ڈالنی ضروری ہے، اقبال کے اردو اور انگریزی زبان میں دئے گئے خطبات کے
مطالعے سے جو بات پتہ چلتی ہے کہ انہوں نے قیام پاکستان کے مطالبے سے کم و
بیش اکیس برس پہلے اپنے مضمون ’’اسلام کا آئیڈیل اخلاقی اور سیاسی نظام‘‘
میں مساوات انسانی پر مبنی جمہوریت کو اسلام کا مثالی سیاسی نظام قرار دیا
تھا اور بالکل قطعیت سے دعویٰ کیا کہ:
’’اسلام میں حکومت اشرافیہ کی ملکیت نہیں ہے نبی اکرم ﷺ کا فرمان مبارک ہے
کہ" تم میں سے بہترین وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے" یہاں کوئی طبقاتی
برتری، مذہبی برتری، ذات پات کا نظام نہیں ہے- اب تمام مومنین کی برابری کے
اس اصول نے ابتدائی مسلمانوں کو دنیا کی عظیم ترین سیاسی قوت بنا دیا-
اسلام نے مساواتی قوت کے طور پر کام کیا اس نے فرد کو اپنی قوتِ باطنی کا
احساس دیا، یہ اُن لوگوں کو اوپر لایا جو معاشرتی طور پر پسے ہوئے تھے-
مظلوم طبقے کو اوپر لانا انڈیا میں مسلم سیاسی قوت کا سب سے بڑا راز تھا ‘‘
(اقبال)
اقبال نے اپنے خیالات کا اظہار اپنی نظم مجلس شوریٰ میں بھی کیا جس میں
ابلیسیت اپنے لئے کسی بادشاہت، اشتراکیت یا جمہوریت کو خطرہ نہیں سمجھتی
بلکہ اس کے لئے تباہی کا پیش خیمہ اسلام ہے، لیکن صد افسوس فاضل مصنف
نےاردو کی ترکیب اور الفاظ کے معنی سے لاعلمی کی بنیاد پر ہی اقبال پر
گھناؤنا الزام دھر دیا کہ وہ اشتراکی شاعر ہے اور اسلام شکن ہے، حالانکہ
مصنف موصوف نے اسلام اور مقدسات عقیدہ پر اپنی بد باطنی کے جو جوہر دکھائے
ہیں ان پر تفصیلی روشنی متعلقہ باب میں ڈالی جائے گی فی الحال میں یہی کہہ
سکتا ہوں کہ مصنف کی وحشت مزاجی اتنی بڑھی کہ اقبال کو بہانہ بنا کر وہ
عالم اسلام پر حملہ آور ہوا اور ان بزرگوں کے ایمان اور عقائد پر حملہ آور
ہوا کہ جن کی اتباع اور طریق پر چلنے والوں کو ہی گروہ ناجیہ قرار دیا گیا
ہے۔
اقبال کے سیاسی افکار، اشتراکیت کا اثر ، اشتراکیت کا الزام اور اقبال کی
زبانی اس الزام کی تردید اور اسکے رد پر تفصیلی بات متعلقہ ابواب میں کی
جائے کہ فاضل مصنف نے جا بجا یہی راگ الاپا ہے تو میں بھی اس موضوع پر
گفتگو کو گاہے بگاہےآگے بڑھاؤں گا۔
(جاری ہے)
|