مہاراشٹر میں کورونا کا قہر اور بی جے پی کی مکروہ سیاست

مہاراشٹر کے وزیراعلیٰ ادھوٹھاکرے نے حال میں اس بات کی امید ظاہرکی ہے کہ ہمت، بہادری اور قوتِ ارادی کے بل بوتے پر کوویڈ-19 کے خلاف ہم یہ جنگ ضرور جیتیں گے ،اس طرح کی خود اعتمادی کا اظہار کر تے ہوئے ادھوٹھاکرے نے کہاکہ آج دنیا بھر میں ہندوستانی عوام کی ستائش کی جا رہی ہے اورانہیں اس بات کا یقین بھی ہے کہ ہندوستان یہ جنگ جیت لے گا، دوا سے نہیں بلکہ دوا آنے سے پہلے ہی اپنی ہمت، بہادری اور قوتِ ارادی کے ذریعے کورونا کو شکست دی جائے گی۔ہمارے سامنے اگر مصیبت کا پہاڑ ہی کیوں نہ ہو، خود اعتمادی کے بل پر اسے زیر کیا جا سکتاہے۔اور ہم یہ کر کے دیکھائیں گے۔ یہ موقع سیاست کرنے کا نہیں ہے۔ اگر ہم سیاست کرنے پر اتر آئے تو پھر ہمیں کسی بیرونی دشمن کی ضرورت نہیں پڑے گی۔اقتدار آتا جاتا رہتاہے۔ آج ایک کے پاس ہے تو کل دوسرے کے پاس، لیکن زندگی ہار جانے کے بعد دوسری بار نہیں ملتی۔ دراصل وہ مرکزی وزیربرائے نقل وحمل اورسڑک نتین گڈکری کا شکریہ اداکررہے تھے کیونکہ گڈکری نے مہاراشٹر میں سیاسی بحران پیدا کرنے کی درپردہ کوشش کے درمیان عوام سے اپیل کی ہے وہ کوئی سیاست کئے بغیر مہاراشٹر کی حکومت کا ساتھ دیں۔سب ملکر حکومت کے ساتھ رہیں۔ اسکی مدد کریں۔ اور آج اسی بات کی ضرورت ہے۔

دراصل ریاست میں بی جے پی کی کوشش ہے کہ مدھیہ پردیش کی طرح ادھوٹھاکرے کی قیادت میں تین پارٹیوںشیوسینا،این سی پی اور کانگریس پر مشتمل مہاوکاس اگھاڑی(ایم وی اے ) کی حکومت کو گرادیا جائے۔ادھوٹھاکرے کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ مہاراشٹر اسمبلی کے کسی بھی ایوان کے رکن نہیں ہیں،اگر کوئی لیڈر ممبرشپ کے بغیر وزیراعلیٰ بنایا جاتا ہے تو اسے چھ مہینے میں دونوں ایوان میں سے کسی ایک کاکارکن منتخب ہونا لازمی ہے ،لیکن کوروناوائرس کی وباءپھیلنے اورلاک ڈاﺅن کی وجہ سے تقریباً دیڑھ مہینے سے ملک گیر سطح پرپیدا صورتحال کے سبب یہ ممکن نہیں ہوسکا۔ادھوکے لیے یہ میعاد 27مئی کو ختم ہورہی ہے،ادھوٹھاکرے کو ایوان میں پہنچانے کے لیے ایک متبادل یہ ہے کہ گورنر اپنے کوٹے سے دوخالی پڑی نشستوں میں سے ایک پر ادھوٹھاکرے کی نامزدگی کردیں ،لیکن بی جے پی کی لیڈرشپ مہاوکاس اگھاڑی اور خصوصی طورپرشیوسینا سربراہ سے کافی نالاں ہیں کیونکہ ان کی وجہ سے اقتدار بی جے پی کے ہاتھوں سے کھسک گیا تھااور اس صورتحال کا پورا پورا فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں ،اسے ایک موقعہ ملا، یہی وجہ ہے کہ ادھوکابینہ کی دودوسفارشات کے باوجود گورنر بھگت سنگھ کوشیاری نے وزیراعلیٰ کو اپنے کوٹے سے ایم ایل سی نامزد نہیں کیا ۔

مہاراشٹر میں کورونا وائرس کی وجہ سے جو حالات پیداہوگئے ہیں ،اس میں سیاسی کھیل کھیلے جانے کے نتیجے میں وبائی بیماری سے عوام بدحال ہوسکتے ہیں ،ادھوٹھاکرے اور مہاوکاس اگھاڑی لیڈرشپ نے گورنرکوشیاری کی سردمہری کو بھانپ لیااور ادھونے اس کا اندازہ لگانے کے بعد بذات خود وزیراعظم نریندرمودی سے رابطہ قائم کرنے کی جسارت دکھادی اور ان سے مداخلت کی درخواست کردی ،اس کے دوسرے دن ہی نتین گڈکری نے مذکورہ بیان جاری کردیا ،جس میں بظاہرعوام سے ان حالات میں سیاست سے باز رہنے کی اپیل کی گئی ،لیکن دراصل انہوںنے مہاراشٹر بی جے پی کو بلاواسطہ پیغام دے دیا کہ ریاست میں سیاسی بحران پیدا کرنے سے بی جے پی کی بدنامی ہوگی کیونکہ مدھیہ پردیش میںکورونا وائرس وباءپھیلنے اورلاک ڈاﺅن کے باوجود تختہ پلٹنے کے لیے جوسرگرمیاں دکھائی گئیں ان کی وجہ سے پارٹی کو دفاعی پوزیشن میں آنا پڑاتھا۔

وزیراعلیٰ ادھو ٹھاکرے کو قانون ساز کونسل میں نامزد کیے جانے کے معاملہ میں گورنر کوشیاری کی عدم دلچسپی اور سردمہری سے ریاست میں سیاسی عدم استحکام کے درمیان ایک خوش آئندبات یہ ہوئی ہے کہ گورنرکوشیاری نے قومی الیکشن کمیشن سے سفارش کردی ہے کہ وہ مہاراشٹر میں قانون ساز کونسل کی 9خالی نشستوں کے لیے الیکشن کرائے ،البتہ اس طرح انہوںنے ادھوٹھاکرے کو اپنے کوٹے سے رکن نامزد کرنے کے معاملہ میں ٹھینگا دکھادیا ہے ۔اتنا تو سچ ہے کہ یہ سب کچھ انہوںنے خود سے نہیں کیا ہے اور اعلیٰ کمان کے اشارے کے بغیر وہ اتنی جسارت بھی نہیں دکھا سکتے ہیں۔ ادھوکے ذریعے مودی کا دروازہ کھٹکھٹا نے پر فوری طورپر گورنرکے ہوش ٹھکانے آئے اور انہوںنے الیکشن کمیشن کو مکتوب روانہ کردیا ہے کہ قانون ساز کونسل کے الیکشن لاک ڈاﺅن کی وجہ سے التواءمیں پڑے ہیں اور انہیں 24اپریل کو ہوجانا تھا،اب جبکہ مرکزی اور ریاستی حکومت نے کئی شعبوں اور سرگرمیوں میں رعایت دینے کا اعلان کیا ہے تو الیکشن کمیشن بھی ان خالی نشستوں کے لیے الیکشن منعقد کرائے ۔جیسا کہ پہلے بھی اس بات کا اظہار کیا جاچکا ہے کہ ادھوٹھاکرے کو 27مئی سے قبل دونوں ایوان میں سے کسی ایک کاممبر منتخب ہونالازمی ہے۔

مذکورہ معاملہ میں چیف الیکشن کمیشن سنیل اروڑہ نے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے میٹنگ طلب کی اور امکان ہے کہ جلدہی الیکشن کی تاریخ کا اعلان بھی کردیا جائے،اس اہم ترین قدم سے ادھوٹھاکرے کے سیاسی مستقبل پر کی جانے والی قیاس آرائیوں کا خاتمہ ہوجانا چاہیے ،گورنر کوشیاری نے ایسا کیوں کیا اور ادھوکو اپنے کوٹے سے ایم ایل سی نامزد کیوں نہیں کیا ،ظاہر ہے کہ اس سے پس پردہ بی جے پی لیڈر شپ کارفرما ہے۔اگر گورنر ادھوٹھاکرے کو اپنے کوٹہ سے ممبرنامزد کردیتے تو بی جے پی کی کونسل میں ایک نشست کم ہوجاتی تھی،کیونکہ کونسل الیکشن میں شیوسینا کے تین امیدوار بڑی آسانی سے کامیاب ہوجائیں گے ،اس طرح ادھوکی نامزدگی سے شیوسینا کی چار نشستیں بڑھ جاتی تھیں جوکہ بی جے پی کو گوارہ نہیں تھا۔

مہاراشٹر میں سیاسی بحران پیدا کرنے کی کوشش کے دوران ایک متبادل یہ بھی تھاکہ ادھوٹھاکرے اپنے عہدہ سے استعفیٰ دے دیتے اور انہیں دوبارہ شیوسینا قانون ساز پارٹی اور مہاوکاس اگھاڑی کا لیڈر منتخب کیا جاتا اور گورنر انہیں عہدہ اور راز داری کا حلف دلاتے تھے،لیکن فی الحال گورنر اور ریاستی حکومت کی جانب سے کونسل کی خالی نشستوں کے لیے انتخابات کرانے کی سفارش سے سیاسی بحران کے پیدا ہوئے بادل ہلکے سے چھٹ گئے ہیں ،لیکن جب تک الیکشن کمیشن کی سرگرمیوں کا آغاز نہیں ہوجاتا ہے ،اس سلسلہ میں کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔کیونکہ پہلی سفارش گورنرکو گزشتہ 9اپریل کو ریاستی کابینہ نے کی تھی ،لیکن گورنر نے تقریباً تین ہفتے خاموشی اختیار رکھی اور کوئی جواب نہیں دیا ،جس کے بعد حال میں کابینہ نے دوسری مرتبہ ان سے سفارش کی تھی ،لیکن وہ ٹس سے مس نہیں ہوئے ،آخر تھک ہار کر ادھوٹھاکرے نے وزیراعظم مودی سے رجوع کیا ،اور گورنر نے فوراً ہی چیف الیکشن کمیشن سے سفارش کردی ،ایسامحسوس ہوتا ہے کہ اس معاملہ کو اناکا مسئلہ بنالیاتھا اور بی جے پی جان بوجھ کر تاخیر کررہی تھی ،دراصل بی جے پی اعلیٰ کمان کا منشاءیہی تھا کہ یہاں وہاں کی باتیں کرنے کے بجائے ادھوٹھاکرے راست دہلی سے رابطہ کریں اور ان پر احسان برقراررکھا جائے اور اس سے یہی ثابت ہورہا ہے کہ جو منفی سیاست بی جے پی نے اپنا رکھی ہے ،یہ واقعات اسی کا نتیجہ ہیں۔ورنہ گورنر کوشیاری اس کے لیے تقریباً ایک ماہ کیوں ضائع کرتے تھے۔

ویسے اگر مہاراشٹر میںادھوٹھاکرے کی قیادت میں حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لیاجائے تو یہ پتہ چلتا ہے کہ انہوںنے ایک بہتراوراعلیٰ درجہ منتظمین کے طورپر اپنی حیثیت منوالی ہے ،اس کے لیے یہ مثال دی جاسکتی ہے کہ انہوںنے پالگھر میں سادھوﺅں کے قتل پر بی جے پی کی سیاست کو چمکنے نہیں دیا اور جب اترپردیش کے بلند شہر میں اس قسم کا واقعہ پیش آنے پر وہاں کے وزیراعلیٰ یوگی ادیتیہ ناتھ سے ٹیلی فون پر رابطہ کرنے کی جسارت بھی دکھا دی ،بلکہ انہیں ان کے ہی انداز میں سوالات پوچھ لئے ، جس کابی جے پی اور خود یوگی کو ذرہ بھراندازہ نہیں تھا۔دونوں ہی تلملا کررہ گئے ،کیونکہ پال گھر کے موب لنجنگ کے معاملہ پر انہوںنے زمین آسمان ایک کردیا تھا،خیر علاقائی بی جے پی لیڈرشپ اپنے ادھوٹھاکرے حکومت گرانے کے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکیہے ،یہ لیڈران خوش فہمی میں مبتلا تھے کہ مدھیہ پردیش کی طرز پر حکومت کو گرادیا جائے ،اس معاملہ میں نتین گڈکری کا مثبت بیان بھی اہمیت کا حامل ہے۔ادھونے اس موقع پر چاہے وہ کورونا سے نمٹنے کا معاملہ ہو یا اپنی حکومت بچانے کے لیے حکمت عملی طے کرنے کا،انہوںنے بھرپورخوداعتمادی کا مظاہرہ کیا ہے اور یہی ایک اچھے اورباصلاحیت سیاست داں کی علامت ہے ۔

 

Javed Jamal Uddin
About the Author: Javed Jamal Uddin Read More Articles by Javed Jamal Uddin: 53 Articles with 33821 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.