کرونا وائرس کی وجہ سے ملک میں لاک ڈاؤن کا سلسلہ طویل
ہوتا جارہا ہے اور لوگ گھروں میں بیٹھ کر اس وبا کے جانے کا انتظار کررہے
ہیں جنہوں نے تو کچھ بچایا ہوا ہے وہ مزے سے ان چھٹیوں کو گذار رہے ہیں اور
جو دیہاڑی دار طبقہ ہے ان میں ہم جیسے قلم کے مزدور بھی شامل ہیں وہ بری
طرح متاثر ہورہے ہیں حکومت اپنے طور پر کام کررہی ہے راشن اور پیسے بٹ رہے
ہیں مگر اسکے باوجود کچھ افراد ایسے بھی ہیں جن کا کہیں کسی جگہ امداد کے
لیے نام نہیں آیا اور وہ افراد اپنے اپنے گھروں میں بیٹھے اﷲ کے نیک بندوں
کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ کب انکے دروازے کی کنڈی کھڑکے گی اور راشن کا تھیلہ
دینے والا کہے گا کہ شکریہ کی کوئی بات نہیں بلکہ تاخیر سے پہنچنے کی معذرت
چاہتا ہوں امید ہے کہ کپتان کی ٹائیگر فورس اور بزدار کی پنجاب فورس اس کام
میں بڑھ چڑھ کر کام کریگی غربت اور بے روزگاری ہمارا آج کا مسئلہ نہیں ہے
بلکہ یہ ان حکمرانوں کی طرف سے پیدا کیا گیاتھا جنہوں نے اس ملک کے وسائل
پر ڈاکے ڈالے عوام کا خون تک نچوڑ لیا عام انسان کے منہ سے روٹی کا نوالہ
تک چھین لیا گیا ایک آج چونکہ یکم مئی ہے مزدوروں کا عالمی دن اس دن بھی
مزدوروں کا خون نچوڑنے والے انکی غربت کا مذاق آڑاتے ہیں اس بار کرونا کی
وجہ سے جلسے جلوس اور تقریریں نہیں کرسکے مگر ہمارے اندر وہی بے حسی مچل
رہی ہے کہ کسی نہ کسی طرح مزدور کی غربت کے جنازے کو دھوم سے نکالا جائے
اگر ہمارے پچھلے حکمران اور انکو لانے والے یہ خیال کرلیتے کہ پاکستان صرف
انہی کے لیے نہیں بنا تھا جہاں بیٹھ کر وہ صرف لوٹ مار کے نئے نئے طریقے
ایجاد کرتے رہے بلکہ اس ملک کو بنانے کے لیے قربانیاں دینے والے مزدور
،کسان اور غریب لوگوں بھی اسی ملک کا حصہ ہیں مگر امیر اور جاگیر دار اس
وقت بھی اپنے مفادات کے لیے لڑ رہے تھے آج 72سال گذارنے کے بعد ہماری غربت
پر اپنی اپنی سیاسی دوکانداری چلا رہے ہیں اور انہی کی وجہ سے تقریبا پوری
قوم کی حالت قابل رحم ہے ہم اندرونی اور بیرونی امداد کے منتظر ہیں
وزیراعظم چندہ اکھٹا کرنے کے لیے ٹیلی تھون کرتے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح
ہماری غریب عوام کی مدد ہوسکے اگر ہم نے امداد پہنچانے میں تاخیر کردی تو
عوام کا جینا مشکل ہوجائیگا کرونا وائرس جب سے شروع ہوا ہے اور ملک میں لاک
ڈاؤن کی صورتحال پیدا ہوئی ہے تب سے اب تک بھوک کے خوف سے کمزور دل لوگوں
نے خود کشیاں کرلیں اور اپنے بچوں کو بھی مارنا شروع کردیا ہے میں سمجھتا
ہوں کہ حکومت کی طرف سے 12ہزار کی امداد اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مترادف ہے
مگر جس ملک میں ہم رہ رہے ہیں جہاں حکمرانوں کا صرف مال پانی اکٹھا کرنے پر
ہی زور رہتا تھا وہاں پر وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلی پنجاب عثمان
بزادر کی طرف سے راشن اور پیسے پہنچانے کا جو عمل ہے وہ بھی بہت بڑا عمل ہے
اتنے پیسوں اور راشن سے ایک ماہ گذر سکتا ہے بھوک کے خوف سے خود کشی کی طرف
انسان مائل نہیں ہوسکتا کیونکہ اسکے پاس زندہ رہنے کے لیے کچھ نہ کچھ تو
موجود ہے حکومت کو بس ایک کام مزید یہ کرنا ہے کہ وہ بھی لاہور پریس کلب کے
صدر ارشد انصاری کی طرح ضرورت مندوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر راشن اور پیسے
خاموشی سے انکے گھروں تک پہنچادے اور حکم بھی یہی ہے کہ ایک ہاتھ سے دو تو
دوسرے ہاتھ کو پتہ نہ چلے پریس کلب ہمارا دوسرا گھر ہے جہاں ہم بے فکری سے
بیٹھ کر صاف ستھرا کھانا کھاتے ہیں اپنے مسائل ایک دوسرے سے شیئر کرتے ہیں
اور پھر ان مسائل کا حل ڈھونڈتے ہیں ہمارے کچھ صحافی دوست جو لاہور سے تعلق
نہیں رکھتے انہوں نے بھی بھوک کے خوف سے اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا اﷲ
تعالی سبھی کو معافی عطا فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلی مقام دے (آمین )
یہاں لاہور پریس کلب کا ذکر کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ ہمارے دوسرے شہروں
کے کلب بھی اسی طریقہ کار کو اپنا کرقلم کے مزدوروں پر مشکل کے یہ دن
آسانیوں میں تبدیل کرسکتے ہیں ارشد انصاری کی خدمت اور صحافی دوستوں سے
پیار کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ اسی خدمت کی بدولت وہ مسلسل منتخب ہوتے آئے
ہیں چند دن قبل ایک مرحوم صحافی دوست کی بیوی انہی حالات کا شکار تھی اور
جب میرے پاس دفتر میں بیٹھ کر اپنے دل کا غم ہلکا کرچکی تو میں نے اسے ارشد
انصاری کا نمبر دیا اسکی نہ جانے کیا بات ہوئی کہ وہ رونا شروع ہوگئی میں
نے اسے تسلی دی کہ ہوسکتا ہے کہ ارشد انصاری کسی ٹینشن میں ہو جو آپ سے
اچھے طریقے سے بات نہیں کرسکا آپ اطمینان رکھیں وہ آپ کے لیے ضرور کچھ
کریگا وہ خاتون واپس گھر چلی گئی مگر رات گئے اسکا ٖفون آیا تو اسکی آواز
سے لگتا تھا کہ اسکی آنکھوں میں تشکر کے آنسو بھی ہیں بتا رہی تھی کہ شام
کے وقت ارشد انصاری کا فون آیا اور وہ اپنے رویہ پر معذرت کررہا تھا ہمار
ایڈریس پوچھا اور پھر تھوڑی دیر بعد ہی ایک لڑکا راشن اور پیسے دیکر چلا
گیا کیا فرشتہ صفت انسان ہے جس نے دیا بھی اور مشہوری بھی نہیں کی کسی کو
کان وکان خبر نہیں ہوئی نہ تصویر نہ خبر اور نہ ہی کسی گروپ میں ڈالا میرا
مقصد کسی کی مشہوری نہیں بلکہ ایسے افراد کو ایک مثال بنا کر پیش کرنا ضرور
ہے جنکی وجہ سے کسی کے مرجھائے ہوئے چہرے پر خوشی کے آثار پیدا ہوجائیں
زندگی کی تکلیفیں تو پہلے ہی بہت زیادہ ہیں اوپر سے انسانی رویوں کی وجہ سے
جو دل ٹوٹتے وہی اصل میں انسانوں کو غلط فیصلوں پر مجبور کرتے ہیں ہمارے
مخیر حضرات بھی اگر اسی فارمولہ پر عمل کریں تو بہت سے افراد دوبارہ ہنسی
خوشی کی طرف لوٹ آئیں گے مزدوروں کا عالمی دن بھی ہے اور مزدور اﷲ کا دوست
بھی جو کبھی کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتا اپنی خودداری کو قائم رکھتے ہوئے
بھوک ،پیاس اور مصائب برداشت کرتا ہے کہیں کچھ تقسیم ہورہا ہو تو لائن میں
لگ جاتا ہے جہاں تصویر یا ویڈیو بن رہی ہوں تو پھر وہ وہاں سے کنارہ کرلیتا
ہے اس لیے ایسے تمام افراد اور ادارے لاہور پریس کلب کی طرح مجبور افراد کی
مدد کریں کہ ایک ہاتھ سے دیں تو دوسرے ہاتھ کو خبر نہ ہوں ۔
|