آج جیسے ہی دنیا کے حالات جاننے کے لئے سوشل میڈیا
Websiteکا وزٹ کیا توہر طرف ایک ہی خبر گردش کررہی تھی،پہلے تو میں نے اس
خبر کو فیک نیوز سمجھا اورخبر پر یقین نہ آیا اس کے ساتھ ہی اس خبر کو کافی
ذیادہ تعداد میں سراہا جا رہا تھا۔ یہ خبر تھی کہ وزیر تعلیم نے طالبعلموں
کو بغیر امتحانات کے اگلی جماعتوں میں پروموشن دے دی ہے۔ یہ خبر کافی دنوں
سے گردش میں تھی کیونکہ کیمبرج سسٹم کے تحت کیمبرج سے منسلک اداروں میں
Covid-19کی وجہ سے تاریخ میں پہلی بار پاس کر دیا گیاتھا۔ لیکن کیمبرج کا
معیا ر تعلیم کہاں اور کہاں ہمارا معیار تعلیم۔ یہ تواس طرح ہے جیسے بکری
اور اونٹ کا مقابلہ ہو۔ یقینا میں بھی اسی تعلیمی نظام سے منسلک ہوں، جس
میں اگر بین الاقوامی طور پر تعلیمی میدان میں نام ہے تو صرف ایک یونیورسٹی
(QAU)کا۔
بین الاقوامی معیا ر تو دُور یہاں تو پریکٹیکل کے نمبر بھی سفارش یا رشوت
پر لگتے ہیں اوراس بات سے انکا ر کرنا کافی مشکل ہے۔ میڑک، انٹرمیڈیٹ اور
یونیوسٹیز میں جو پریکٹیکلز امتحانات ہوتے ہیں ان سے کون واقف نہیں۔پہلے ہی
تعلیمی نظام کا بیڑا غرق ہے وہاں ایسے فیصلے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ کیا
بیوروکریسی اسی سوچ میں گم تھی کہ یہ فیصلہ کرنا ہے اگر ایسے فیصلے کرنے
ہوں تو ایک عام سا انسان بھی یہ فیصلہ یا رائے دے سکتا ہے۔یہی فیصلے کچھ
وقت کے بعدثابت کریں گے کہ یہ فیصلے نہیں بلکہ کالے فیصلے ہیں۔ کیا اس کے
علاوہ کوئی اور صورت نہیں تھی؟ کیا کوئی اور راستہ نہیں نکالا جاسکتا تھا؟
تو اس کا جوا ب ہے ہر گز نہیں۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے طریقے ہیں جن کی وجہ
سے تعلیمی نظام کو تباہ ہونے سے بچایا جا سکتا تھا۔
اس کے ساتھ ہی اگر نظر ڈالی جائے ان مشکل حالات میں تعلیم کے حوالے سے تو
یونیوسٹیز کو آنلائن تعلیم کے لیے نوٹیفیکیشن جاری کیا گیا تو کیا حکومت کو
یا HECکو معلوم نہیں کہ کتنے طالبعلموں کے پاس online ایجوکیشن حاصل کرنے
کی سہولت میسر ہے۔ ہاں یا د آیا چور حکومت یونیورسٹی لیول پر سٹوڈنٹس کو
لیپ ٹاپ دیا کرتی تھی۔ اس کے ساتھ ہی طالبعلموں کو انٹرنیٹ ڈیوائسز بھی دیا
کر تی تھی،لیکن اُس وقت ملکی حالات ایسے نہ تھے اور نہ ہی وہ یونیوسٹیز
کوبند کر online تعلیم دے رہے تھے۔بلکہ معیار تعلیم کے لیے اہم کام
تھا۔لیکن اس وقت طالبعلموں کوموجودہ حالات میں ان چیزوں کی شدید ضرورت ہے
اور ایماندار حکومت نے آتے ہی اس منصوبے کو ختم کیا۔اب جبکہ online کلاسز
ہونے کو ایک ماہ ہو چکاہے لیکن کلاسز میں جو حاضری ہے یا طالبعلموں کے پاس
دستیاب زرائع ان سب کو اساتذہ یا طالبعلوں سے بڑھ کر کوئی نہیں جانتا۔کیا
کو ئی ریلیف پیکج اساتذہ یا طالبعلموں کو دیا گیا؟کیا طالبعلموں یا
یونیوسٹیز کے پاس ATMمشینیں ہیں جو اس LOCK DOWNکی حالت میں سارا بوجھ
برداشت کرلیں گیں؟ کیا اس صورت حال میں ریلیف دینا تو دور کی بات میرے خیال
میں سوچا بھی نہیں گیا ہوگا، بلکہ ان حالات میں یونیورسٹیز کی مدد کی بجائے
ان سے اُلٹا امدادی چیک وصول کئے گئے۔کیا ان سوالات کا جواب ایماندار حکومت
کے پاس ہے؟ تو اس کا جواب بھی ہر گز نہیں ہے۔
اس کے ساتھ ہی اب بات کرتے ہیں تعلیمی میدان میں جو وزارت تعلیم نے کشمیر
فتح کیا ہے یعنی کہ بغیر امتحانا ت کے طالبعلموں کو پاس کرنے کا۔ اس میں جن
چیزوں کو جواز بنا کر یہ فیصلہ کیا گیا اس کی Ground Realityکیا ہے؟
اگر پچھلے نتیجے کو بنیاد بنا کر اگلی جماعت میں بغیر امتحان پروموٹ کردیا
جائے تو کم ازکم پچھلے امتحانات سے موازنہ کر لیا جائے کہ کیا یہ حقیقت ہے
کہ جو نمبر طالبعلم نویں،دسویں میں حا صل کرتے ہیں کیا اتنے ہی نمبر وہ
گیارہویں،بارہویں میں حاصل کرتے ہیں یا نہیں۔ اس کا جواب ہے ہر گز نہیں۔
کیونکہ دسویں میں کم نمبر لینے والے اگلی جماعت میں زیادہ نمبر لے جاتے ہیں
اور دسویں میں کم نمبر والے اگلی جماعتوں میں ذیادہ، تو نتیجہ نکلا کہ یہ
منطق بالکل غلط ہے۔
اگر محکمہ تعلیم کی اسی منطق کو مان لیا جائے تو پھر کیا میٹرک کو بنیاد
مان کر انٹر میں پروموٹ، انٹر کو بنیاد بنا کر گریجویشن میں پروموٹ،
گریجویشن کو بنیاد بنا کر ماسٹر اور پی۔ایچ۔ڈی تک پروموٹ کیا جا سکتا ہے تو
پھر اسی بنیا د پر انہیں پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگریاں دی جائیں تاکہ وہ انہیں فریم
میں اپنے پاس رکھ سکیں۔مان لیا کہ مشکل وقت ہے کچھ نہ کچھ کرنا چاہیئے تو
کیوں نہ شارٹ کٹس کو چھوڑ کر مستقل حل ڈھونڈا جائے۔
جب بازار کھولے جاسکتے ہیں،جب ناقص نظام کے ساتھ امداد تقسیم کی جا سکتی
ہے، جب نادرا کے دفاتر کھولے جا سکتے ہیں،جب ائیرپورٹس کھولے جا سکتے ہیں،
جب کچھ وقت کے لیے اور کام کئے جا سکتے ہیں تو صرف نہیں ہو تے تو صرف
امتحانات!
کیا ان سب جگہوں پر طالبعلموں سے ذیادہ نظم وضبط والے لوگ ہوتے ہیں؟ اس کا
جواب بھی ہر گز نہیں۔ یہی طالبعلم اگر Tiger Force میں کام کریں تو وائرس
کچھ نہیں کہے گا اگر یہ ملک و قوم کی ترقی کی خاطر امتحان دیں گے تو وائرس
انہیں نگل جائے گا۔ایسا نہیں ہے۔اگر وائرس نقصان پہچاتا ہے تو وہ بھی
نمازیوں کو یا پھر اب طالبعلموں کو جو کہ مخصوص وقت میں صاف ستھرے ہو کر
جاتے ہیں۔ مان لیا ابھی تعلیمی ادارے نہیں کھولے جا سکتے لیکن ان کے لئے
سہولتیں دی جا سکتی ہیں اگر دینا چاہیں تو۔۔۔
جب ان حالات میں ہر کام SOPsکے ساتھ کیا جا سکتا ہے تو کیوں نہ تعلیم پر
بھی سو چا جائے۔ہر صورت امتحان لینے پر توجہ دی جائے۔ اس کے لیے ایس۔او۔پیز
بنائے جاسکتے ہیں۔ میرے خیال کے مطابق ایسے قواعد بنائے جاسکتے ہیں جن کا
ذکر زیل میں ہے۔
۱۔ امتحانی مرکز کے لئے رولنمبر سلپس سکولوں کالجوں کو دینے کی بجائے
بذریعہ ڈاک یا ایس۔ایم۔ایس دی جا سکتی ہیں۔اس کے لئے Help Deskبھی قائم کیا
جا سکتا ہے۔
۲۔طالبعلموں کو وقت کا پابند کیاجائے اور انکی کرسیوں کو Covid-19کی
احتیاطی تدابیر کے مطابق مناسب فاصلے پر رکھا جائے،اور ساتھ ہی سینٹائز کیا
جائے۔
۳۔پیپرز کی تقسیم کے وقت سوالنامہ انکی جوابی کاپی میں انکی کرسیوں پر رکھ
دیا جائے،اور پیپر کے ختم ہونے کے بعد وقت ختم ہونے پرپر چے اکٹھے کرنے کی
بجائے طالبعلموں کو پہلے بھیج دیا جائے اور بعد میں پیپر اکٹھے کر لئے
جائیں۔
۴۔نگرانی کے لئے عملے Covid-19 کے حوالے سے امتحانی قوانین میں مزید سختیاں
کی جائیں اور نقل کا نظام مکمل ختم کیا جائے۔
۵۔ہر طالبعلم اور امتحانی عملے پر ماسک اور حفاظتی دستانے وغیرہ لازمی شرط
قرار دئیے جائیں۔
۶۔امتحانی وقت کو کم کیا جائے، پرچہ معروضی طرز کا بنایا جائے۔
۷۔چونکہ طالبعلموں کو بہت سا وقت دیا جا چکا ہے لہذاایک کی بجائے سارے پرچے
یا دو چار پیپر ایک ساتھ لئے جائیں۔
۸۔پریکٹیکل کاپرچہ بھی امتحان کے ساتھ لیا جائے تاکہ سفارش و رشوت کے بازار
کو آباد نہ کیا جا سکے اور وقت پر رزلٹ بھی بنایا جاسکے۔
۹۔رزلٹ کے بعد بھی طالبعلم کو بہتری کے لئے بھرپور موقع دیا جائے۔
مان لیا کہ یہ سب کام مشکل ہے مگر نا ممکن نہیں ہے۔مشکل وقت میں مشکل فیصلے
کرنے پڑتے ہیں۔ ایسے فیصلے ملک و قوم کی ترقی کے لیے لازم ہوتے ہیں۔ اسیے
فیصلے تعلیم دوست ثابت ہوں گے نہ کہ تعلیم دُشمن۔ انہیں فیصلوں سے
طالبعلموں میں ایمانداری اور محنت کرنے کا جذبہ مزید اجاگر ہوگا۔نظام تعلیم
کو شفاف بنانے کی ضرورت ہے۔پریکٹیکل کے نمبر بغیر پریکٹیکل کے دینا ایک
ناسور ہے جو کہ نظام تعلیم کی جڑیں کھوکھلی کر رہا ہے۔ یاد رہے کہ امتحانات
میں ہی ہم سب کا بھلا ہے نہ کے بغیر امتحانا ت کے پاس ہونے میں اس کا اثر
اس وقت نظر آئے گا جب ملازمتوں کے لئے ٹیسٹ دیں گے یا پریکٹیکل لائف میں ہم
قدم رکھیں گے۔
اس مشکل وقت کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اپنا نظام تعلیم کو تباہ کردیں۔ ترقی
یافتہ قوموں کی تاریخوں کا مطالعہ کیا جائے تو صرف ایک ہی چیز ہے جو انہیں
ممتاز کرتی ہے وہ ہے انکی تعلیم۔تعلیم کی اہمیت کا اندازہ اسلامی تاریخوں
سے بھی کیا جاسکتا ہے خاتم النبینﷺ نے علم کے بارے میں کیا فرمایا۔مفہوم ہے
کہ جب غزوات میں جنگی قیدی گرفتا ر ہوئے تو ان کو تو فدیہ لے کر چھوڑا گیا
جن کے پاس مال نہیں تھا تو انکے ذمہ لگایا گیا کہ وہ مسلمانوں کے دس بچوں
کوپڑھنا لکھنا سکھائیں گے اور اس کے بدلے رہائی پائیں گے۔ کیا اب حالات
معازاللہ اس سے بھی بڑھ کر ہیں تو اس کا مطلب ہے بالکل نہیں۔
علم کا ایک اپنا معیا ر ہے،علم تو نور ہے جو کہ راستہ بتاتا ہے۔علم
پیغمبروں کی میراث ہے۔اس لئے ہمیں چاہیے کہ تعلیم کوایمانداری سے حاصل
کریں۔ امتحانات دینے سے نہ گھبرائیں بلکہ عزم بلند رکھیں۔
اب اگر تعلیم کے حوالے سے بات کریں دوسری جنگ عظیم کی تواس وقت بھی چند
شہروں میں جنگ صرف اس وجہ سے نہ ہوئی کہ وہاں پر علم کی اشاعت ہوتی ہے وہ
شہر تھے آکسفورڈ اور کیمبرج جہاں پر بوڑھی عورئیں اور بچے جننے والی خواتین
نے پنا ہ حاصل کی۔ شیر خوار بچوں کو بھی یہاں منتقل کیا گیا کیونکہ مغرب
والے بھی اسلام کی وجہ سے علم کی حقیقت جان چکے تھے سو اسی وجہ سے وہاں جنگ
نہ ہوئی اور لوگ محفوظ رہے۔
تنقید برائے اصلاح کو پزیرائی ملتی ہے اور تنقید برائے طنز کردار کے معیا ر
کو ظاہرکرتی ہے۔دعا ہے کہ اللہ تعالی اپنے حبیب ﷺ کے اسوہ حسنہ پر چلنے کی
توفیق عطافرمائیں اور اس وبا ء سے ہر انسان کو محفوظ فرمائیں۔امین
|