اللہ کریم نے انسان کو بنایا تو فرشتوں سے کہا کہ اسے
سجدہ کرو وہ سجدہ ریز ہو گئے، رب العزت نے انسانیت کے درس کو مختلف انبیاء
کرام کے ذریعے خاتم النبین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر لا ختم کیا، یعنی
اللہ کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انسانیت کو ایک مکمل ضابطہ
حیات دے دیا۔ لیکن اس کے باوجود آج کا انسان اتنا ظالم، متکبر اور لاپرواہ
کیوں نظر آرہا ہے؟ آقائے دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی زندگی
بطور نمونہ پیش کی، مکہ سے مدینہ ہجرت کی،مواخات کا درس عملی طور پر دیا۔
صحابہ کرام ؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کے مطابق لبیک کہا۔۔۔
لیکن اہم ا سلامی جمہوریہ پاکستان بھی اپنے آپ کو ایک اسلامی ریاست ہونے کا
دعویٰ کرتی ہے، لیکن پھر بھی انسانیت کی تذلیل اور استحصال کا شکار کیوں
ہے؟جب سے کورونا وارد ہوا ہے، پاکستانی قوم ایک بے ہنگم زندگی کا شکار ہوکر
رہ گئی ہے، جس میں سب سے زیادہ متاثرعام طبقہ سرِ فہرست ہے، اربوں کھربوں
بانٹنے کے باوجود مظلومیت کا شکار، خود کشیاں بڑھتی ہو ئی بے روزگاری رو رو
کر حکومت کی توجہ مانگ رہی ہے لیکن۔۔۔ کورونا کی زد میں نہ صرف تعلیم
متاثرہوئی ہے بلکہ تعلیم دینے والے بھی ا تنے ہی متاثر ہوئے ہیں، سوائے
سرکاری ملازمین کے، پرائیویٹ تعلیمی ادارے حکومت کے ساتھ شرح خواندگی میں
اضافہ کا باعث بننے کے ساتھ ساتھ بے روزگاری میں معاون ثابت ہو رہے ہیں،
لیکن کورونا اور حکومتی پالیسی نے پرائیویٹ تعلیم نظام کو تباہی کے داہنے
پر لا کھڑا کیا۔ عام پرائیویٹ سکول میں پڑھنے والے بھی زیادہ تران والدین
کے بچے ہیں جو دیہاڑی دار، غریب طبقہ اور متوسط طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔
حکومتی پالیسی کے مطابق تعلیمی لاک ڈاؤن جتنا طویل پکڑ رہا ہے اس میں عام
پرائیویٹ سکول کا قائم رہنا نا ممکن ہے، صرف سکول مالک ہی نہیں بلکہ اس کے
تمام تر ملازمین بھی بدحالی کا شکار ہو رہے ہیں۔ فیسوں کی عدم ادائیگی سب
سے بڑا مسئلہ سامنے آیا ہے جس سے سکول عمارت کا کرایہ اور اپنے ملازمین کی
سیلری ہے۔ فعل الوقت عام والدین کورونا کا کہہ کر فیس نہ دینے کا بہانہ
تلاش کر کے سکول والے کو ایک نئی بات سنا دیتے ہیں، سکول مالک خاموش ہو
جاتا ہے، اس طرح صرف مالک سکول کا معاشی قتل یا استحصال نہیں ہو رہا ہے
بلکہ وہ والدین جو آج کورونا کو سامنے رکھتے ہوئے فیس دینے کے اہل ہونے کے
باوجود خوش نظر آتے ہیں یہ بھی ایک ایسی مشکل کا شکار ہونے جار ہے ہیں جو
ابھی ان کو نظر نہیں آرہی، جن سکولوں میں ان کے بچے زیر تعلیم ہیں، حکومتی
استحصال کی وجہ سے اگر یہ سکول بند ہو جاتے ہیں تو ان کو مہنگے سکولوں کی
طرف رُخ کرنا پڑے گا جو ان کے بس کی بات نہ ہوگی، اس سے نہ صرف ان کے بچے
تعلیم جیسی نعمت سے محروم ہو جائیں گے بلکہ ملک کی شرح خواندگی میں بتدریج
کمی واقع ہونا شروع ہو جائے، ثابت ہوا کہ ہم نے یہودی کی پلاننگ کے کو
کندھا دے کر اپنے تعلیمی اور معاشی سسٹم کو تباہ کرنے کا بھر پور ساتھ دیا۔
اگر حکومت ان عام سکولوں کے لیے کوئی مناسب اقدام نہیں اٹھاتی تو معاشرے
میں بہت بڑا بگاڑ پیدا ہو گا، حکومت سے التماس ہے کہ براہ کرم اپنی پالیسی
کونئے سرے سے ریویو کرے اور مل بیٹھ کر کوئی مناسب حل نکالا جائے، سوشل
ڈسٹنسنگ کو مدنظر رکھتے ہوئے SOPsمرتب کرکے سکول کھولے جائیں یا پھر ان عام
سکولوں کا سروے کرتے ہوئے ان کی مالی امداد کی جائے، ایسا نہ ہوکہ عام سکول
اونر سفید پوشی کا پردہ رکھتے رکھتے، چاق نہ کر بیٹھیں جس سے معاشرے میں
بلاوجہ معاشی قتل شروع ہوجائے جسے اخلاقی، مالی، اور سیاسی طور پر سنبھالنا
یا سنبھلنا مشکل ہو جائے، حکومت ِ وقت سے درخواست ہے غریب کی بات کرنے سے
غریب کا مسئلہ حل نہیں ہوگا، اپنے خوش آمدی وزیروں اور مشیروں کے ٹولے سے
باہر نکل کر سوچنا ہو گا، ایسا نہ ہو کہ دیر ہو جائے، خاص سکول اونر تو
شاید اس بُرے وقت کا مقابلہ کر جائے لیکن عام سکول سے تعلق رکھنے والا اپنی
زندگی کی بازی نہ ہا ر جائے، یہاں تک تعلق مخیر حضرات کے راشن تقسیم کرنے
یا مالی معاونت کا ان بھانڈہ چاک ہو رہا ہے جو آئے دن خود کشیاں ہو رہی ہے۔
اگر یہ تقسیم ایک سروے کے مطابق ہو رہی ہوتی تو خودکشیاں نہ ہو رہی ہوتیں۔
یہ حضرات بھی شاید داد وصول کرنے یا آنے والے سیاسی وقت کو مدنظر رکھتے
ہوئے اپنا سیاسی کیرئیر بنا رہے ہوں۔ البتہ عام سکول مالکان کو اس مشکل وقت
میں مالی استحصال سے نہ نکالا گیا تو اس کے بہت برے اثرات سامنے آئیں
گے،عام سکول کی بقاء بہت ضروری ہے ورنہ تعلیمی اور معاشی استحصال کو قابو
کرنا مشکل ہو جائے گا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس مشکل گھڑی میں مواخات مدینہ
جیسی مثال بننے اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کو حقیقی معنوں میں اسلامی
ریاست کا ثبوت دینے کی توفیق د ے آمین۔
|