لومڑی کی دعوت

 ڈاکٹر غلام شبیر رانا
دریائے جہلم کے کنارے واقع صدیوں پرانے ساجھووال کے قدرتی جنگل میں ہمیشہ منگل کی کیفت رہتی تھی۔اس گھنے جنگل میں ایک دھوکے باز، خونخوار اور درندہ مزاج بھیڑیا رہتا تھا۔جنگل کے خرگوش ،گیدڑ ،نیولے اور ہرن اس بھیڑیے کے مظالم سے تنگ تھے ۔اس خطرناک بھیڑیے نے ایک مکار لومڑی سے پیمان وفا باندھ رکھاتھا۔اس جنگل کے ایک گوشے میں بہت سے مور بھی رہتے تھے ۔جس وقت یہ مور جنگل میں ناچتے تو ان کا رقص دیکھنے کے لیے طیورِ آوارہ غول در غول اُمڈ آتے ۔ ان موروں کارقص سفید بگلوں کو بہت پسند تھاجو قطار اندر قطار دریا کے کنارے ایک ٹانگ پر کھڑے ہو کر گردن جھکا کر پیہم کئی کئی گھنٹے آنکھیں بند کر کے تپسیا کرتے تھے۔ یہ بگلے دیکھنے میں تو بے حد حسین اور سفید تھے مگران کا باطن شبِ تاریک کے مانند بھیانک تھا۔ان میں ایک تارک الدنیابگلا بھگت بھی تھاجس کی تربیت سے بگلے شکار میں اس قدر ماہر ہو گئے تھے کہ مچھلی کے اُچھلتے بچے کو اپنی چونچ کی نوک پر رکھ لیتے اور سیدھا اپنے حلق تک پہنچا کر پھر اُسی استغراق سے کار ِجہاں کے ہیچ ہونے پر غور کرنے لگتے ۔بگلا بھگت اپنے محسن سارس کا بہت گرویدہ تھا جس نے چھوٹی مچھلیوں کا شکار کرنے کے سب گُر اُسے سِکھا دئیے تھے ۔دریا کے کنارے کم گہرے پانی میں ایک بوڑھے مگر مچھ کا ٹھکانہ تھا جو ضعفِ پیری کے باعث خاکی و مائی مخلوق کے شکار کی صلاحیت سے عاری تھا۔جب کوئی چھوٹی مچھلی کسی بگلے کی چونچ سے تڑپتی پھڑکتی ہوئی بچ نکلنے کی کوشش میں ہوا میں جست لگاتی تو سیدھی اس ضعیف،مضمحل اوربھوکے مگر مچھ کے جبڑوں میں چلی جاتی ۔ تڑپتی ہوئی مچھلی کو زندہ نگلنے کے بعد مگر مچھ کی گدلی آنکھیں ساون کے بادلوں کی طرح برسنے لگتیں ۔ منافع اور خسارا ایک جیسا ہونے کی وجہ سے سارس ، بگلابھگت اور مگر مچھ میں گاڑھی چھنتی تھی ۔پریشاں حالی اور درماندگی میں مگر مچھ اکثر اپنی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے سارس اوربگلابھگت سے مدد طلب کرتا۔فاقہ کش مگر مچھ کی اس التجاکے جواب میں خسیس بگلا بھگت کبھی کبھار ایک آدھ مچھلی اس کے جبڑوں کے کاسہ کی طرف اُچھا ل دیتاتھا۔ فربہ سارس کا سرخ سر ، سر مئی رنگ کے مضبوط پراور سر مئی چونچ دیکھ کر بھیڑیے نے بھی دِل ہی دِل میں اس تنومند سارس کو لقمۂ تر بنانے کی ٹھان لی ۔تیزی سے بدلتے ہوئے حالات اور موسموں کے تغیر و تبدل سے گھبرا کر بگلے تو ہجرت کر کے کسی اور جھیل ،ندی یا دریا کا ر خ کرتے مگر سارس نے ساجھوال کبھی نہ چھوڑا ۔ جنگل کا ہر بھیڑیا اپنی غذا کو متوازن اور متنوع بنانے میں بہت چُن چُن کر فیصلہ کرتا ہے ۔طیور آوارہ کے گوشت کے مزے کی باتیں سُن سُن کر ایک شام بھیڑیے نے لُومڑی سے رازدارانہ لہجے میں کہا:
’’ تمھیں معلوم ہے میں ایک عرصے سے میں ہرن ،خرگوش ،بھیڑ ،بکری ،گیدڑ اور گدھے کاگوشت کھا رہا ہوں ۔ ایک جیسی غذا کھا کھا کر اب میری طبیعت خراب رہنے لگی ہے میں اپنی غذا میں تبدیلی چاہتاہوں اب تو کسی پرندے کی کھال ادھیڑنے اور اس کا گوشت کھانے کے لیے میں بے چین رہتاہوں ۔تم کسی طرح سارس اور بگلا بھگت کو اپنے ہاں بلاؤ پھر دیکھنا میں کس طرح اِن کی لمبی اُڑان کا قصہ تمام کرتا ہوں۔سارس کی گردن ،پنجے اور آنتیں تمھیں ملیں گی جب کہ باقی گوشت میری دوا میں استعمال ہو گا۔‘‘
اپنی چکنی چپڑی باتو ں سے عیار لومڑی نے بگلا بھگت اور سارس کواپنی غار میں ایک دعوت پر بلانے پر آمادہ کر لیا۔غار سے کچھ دُور بھیڑیا ڈیہلوں سے لدی کریروں کے ایک جھنڈ میں چھپ کر لیٹ گیا۔لومڑی نے ایک پلیٹ میں پدی کا شوربہ ڈالا اور اپنے دونوں مہمان طیور کو پیش کیا ۔سار س اور بگلا بھگت نے پلیٹ پر سرسری نگاہ ڈالی اور ان کی چونچ بھی اس شوربہ میں تر نہ ہو سکی ۔دیکھتے ہی دیکھتے لومڑی پلیٹ کا سب شوربہ چٹ کر گئی ۔سارس اور بگلا بھگت کی جوڑی لومڑی کی دعوت دیکھتی کی دیکھتی رہ گئی ۔ اپنی کالی ز بان سے سارا شوربہ چاٹ لینے کے بعدلومڑی نے اپنے دونوں مہمانوں سے پوچھا:
’’ سچ سچ بتاؤ آج کی دعوت میں پدی کا شوربہ کیسا رہا۔ کالا باغ کی اس پدی کو تمھاری خاطر دبوچنے کے لیے میں نے بہت پاپڑ بیلے ہیں اور پدی کو بہت سبز باغ دکھائے ہیں۔‘‘
سار س اور بگلا بھگت نے مِل کر کہا:
’’ واہ! کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ ۔کل تم ہمارے ہاں آنا اور دعوت ساجھووال سے لطف اندوز ہونا۔‘‘
جوں ہی سارس اور بگلا بھگت لومڑی کی غار سے باہر نکلے پہلے سے طے شدہ مکروہ منصوبے کے مطابق بھیڑیااُن طیور آوارہ پر جھپٹامگر اپنی پھرتی کی وجہ سے وہ طیوربچ کر لمبی اور اُونچی اُڑان بھرنے میں کامیاب ہوگئے ۔سارس اور بگلا بھگت کی چونچ کا دیا کام آ گیا اور دونوں پرندوں کا پر بھی بیکا نہ ہوا۔
سا ر س اور بگلا بھگت کی پرواز کے بعدلومڑی اور بھیڑیا دُم دبا کر بھاگ گئے اور کچھ دُور جا کردَم لینے لگے۔ اگلی شام سار س اور بگلابھگت کی دعوت پر لومڑی خوب بن سنور کر دریاکے کنارے پہنچی ۔بھیڑیابھی پیلوں کے ایک نزدیکی گھنے درخت کے نیچے ایک گڑھے میں چھپ گیاتا کہ جست لگاکر ان طیور آوارہ کو دبوچ لے ۔
لومڑی آہستہ آہستہ قدم اُٹھاتی ہوئی سارس اور بگلا بھگت کے قریب پہنچی۔اس نے کل کی دعوت میں بھیڑیے کی دھونس اور حملہ پر معذرت کی اور کہا:
’’اپنی فطری گرگ آشتی کی وجہ سے ساجھووال کے بھیڑیے دنیا بھر میں بدنام ہیں ۔میری ماں مکروال سے تعلق رکھتی ہے جو بھی مجھے جُل دینے کی کوشش کر ے گاوہ اپنی آگ میں جَل کر راکھ ہو جائے گا۔اب جلدی سے اپنا دستر خوان سجاؤ ۔مجھے بہت بھوک لگی ہے کل شام سے کھانے کو کچھ نہیں ملا ۔‘‘
عیار لومڑی کی چرب زبانی اور چٹور پن کا احوال سُن کر سار س نے کہا :
’’ آج ہم نے تمھاری پسندید ہ غذا تیار کی ہے ۔مکئی کے اُبلے ہوئے پیلے پیلے دانے ،اُن پر لیموں ،نمک ،مرچ اور اٹھارہ مصالحوں سے مکئی کے دانوں کا مزہ بہت بڑھ گیا ہے ۔‘‘
’’ اب جلدی سے لے آ ؤ اُبلی ہوئی مکئی کے دانے ۔‘‘ میرے منھ سے تو جھاگ بھرا پانی بہنے لگا ہے ’’ اب زیادہ دیر تک مجھے سے صبر نہیں ہو سکتا۔‘‘
سارس ایک بڑی صراحی لایا اور سامنے رکھ دی۔اس صراحی کی تہہ میں اُبلی ہوئی مکئی کے دانے پڑے تھے ۔سار س اور بگلا بھگت باری باری تنگ منھ والی صراحی میں سے اپنی اپنی چونچ میں اُبلی ہوئی مکئی کے دانے اُٹھاتے اور نگل جاتے۔لومڑی نے یہ حال دیکھا تو آگ بگولا ہو گئی ۔وہ جان گئی کہ گزشتہ روز کی دعوت میں اپنے کیے کا خمیازہ اسے اب اُٹھانا پڑ رہاہے ۔غیظ و غضب کے عالم میں لومڑی نے پنجہ مار کر صراحی کو گرانے کی کوشش کی ۔اچانک دریا کے کنارے اُگی گھاس میں حرکت پیدا ہوئی ۔گھاس میں چھپے مگر مچھ نے عیار ،دغاباز اور ٹھگ لومڑی کو دبوچ لیا اور دریا کے گہرے پانی میں غائب ہو گیا۔ نا ہنجار بھیڑیے نے عیار لومڑی کے نہ ہونے کی ہونے دیکھی تو اس نے دریا کے کنارے رکھی صراحی پر جست لگا دی ۔پکی مٹی کی صراحی سے بھیڑیے کا سر ٹکرایا اور وہ چکر ا کر دریا میں نہنگوں کے نشیمن میں جا گرا ۔ عداوت کی صورت میں دی جانے والی لومڑی کی دعوت کا حسا ب چکانے کے بعدسارس اور بگلا بھگت لمبی اور اُونچی اُڑان بھر گئے ۔
 

Ghulam Ibnesultan
About the Author: Ghulam Ibnesultan Read More Articles by Ghulam Ibnesultan: 277 Articles with 610147 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.