ترک ڈراما ''ارطغرل غازی'' کی آج کل بہت دھوم مچی ہے۔اس
سیریزکے حامی اورمخالف باہم دست وگریبان ہیں۔ علما کا ایک گروہ جس کی قیادت
صاحبزادہ حامد رضا کی جماعت سنی اتحاد کونسل کررہی ہے، حامی ہے اور انھوں
نے اس کے حق میں فتویٰ بھی جاری کیاہے اورکچھ مفتی حضرات اس ڈرامے کے
مخالفت میں آستینں چڑھا رہے ہیں۔ حریفوں اورحلیفوں میں کس کی رائے صائب ہے؟
اس کاجواب ڈھونڈنے سے قبل یہ دیکھنا ہوگا کہ اس ڈرامے میں دکھایا کیا
جارہاہے؟ اس ڈرامے میںجو کچھ دکھایا جارہاہے ، اس کا ملخص پیش خدمت ہے۔
اس ڈرامے کا مرکزی کردارترک قائی قبیلے کا سردار''ارطغرل'' ہے۔ نامورسلطان''
علاؤالدین سلجوق ''کی بھتیجی اس کے نکاح میں ہے، گویا وہ ہ سلجوق شاہی
خاندان کا داماد ہے۔ یہ وہ زمانہ ہے جب مسلمانوں کا اقتدار ٹکڑوں میں بٹ
چکا ہے۔صلیبی سازشیں عروج پر ہیں۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے جو فتوحات
کاخنجر فرنگیوں کے سینے میں گاڑا تھا، وہ اسے نکال باہر کرنے کے لیے نت نئی
حکمت عملی مرتب کررہے ہیں۔صلیبیوں کی نظر بیت المقدس پر ہے وہ جلدازجلد
مسجداقصیٰ کو اپنے ناپاک قبضے میں لاکر مسلمانوں کو قبلہ اول سے محروم کرنا
چاہتے ہیں۔ دوسری جانب مسلمانوں کا عالم یہ ہے کہ اہل اقتدار کے محلات میں
صلیبی سازشیوں نے قبضہ کررکھا ہے۔ عالم اسلام کے اتحاد کی ہرراہ کو مسدود
کرنے کی کوشش کی جارہی ہیں۔اسی اثنا میںترکوں کے ایک دربدر ہوتے ''قائی
قبیلے'' کی تلوار اسلام کی سربلندی اورسطوت کی خاطر بے نیام ہوتی ہے۔ ترک
قبیلہ اس بہادرمجاہد کی قیادت میں سینہ سپر ہوکر صلیبی مکاروں اور منگول
لٹیروں سے نبردآزما ہوتاہے اوراللہ تعالیٰ کی مددونصرت سے کامیابیاں
اورکامرانیاں سمیٹتاہوا عظیم مجاہد سلطان عثمان کی قیادت میں ایک وسیع
اسلامی سلطنت کی بنیاد رکھتاہے۔ ابن العربی اوردیگرجید صوفیا،ایک طرف ان
ترک جانبازوں کی راہ نمائی میں پیش پیش رہے اوردوسری طرف اس عظیم اسلامی
سلطنت کا راستہ ہموار کرنے میں مصروف عمل رہے۔
اگر غیر جانبداری اورتعصب کی عینک اتار کردیکھا جائے تواس میں تاریخ کی
عمارت میں کہاں نقب زنی کی گئی ہے اورکون سی تاریخی بددیانتی کا مظاہرہ
کیاگیاہے۔ البتہ اگر کوئی اس دردناک تاریخ سے آنکھیں بند کرنا چاہے تو سو
بسم اللہ۔اس ڈارمے میں صلیبی فدائیوں کو دکھا کراسلام کے دامن پر دہشت گردی
اور خود کش حملوں کا داغ دھو کر، انتہاپسندی کایہ تمغہ ا سلام دشمنوں کے
سرسجایاگیاہے۔گویا تاریخ کا ایک قرض ہے جو ٹھوس تاریخی شواہد سے
اتاراگیاہے۔
اس دور فتن میں نوجوان نسل اسلام سے دور ہوتی جارہی ہے، اپنی تہذیب وثقافت
اورغیرت مندکابرین کے کارناموں سے ناآشناہے۔ وجہ صرف یہی ہے کہ ہماری
سکرینوں پر جو اخلاق باختہ سکرپٹ چلائے جارہے ہیں ، وہ نئی نسل کے خرمن
ایمان کو جلا کر بھسم کررہے ہیں۔ نوجوان کتاب سے دور ہوگیاہے، اب وہ سب کچھ
سکرین اور میڈیا کے ذریعے سے سیکھنا چاہتاہے۔ ایسے موقع پر ''ارطغرل غازی''
کااجراکسی نعمت سے کم نہیں ہے کہ جس کا آغازہی حیدر کرارؓ کی بہادری کے
اعتراف سے ہوتاہے۔ بقول اقبال:
؎ تیری خاک میں ہے اگر شرر توخیال فقروغنا نہ کر
کہ جہاں میں نان شعیر پرہے مدار قوت حیدری
افسوس کہ مخالفت کرنے والوں کی نگاہ کسی ایک آدھ منظر،جوان کی نگاہ میں
قابل گرفت ہے ، پرضرور پڑی ہے۔ لیکن اللہ اکبر کے نعرے سے دشمنان دین کے
بلند قلعوں پر یلغار کرنا،رسول اللہ ؐ کانام آتے ہی، عقیدت میں ہاتھوں کا
بے ساختہ دلوں پر جاٹکنا،اللہ رب العزت کی بارگاہ میں رسول
پاک ؐ کے وسیلے اورواسطے سے جہاد میں کامیابی کی دعائیں مانگنا،مجاہدین کے
خیموں سے نعت رسول ؐاور درود پاک کے نغموں کا گونجنا،حضرت علی المرتضیٰؓ کی
شجاعت کے تذکرے،ابن العربی ؒ کا ذکراللہ اور ذکررسول ؐ کی محافل سجانا ، ان
کو دکھائی نہیں دیا۔
اس ڈرامے کااجمالی تاثر، اللہ اوررسول اللہ ؐ کی محبت، جہاد فی سبیل
اللہ،دین کی سربلندی ، اسلام کی عظمت اوراہل اللہ سے تعلق اور محبت ہے۔
مخالفت کرنے والے دوستوں کو یہ جاننا چاہیے کہ یہ رمزخداوندی ہے کہ جس
انداز سے حملہ ہوگا ، جواب بھی اسی طوردیاجائے گا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام
نے جادوگروں کا جواب انھی کے رنگ میں دے کرنام خدا کوبلند کیاتھا۔ اگر
اسلام پر حملہ تقریری صورت میں ہوتو جواب میں رطب اللسان ہونا پڑے گا،
تحریر کے ذریعے دین اسلام پر وار کیا جائے تو جواباً قلم کو حرکت میں لانا
پڑتاہے اوراگر دشمنان اسلام ٹی وی سکرین کے ذریعے رسول اللہ ؐ کی امت کے
جوانوں کے ایمان پر حملہ آور ہوں گے تو منہ توڑ جواب بھی اسی رنگ میں دینا
ضروری ہے۔
فریقین کافیصلہ اس سوا ل کی کسوٹی پر آسانی سے ہوسکتاہے۔ آپ کسی ایسے شخص
سے پوچھیں جس نے یہ ڈراما دیکھا ہوکہ آپ نے اس ڈرامے سے کیا سیکھا ہے؟
اگراس کاجواب ''بے حیائی '' ہو۔ تواس ڈرامے کو بندکردیا جائے اورسنی اتحاد
کونسل کے علمائے کرام کواس سیریز کی حمایت پر بارگاہ الہٰی میں معافی کا
خواست گار ہونا چاہیے ۔ اگر اس ڈرامے کو دیکھنے والے کا جواب یہ ہو کہ میں
نے اللہ اور اس کے رسول ؐ سے محبت،اسلام کی عظمت، دینی غیرت ، شرپسندکافروں
سے نفرت سیکھی ہے، پھریہ درس توہمیں اپنی کتاب یعنی قران مجید سے بھی
ملتاہے ۔ کہیں ایسا تونہیں کہ ہم قرآن کا پیغام سمجھنے سے قاصرہیں۔
بقول اقبال:
؎ ان غلاموں کا یہ مسلک ہے کہ ناقص ہے کتاب
کہ سکھاتی نہیں مومن کو غلامی کے طریق
میں نے بذات خود اس ڈرامے کو جس حد تک دیکھا ہے میری فہم میں یہ ڈراما
سیریز امت کے جوانوں میں اسلام کی عظمت رفتہ کی یاد تازہ کرتا ہے، اپنے
آباء کی یاد دلاتاہے جنھوں نے تاجِ سردارا کو اپنے پاؤں تلے روند ڈالا
تھااورجوانوں کی خودی کو بیدار کرنے میں نہایت مددگارہے۔
نااہل حکمرانوں اور مغرب کے آلہٰ کاروں کی کوشش ہے کہ ''ارطغرل غازی'' کے
ذریعے جوان پر اوران کے فرنگی آقاؤں پر کاری ضرب لگائی گئی ہے، وہ اس وار
سے بچنے کے لیے علما کا سہارا لیں۔مخالف علمائے کرام کوادراک کرنا ہوگا کہ
وہ ان کے سہولت کار نہ بنیں۔ بے حیائی اور بے شرمی کے خلاف اگر کسی جنگ کا
آغاز کرنا ہے تو انٹرنیٹ، ہالی ووڈ، بالی ووڈ میں جو براہنہ مواد فلمایہ
گیاہے، اس سے اس کارخیر کا آغاز کریں۔ ''ارطغرل سیریز'' کا یہ تیر نشانے پر
لگنے دیں، ان شاء اللہ بہتر نتیجہ برآمد ہوگا۔
|