قرآن پاک میں 13 سورتوں اور 23 آیات میں کسی نہ کسی
حوالے سے یتیم کا ذکر آیا ہے.
اﷲ تعالی یتیم کے مال کی حرمت کے بارے میں رہنمائی کرتے ہیں کہ یتیم کے مال
کے قریب نا جاؤ مگر وہ جو پسندیدہ ہوں کہ تم اس کے مال کی حفاظت کرو اور اس
کو کسی کاروبار میں لگا دوں کہ محفوظ رہے اور شاید کچھ بڑھوتی بھی ہو جائے.
یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تم اس کا اپنے کاروبار میں ملالو, سورۃ البقرہ آیت
نمبر 220 سورۃ النساء آیت نمبر2,6 سورۃ الانعام آیت نمبر 154 میں اس بارے
میں رہنمائی ملتی ہے. یتیم کے مال کی حفاظت کرو اس کو ضائع ہونے سے بچاؤ اس
کی تفسیر سورہ کہف آیت نمبر82 میں حضرت موسی علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ
السلام کی بستی کی دیوار کے تعمیر کے ذریعے سمجھائی جبکہ بستی والے تو انکی
ضیافت سے بھی انکاری تھے حضرت خضر نے اس کی وجہ یہ بتائی کہ دیوار کے نیچے
دو یتیم بچوں کا خزانہ دفن ہے دیوار گرائی جاتی ہے گر گئی تو کوئی خزانہ
نکال لے جائے گا اس لئے تعمیر دیوارکی یہ خزانہ محفوظ رہے اور بچے بڑے ہوکر
اس کو نکال سکیں۔ یتیم جوان ہو جائے سمجھدار ہو جائے تو مال ان کو لوٹا دو۔
اپنے قبضے میں نہ لیے رکھو۔ سورۃ بنی اسرائیل آیت نمبر 34 سورۃ الانعام آیت
نمبر152 یہ سمجھا دیا ہے۔ یہ تنبیہ کردی ہے سورۃ النساء آیت نمبر 6,2میں
یتیم کا مال خراب سے نہ بدل دو جلدی جلد نہ کھا جاؤ کہ بڑا ہو جائے گا تو
واپس کرنا ہوگا۔
سورۃ النساء آ یت نمبر 127 میں یتیم بچوں کی پرورش اور ان کے مال کی حفاظت
کے لیے دو دو،تین تین اور چار چار عورتوں سے نکاح کر لینے کو کہا۔ یتیم کے
مال کھانے والے کے لئے سورۃ النساء آیت نمبر 10 میں سخت تنبیہہ کی گئی کہ
یہ اپنا پیٹ آگ سے بھرتے ہیں۔
یتیم کی مالی حیثیت کو مستحکم کرنے کے لیے اﷲ تعالی نے سورۃ انفال آیت
نمبر41 میں غنیمت میں یتیم کا حصہ رکھا، اس سے بڑھ کر مال میں سے یتیم کا
حصہ مقرر کردیا، اس کی وضاحت سورۃ الحشر کی آیت نمبر 7 میں ملتی ہے بلکہ
سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 8 میں یہ بھی فرمایا کہ وراثت کی تقسیم کے مواقع
پر بھی یتیم کو کچھ دے دو۔ سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 177 میں جہاں اﷲ تعالی
نیکی کی تعریف بتاتے ہیں کہ نیکی یہ نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق و مغرب کی
طرف کر لو بلکہ وضاحت فرمائی کہ ان میں ایک بڑا کام یتیموں پر مال خرچ کرنا
ہے۔
سورۃ البقرہ کی ہی آیت نمبر 215 میں پھر یہ تلقین کی کہ تم یتیم پر مال خرچ
کرو کسی کی محبت میں یتیم کو کھانا کھلانے کی طرف سورۃ دہر کی آیت نمبر 8
میں ترغیب دلائی۔سورۃالفجر آیت نمبر 17 میں بڑی اہم بات فرمائی گئی کہ تم
یتیم کی قدر و اکرام نہیں کرتے،حالانکہ رب نے ان کے ذریعے تمہارے لئے اجر
کے بہت سارے مواقع رکھے۔یتیم کو بے سہارا جان کر اس کی عزت میں کمی نہ کرو
بلکہ زیادہ خیال رکھو کہ اس کی دل آزاری نہ ہو،جو یتیم کو د اس دیتا ہے اس
سے سورۃ المؤمن آیت نمبر 2 میں ناراضگی کا اظہار کیا گیا.
سورۃ النساء آیت نمبر 6 میں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے لئے بھی فرمایا کہ
تمہیں یتیم تو کہا مگر تمہیں ٹھکانہ دیا کرنا، مال دیا کہ یتیم کی لئے
انتظام کرنا بھی ہمارے ذمے ہے اور ہم اس کی طرف سے غافل نہیں ہیں۔آیت نمبر
9 ہدایت کردی کہ یتیم پر سختی نہیں کرتی۔
آج اصطلاحاً یتیم اس اس مال کو کہا جاتا ہے جس میں پوری آزادی کے ساتھ دست
و دبر کی جائے۔مال دار یتیم بچوں کا مال ہتھیانے کے سو حربے ہیں اور اﷲ
تعالی نے خصوصاً جن کمزوریوں کی نشاندہی کی ہے ان کا مال اپنے مال نے
بدنیتی کی وجہ سے ملا جلا نہ لو،جلدی جلدی نہ کھاؤ، سمجھدار ہو جائیں تو ان
کے مال ان کے حوالے کر دو،الاماشااﷲ،مگر اکثر تو مال مفت دل بے رحم کی
تصویر نظر آتے ہیں۔
دو بچوں کے ماں باپ آپس میں جھگڑے،نوبت لینے اوپر تیل ڈال کر جلانے تک
پہنچی۔ماں نے اقدام کیا تو باپ نے بھی کہا میں بھی اتنا ہی تنگ ہوں، میں
بھی تمہارے ستانے کی وجہ سے اپنی زندگی ختم کرتا ہوں اور وہ واقعی ایک موقع
پر ہی اور دوسرا ہسپتال جاکر چند دن بعد فوت ہو گیا۔سجا سجایا گھر یکدم
لاوارث ہوگیا، تو گھر کی اشیاء کی بندر بانٹ ہو گئی۔ بچے رکھنے کی باری آئی
تو کوئی دو بچوں کا بوجھ اٹھانے کو تیار نہ تھا کہ ان کے اعلٰی معیار زندگی
متاثر ہونے کا خدشہ تھا۔ سات سالہ لڑکا تو چچا لے گئے۔9 سالہ لڑکی کو
ننھیال بھجوادیا گیا پھر جلد ہی انکشاف ہوگیا کہ لڑکا انتہائی بدتمیز ہے،
گھر رکھنے کے قابل نہیں ہے، لہٰذا اس کو مدرسہ داخل کروادیا گیا۔اخراجات
اٹھانے کے لئے تو کسی کے پاس فالتو رقم نہیں تھی۔ سو ان کے گھر کو کرائے پر
دے کر مدرسے کی فیس وغیرہ ادا کی جائے گی۔بیٹی جھوٹا بچا کھا کر دوسروں کے
اترے کپڑے پہن کر جس رشتے دار کو ضرورت ہوتی، مختلف گھروں میں رہ رہ کر
جوان ہوگئی اور پھر کسی خداترس نے شادی کروا دی۔
گھروں میں کام کرنے کے لیے کم سن یتیم بچے لڑکے لڑکیاں بہت کم معاوضے پر
دوردراز کے گاؤں دیہاتوں سے بآسانی مل جاتے ہیں۔دن رات کام کرنے والے ان
بچوں سے کام لینے کی وجہ نہیں ہوتی اور دست درازی کرنے سے کوئی روکنے والا
نہیں ہوتا۔ کئی داستانیں سننے کو ملتی ہیں لیکن اسی معاشرے میں ایسے بھی
لوگ ہیں جو یتیم کے ساتھ سلوک میں بہت محتاط ہوتے ہیں۔ ان کو اپنے بچوں کی
طرح کھلاتے، ہنساتے اور تربیت کرتے ہیں اور پھر ان کو بیاہتے ہیں۔ اور وہ
یہ سب رب کی طرف رضا کے لئے کر رہے ہوتے ہیں۔
یتیموں پر مال خرچ کرنے والے بھی،کئی'' مخیر''دیکھے,دل کھول کر خرچ کرتے
ہیں ماہانہ بھی دیتے ہیں ان کی تعلیمی و دیگر ہنگامی ضروریات بھی پوری کرتے
ہیں اور نتیجتاً ان کے مال کی بڑھواتی اور برکت واضح طور پر محسوس ہوتی
ہے۔جس مال سے یتیم پر خرچ ہو،جس گھر میں یتیم عزت کے ساتھ پلے،اس گھر میں
خوشحالی اور برکت آتی ہے۔ لوگ کہتیبھی ہیں اور دیکھائی بھی دیتا ہے۔
اس کا برعکس بد سلوکی،دلوں میں منافقت اور مال میں بے برکتی کا باعث بنتی
ہے۔ایک رویہ جنت کو قریب کرنے کا ہے۔اور دوسرا رویہ جنت کو دور کرنے کا ہے۔
رب اس کا فہم عطا فرما دے۔
منجانب
ڈاکٹر کوثر فردوس
|