میں ہیڈ ماسٹرصاحب سے ملنے گیا، حال احوال پر گفت و شنید
ہو ئی، اٹھ کر جانے سے پہلے میں نے کہا سر اگر اجازت ہو تو میٹرک کلاس وزٹ
کر سکتا ہوں اور ان طلبا سے کچھ کہنا چاہتا ہوں، اچھی دُعا سلام تھی، کہتے
چلو ہم دونوں چلتے ہیں، آفس سے اٹھے کلاس انچارج سے ہلکا سا تعارف ہوا،
کمرہ جماعت میں داخل ہوا۔ میں نے طلبا سے پوچھا مجھے جانتے ہو کسی نے کہا
جی کسی نے کہا نہیں جی، خیر ہلکی سے گفتگو کے بعد میں ان سے مخاطب ہوا کہ
میں آج آپ سے کچھ کہنا چاہتا ہوں میری بات توجہ سے سننا اور جتنے بھی سوال
مائنڈ میں آئیں بعد میں کرنا، لیکن درمیان میں نہ بولنا۔ تجسس پیدا کیا تو
میں بلیک بورڈ کی طرف لپکا، ایک نقشہ سا کھینچ دیا۔ اس کی تفصیل میں اس طرح
گویا ہوا کہ A پارٹی B پارٹی کا پڑوسی ہے، Aکافی غریب ہے لیکن سفید پوش بھی
ہے، یہ اپنے بچوں کو تعلیم دینے سے قاصر ہے اگر پڑھا بھی لے تو بڑی مشکل سے
میٹرک ہی پاس کر سکے شاید، دوسری پارٹی مالی طور پر کافی بہتر ہے وہ چاہے
تو پڑوسی کے بچوں کی تعلیم کا خرچہ برداشت کر سکتا ہے۔ اب مسئلہ درپیش آرہا
تھا کہ کس طرح Aکے بارے میں Bکو بتایا جائے، خیر محلے کے ایک بزرگ تھے جن
پر پورا محلہ بہت اعتماد کرتا تھا، وہ بزرگ امیر گھرانے کے پاس کسی بہانے
گئے اور باتوں باتوں میں سفید پوش پڑوسی کا حال و احوال سُنا دیا۔ امیر
گھرانے کو یہ سن کر بڑا ہی دُکھ ہوا۔ بچوں پھر پتہ کیا ہوا، بچے بڑے ہی
انہماک سے کہانی سنتے جا رہے تھے، ایک تو آج کے سبق سے جان چھوٹ گئی تھی
دوسرا تجسس والی کہانی اپنی الگ ہی اہمیت رکھتی ہے۔ بچو! اس بزرگ محلہ دار
کے کہنے پر سفید پوش کے بچے سکول جانے لگے اور ان کے تعلیمی اخراجات امیر
گھرانہ برداشت کرنے لگا۔ اس کہانی کو بند کرکے دوسری قسط شروع کرتا ہوں،
بچوآپ میں کسی کے پاس صاف ستھرا اور نیا پن ہے تو مجھے دینا، بچے ایک دوسرے
کی طرف دیکھنے لگے خیر ایک نے بستہ میں سے نیا پن نکال کر میرے حوالے کر
دیا، میں نے کاغذ پر کچھ لکھنے کی کوشش اس طرح کی کہ یہ پن بیکار ہے، میں
نے وہ پن دوسرے بچے سے کہہ کر ڈسٹ بن میں پھینکو ادیا، پوری کلاس حیران و
پریشان ہوگئی اس بابا جی نے کیا کیا، اس کا نیا پن خوامخواہ پھینک دیا۔ جس
سٹوڈنٹ کا پن تھا اس کے چہرے کے تاثرات قابل دید تھے۔ اس بچے کو کھڑا کر
لیا اور پوچھا اتنا بُرا محسوس کیوں کر رہے ہو کہنے لگا سر جی میں نے کل ہی
نیاپن خریدا تھا، اب کیسے گھر جا کر اپنے ابو سے ایک اور پن لینے کا کہوں
گا وہ مجھے ڈانٹیں گے، نہیں اچھا لگا تھا تومجھے واپس کر دیتے، میں نے کہا
اوہو، کوئی تیس چالیس کا تو پن ہے، طالب علم بولا! ٹھیک ہے لیکن میرے لیے
تو ایک مسئلہ کھڑا کر دیاناں آپ نے۔ اسے میں نے بیٹھنے کو کہا وہ بیٹھ گیا،
چلو بچوں اب پھر اس کہانی کو جوڑتے ہیں جہاں سے ٹوٹی تھی، بچے ایک پھر
سنجید ہ ہوگئے، پن والے طالب علم سے کہا کوئی بات نہیں آپ کو پن واپس کر کے
جاؤں گا، ڈئیر سٹوڈنٹس اگر سفید پوش کے بچے صحیح طور پر سکول نہیں جائیں گے
یا سکول کام نہیں کریں گے اور ان بچوں کی سکول سے کام نہ کرنے کی شکایات
مسلسل آرہی ہوں آپ کو کیسا لگے گا؟ جن کی پرائیویٹ سکول میں بھاری فیس
دوسرا آدمی ادا کر رہا ہے، بچے یک زباں ہو کر بولے بہت بُرا، اسے ایسا نہیں
کرنا چاہیے، اگر یہی بات امیر آدمی تک پہنچے گی تو وہ کیا محسوس کرے، یقینا
اسے بھی بہت دُکھ ہوگا، بچو! پھر اس کا اختتام کیا ہوگا، بچے کہنے لگا سر
جی صاف ظاہر ہے امیر آدمی ان بچوں کی فیس نہیں ادا کرے اور ان بچوں کا
مستقبل تاریک ہو جائے گا۔ جی بالکل ٹھیک کہا! شاباش۔۔ میرے پیارے بچو! جس
طرح میں نے تیس چالیس کا پن پھینک دیا اور اس کا پوری کلاس کو دُکھ ہوا،ہوا
ناں، جی ہوا۔۔ چلو اب کہانی کو ختم کرتے ہیں، میرے پیارے طلباء آپ کو پتہ
ہے آپ کی جگہ بھی کوئی دوسرا آدمی کم و بیش 2000 سے 4000 روپے فیس ادا کرتا
ہے، طلبا چونکے، سر جی وہ کیسے؟پہلے یہ بتاؤ جب آپ نہیں پڑھیں گے یا نہیں
پڑھتے جو آپ کی فیس ادا کر رہے ہیں ان کو دُکھ ہوتا ہے کہ نہیں، بچے بالکل
خاموش کہ بابا جی نے کونسی منطق ہمارے سامنے پیش کی، میں نے کلاس مانیٹر سے
کہا کہ آج وقت نکال کر اپنے کلاس انچارج سے سکول کا ماہانہ بجٹ کا پتہ لگا
نا پھر ان لاکھوں روپوں کو سکول کی کل تعداد سے تقسیم کر دینا، جواب تقسیم
حاصل ہو وہ فی کس فیس ہے، جسے یہ معاشرہ آپ کی جگہ ادا کر رہا ہے۔ سر جی یہ
تو بہت بنتی ہوگی؟ بس بچوں یہی میرا سمجھانے کا مقصد تھا کہ آپ بھی دل لگا
کر محنت کریں ایسا نہ ہو کہ آپ کی جگہ فیس دینے والا فیس نہ دیں اور آپ کے
سنہرے خواب ریت کے گھروندوں کی طرح زمانے کی تیز ہواؤں کے ساتھ اڑ جائیں
(کرپٹ مافیا)۔ میں پھر وہ پن واپس ڈسٹ بن سے واپس اٹھایا اور بچے کویہ کہہ
کر واپس کر دیا کہ تیس یا چالیس کا ایک پن کے ضائع ہونے کا آپ سب کو بہت
دُکھ ہوا، گھر میں جا کر میری باتوں کو غور سے دہرانا کہ جو آپ کی جگہ
ہزاروں روپے فیس ادا کرتا ہے اور آپ کے نہ پڑھنے سے اسے کتنا دُکھ ہوتا
ہوگا؟ آپ کی فیس دینے والا کیا چاہتا ہے؟ کہ یہ بچے بڑے ہو کر ملک و قوم کے
اچھے شہری، ڈاکٹر، انجینئر، ادیب، سائنسدان، پائلٹ بنیں تاکہ ہم ایک ترقی
یافتہ ملک بن جائیں، پاکستانی باشعور قوم نظر آئے، ہمیں کسی بھی مسئلہ کے
حل کے لیے دوسرے ممالک کی جانب نہ دیکھنا پڑے، فیس دینے والے چھپے ہوئے
ہاتھ نہ جانے کیا کیا خواب سجائے بیٹھے ہیں۔ میرے ساتھ آج وعدہ کرو کہ دل
لگا کر پڑھیں گے اور فیس دینے والوں کو مایوس نہیں کریں گے، اتنے میں میری
آنکھ کھل جاتی ہے، نیند سے بیدار ہو کر سوچتا ہوں کہ یہ بچے واقعی میری
باتوں پر عمل پیرا ہو ں گے۔ اللہ کریم ہم سب کو اچھے خواب دیکھنے کی توفیق
عطا فرمائے اور رب العزت ان خوابوں کی تکمیل فرمائے آمین۔
|