غزوان حسب وعدہ اسے لینے آرہا تھا شاپنگ پر لے جانے۔ ہلکا
پھلکا میک بھی اسکی شخصیت کے نکھار کے لئے کافی تھا۔ چند دنوں سے وہ جانے
انجانے میں اپنا خیال رکھنے لگی تھی خوبصورت تو وہ پہلے بھی تھی لیکن غزوان
کی توجہ اور محبت نے اسکی خوبصورتی کو مزید نکھار دیا تھا۔ وہ تیار ہوکر
آئی تو خالہ اور احزم آئے ہوئے تھے۔
اسلام علیکم خالہ جان۔ کیسی ہیں آپ؟ وہ سلام کرکے سائیڈ میں رکھے صوفے پر
بیٹھ گئی تھی۔آج خالہ نے اسے کھڑے ہو کر گلے نہیں لگایا تھا۔
وعلیکم السلام ۔ بھئ میں تو ٹھیک ہوں اور اپنیبہو سے ملکر تو بہت خوش ہوں ۔
انہوں نے شہزین کو گلے لگایا جو انکے ساتھ ہی بیٹھی تھی۔
جوابا وہ مسکرادی۔
احزم کی نظریں اس میں آنے والی تبدیلی کو نوٹس کر رہی تھی۔ ایسا نہیں تھا
کے وہ اسکے پیار سے بے خبر تھا اسے اچھی طرح اندازہ تھا کے مہرش کے اسکے
لئے کیا جذبات ہیں لیکن وہ تو اسکی چھوٹی بہن پر دل ہار بیٹھا تھا۔ ہاں اس
سب میں وہ یہ بھول گیا کے مہرش کے دل پر کیا گزرے گی ۔ اس نے جانتے بوجھتے
ہوئے بھی مہرش اور اپنی خالہ کی غلط فہمی دور کرنے کی کوشش نہیں کی۔ بلکہ
وہ تو شاید عادی ہوگیا تھامہرش کی توجہ کا۔ اگر اس نے اقرار نہیں کیا تھا
تو کبھی انکار بھی نہیں کیا تھا۔
شاپنگ پر جا رہی ہو؟ احزم نے پوچھا۔
ہاں۔ غزوان اور راحیلہ اسے لینے آرہے ہیں۔ جواب رخشندہ نے دیا۔
بھئ یہ تو بہت اچھی بات ہے میں بھی پوری بری اپنی بہو کی پسند سے تیار
کرونگی اب آج کل کے فیشن کا مجھے کیا پتا۔ بلکہ میری پوری شاپنگ بھی شہزین
ہی کرےگی۔ تابندہ نے پیار سے شہزین کو دیکھا۔ جوابا وہ مسکرادی۔
مہرش ایک مہمان کی طرح بیٹھی تھی آج پہلی بار اسے اپنی خالہ اور احزم سے
اجنبیت محسوس ہو رہی تھی۔ اس سے پہلے کے وہ مزید اکتاتی غزوان کی گاڑی کی
آواز آئی۔ اور وہ دل ہی دل میں شکر ادا کرتے ہوئے سب کو اللہ حافظ کہہ کر
چلی گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
راحیلہ پہلی بار ہی اس طرح مہرش کے ساتھ آئی تھی اس لئے اسکی شاپنگ کی حس
دیکھ کر حیران تھی ۔ انتہائی باریک اور نفاست سے کئے گئے کام والے ڈریسس
لئے تھے اس نے بارات اور ولیمے کے لئے۔
بھئ ماننا پڑے گا تمہاری چوائس واقعی بہت اچھی ہے۔ اس نے بلا جھجک اعتراف
کیا۔
مہرش کی ذندگی کا خوشگوار دن تھا۔ غزوان اور راحیلہ اسکی ہر بات سراہ رہے
تھے کوئی طنز نہیں تھا، کوئی بات اسے بار بار جتائی نہیں جارہی تھی۔ وہ
اتنی توجہ اور اہمیت سے واقف ہی نہیں تھی۔ آج اسکے دل سے ہر کسک مٹتی جارہی
تھی جن لوگوں کے ساتھ کی وہ خواہاں تھی انکی موجودگی سے اسے گھبراہٹ ہو رہی
تھی اور جن کے ساتھ سے وہ گھبراتی تھی انکا ساتھ اچھا لگ رہا تھا۔ وہ خوش
تھی اپنی ذندگی کے اس نئے موڑ سے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رقیہ کی سردمہری رخشندہ کو پریشان کر رہی تھی۔ جنید کو لگتا تھا کے سب ٹھیک
ہوجائے گا ہماری بیٹی سب کا دل جیت لے گی لیکن رخشندہ سمجھ سکتی تھیں کے
مہرش کے لئے سب کچھ اتنا آسان نہیں ہو گا۔ بہت عرصے بعد انہوں نے مہرش کے
چہرے پر خوشی کی چمک دیکھی تھی اور وہ اسے اداس نہیں کرنا چاہتی تھیں ۔
لیکن پھر بھی وہ اسے باتوں باتوں میں بہت کچھ سمجھا چکی تھیں ۔
اپنی پھپھو اور باقی گھر والوں کے رویے سےپریشان مت ہونا آہستہ آہستہ سب
ٹھیک ہوجائے گا ۔ وہ تینوں کپڑے پیک کر رہی تھیں۔
جی امی آپ فکر مت کریں ۔ اس نے سعادت مندی سے کہا۔
ویسے آپی سچ میں مجھے تو لگتا ہے پھپھو بہت خطرناک ساس بننے والی ہیں۔
شہزین نے ڈرایا۔
فضول باتیں مت کرو شہزین۔ رخشندہ نے اسے ٹوکا۔
بالکل سچ کہہ رہی ہوں امی۔ اب آپ خالہ کو دیکھیں میرا کتنا خیال کرتی ہیں۔
ہر چیز مجھے بتا کر اور مجھ سے پوچھ کر کرتی ہیں اور پھپھو نے تو ایک دفعہ
کال کرکے آپی سے بات نہیں کی۔
بھئ خیر سے تم تابندہ کی اکلوتی بہو ہونے جارہی ہو اور رقیہ کے تو دو بیٹوں
کی شادیاں ہیں پھر ایک بہو وہ پہلے لا چکی ہیں اور وہ بھی انکے گھر میں
انکے ساتھ نہیں رہتی۔ اس لئے رقیہ کا رویہ عجیب نہیں ہے۔
ٹھیک کہا امی آپ نے۔ لیکن تم واقعی خوش قسمت ہو شہزین خالہ تم سے بہت پیار
کرتی ہیں۔ اور میری دعا ہے تم ایسے ہی خوش رہو۔ اس نے بہن کو گلے لگایا۔ وہ
جانتی تھی شہزین ہر بات سے ناواقف ہے۔ ویسے بھی وہ ہر بات کو بھلا کر اپنی
نئی ذندگی کی شروعات کرنا چاہتی تھی۔ غزوان کی باتیں' اسکی عادتیں' اسکی
پسند نا پسندوہ جتنا غزوان کے بارے میں جان رہی تھی اتنا ہی احزم کو بھلاتی
جارہی تھی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رخشندہ اور جنید اپنی دونوں بیٹیوں کی شادی کو لیکر جہاں خوش تھے وہیں یہ
سوچ کر اداس بھی ہو رہے تھے کے ان کے آنگن میں سناٹا ہو جائے گا۔ اور یقینا
سب ہی بیٹیوں کے والدین اس کیفیت سے گزرتے ہیں۔لیکن یہاں تو معاملہ انکی
نابینا بیٹی کا تھا۔ وہ رخصت ہوکر اپنے ہی خاندان میں جا رہی تھی لیکن آج
تک لوگوں سے ملنے والی بے رخی کو بھولی نہیں تھی وہ اور اگر توجہ ملتی بھی
تھی تو ہمدردی کی بنیاد پر اور آج سب کچھ بھلا کر نئی ذندگی کے کئی خواب
سجا کر وہ اپنے والدین کے گھر سے رخصت ہورہی تھی وہ والدین جنہوں نے اس قدر
مشکلات کے باوجود اسے جینے کا ڈھنگ سکھایا اور اسے خود اعتمادی دی۔ جہاں
اسے غزوان کی محبت پر بھروسہ تھا وہیں پھپھو اور باقی گھر والوں کا دل
جیتنا اتنا آسان نہیں ہوگا اسے اندازہ تھا۔ لیکن اس قدر مشکل ہوگا یہ بھی
نہیں سوچا تھا اس نے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باقی آئندہ ۔
|