ریاست مخالف عناصراپنی کاروائیوں میں اچانک تیزی لائے
ہیں،بلوچستان سے قبائلی علاقوں تک شدت پسندانہ کاروائیوں میں اضافہ دیکھنے
میں آیاہے جس کے جواب میں ریاست اورریاستی اداروں نے بھی مختلف کاروائیاں
کی ہیں ،گزشتہ ہفتے سیکورٹی اداروں نے قلات اور خاران کے درمیانی علاقے شور
پارود میں ایک جھڑپ کے دوران کالعدم بلوچ عسکریت پسندتنظیم بلوچستان لبریشن
آرمی (بی ایل اے )کے دہشت گردوں شہدادبلوچ، سرمچار شاہ داد بلوچ عرف درا
اور احسان بلوچ ہلاک کردیا،مزے کی بات یہ کہ ایک برس سے مامے قدیر کی لسٹ
میں ان کولاپتہ قرار دیکر بازیابی کا مطالبہ کیا جارہا تھا ان کی ہلاکت پر
بی ایل اے اورپی ٹی ایم نے حسب معمول سیکورٹی اداروں اورریاست مخالف
پروپیگنڈہ شروع کیاہواہے سوشل میڈیاپرایک ہنگامہ برپاہے ان کی ہلاکت کو
شہادت قراردے کرسوشل میڈیااکاؤنٹس پران کی تصاویرشیئرکی جارہی ہیں اور ان
دہشت گردوں کوخراج تحسین پیش کیا جارہاہے ۔
اسی طرح لال مارچ کی ایک آرگنائزر عروج اورنگ زیب نے ٹویٹ کیاکہ قائد اعظم
یونیورسٹی کے دو طالب علم سیکورٹی فورسز نے قلات میں قتل کردئے ۔عروج
اورنگزیب کاپی ٹی ایم سے بھی قریبی تعلق ہے ۔عروج کی ایک اورساتھی ندا
کریمانی اورپی ٹی ایم کے تمام سوشل میڈیا ایکٹوسٹ عارف وزیر کے تصاویر والی
ڈی پی لگاکراوربلوچ دہشت گردوں کی آڑلے کرریاست مخالف پروپیگنڈہ کرنے میں
مصروف ہیں یہ باورکرایاجارہاہے کہ بلوچ عسکریت پسندمعصوم ہیں ،
سوال یہ ہے کہ آخروہ کون سی طاقت ہے جوپڑھے لکھے بلوچ اورپشتون نوجوانوں
کوگمراہ کررہی ہے انہیں ریاست مخالف کاروائیوں پرمجبورکررہی ہے ،ان کے ذہن
میں ریاست کے خلاف نفرت کازہرگھول رہی ہے ؟شہداد بلوچ کے دوست اوراساتذہ
بھی اب یہ سوالات اٹھارہے ہیں کہ شہداد بلوچ جو سی ایس پی افسر بننے کا
خواہش مندتھا یہ نوجوان کیسے عسکریت پسندی کے سائے میں چلا گیا؟یہ نوجوان
جانے انجانے میں ریاست مخالف عناصرطاقتوں کے منصوبوں کاایندھن بن رہے ہیں
بی ایل اے اورپی ٹی ایم جیسی تنظیمیں ان کی سہولت کارہیں،
شہداد بلوچ ولد ممتاز کا تعلق بلوچستان کے علاقے تربت سے تھا۔انھوں نے قائد
اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں ڈیفینس اینڈ سٹریٹیجک سٹڈیز میں ماسٹر کی
ڈگری حاصل کی اور حال ہی میں ایم فل کی ڈگری کے لیے شعبہ نیشنل انسٹیٹیوٹ
آف پاکستان سٹڈیز میں داخلہ لیا تھا ان کے ساتھ ہلاک ہونے والے احسان بلوچ
اسی یونیورسٹی کے شعبہ جینڈر سٹڈیز کے طالب علم تھا، شہداد بلوچ قائد اعظم
یونیورسٹی میں بلوچ سٹوڈنٹس کونسل کے جنرل سیکریٹری منتخب ہوا، چندماہ قبل
یونیورسٹی میں طلبہ تصادم میں وہ زخمی بھی ہوا۔سوشل میڈیا پر وہ قائد اعظم
یونیورسٹی کے علاوہ پنجاب یونیورسٹی اور بلوچستان یونیورسٹی میں بھی بلوچ
طلبہ کے حقوق کی آڑمیں ریاست مخالف پروپیگنڈہ کرنے میں مصروف تھا
اورپھریہاں سے وہ ریاست مخالف قوتوں کے چنگل میں پھنس گیا ،
پشتون تحفظ موومنت کاتویہ المیہ ہے ان کاکوئی ر ہنماء آپسی لڑائی میں
ماراجائے تویہ ریاست پرالزام لگاکرپروپیگنڈہ شروع کردیتے ہیں گزشتہ دنوں
جنوبی وزیرستان میں عارف وزیر قاتلانہ حملہ میں مارے گئے ،ایک طرف تو جہاں
عارف وزیر پر حملے کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے لیکن دوسری جانب ان کے قتل
پر سیاست اور پاکستانی سیکیورٹی اداروں پر بلاوجہ تنقید اس سے بھی زیادہ
افسوسناک ہے اور وہ تنقید ممبرقومی اسمبلی علی وزیر کی جانب سے دیکھنے میں
آئی حالانکہ علی وزیراورعارف وزیرکے درمیان پٹرول پمپ میں حصے داری
اوردیگرمالی امورپراختلافات چلے آرہے تھے،مگرریاست پرالزام آسان ہے اس لیے
چھٹ سے یہ الزام داغ دیا ۔حالانکہ پی ٹی ایم کی ریاست مخالف سرگرمیوں کی
وجہ سے قبائلی علاقوں میں دہشت گر ددوبارہ سرگرم ہوچکے ہیں وہ ایک تسلسل کے
ساتھ سیکورٹی اداروں اورعوام کونشانہ بنارہے ہیں مگرپی ٹی ایم ان کے خلاف
ایک آوازتک نہیں اٹھاتی ۔حیرت انگیزبات یہ ہے کہ منظورپشتین کا بھی عارف
وزیرکے قتل کے حوالے سے کوئی بیان سامنے نہیں آیاپی ٹی ایم میں جب سے
اختلافات کی خبریں آئی ہیں اس وقت سے منظورپشتین نے چپ کاروزہ رکھا ہواہے ۔
گزشتہ ایک ماہ میں قبائلی علاقہ جات میں قتل کے کئی واقعات رونما ہوئے ،
3اپریل 2020کو عبد الولی خان کا قتل ہوا ، 3مئی کو مولانا مراد علی
کوماردیاگیا، 3اپریل کو ہی علی خان کا قتل اور26مارچ کو دو بچوں کوقتل
کردیاگیا اسی طرح 31مارچ کو گلزار کا قتل اور ایسے ہی 16دیگرلوگ مارے گئے
،ان تمام افرادکے لواحقین نے ریاست کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا مگر وہ ایک
حملہ جو عارف وزیر پر ہوا اس حملے میں ابھی وہ زندگی اور موت کی کشمکش میں
تھا کہ اس پر سیاست شروع کر دی گئی ، اس کے اپنے کزن علی وزیر کو تو ریاست
کیخلاف بے بنیاد الزامات داغنے کی اس قدر جلدی تھی کہ اس نے عارف کی چلتی
سانسوں کی بھی پروا نہ کی اورصرف زخمی ہونے کے باوجود عارف کو مردہ ڈکلیئر
کر دیا جس پر بعد میں اسے معافی بھی مانگنا پڑی۔
ریاستی اداروں کی اس طرح کے شواہدموجود ہیں کہ قوم پرست تنظیموں کا آپس میں
گہراتعلق ہے ،ویسے تویہ تمام تنظیمیں پروپیگنڈہ کے لیے سندھی ،بلوچی
اورپٹھان ہیں مگراندرسے سب ایک ہیں ان کے آپس میں رابطے ہیں اورایک دوسرے
کے سہولت کارہیں،دہشت گردانہ کاروائیوں میں ایک دوسرے کے معاون ہیں، سی پیک
اوردیگرریاستی منصوبوں کے خلاف یہ مشترکہ طورپرکاروائیاں کررہے ہیں ایک
رپورٹ کے مطابق و فاقی حکومت نے سندھ کی علیحدگی پسند تنظیم جئے سندھ قومی
محاذ اور اس کی دو شدت پسند تنظیموں پر پابندی لگانے کا فیصلہ کر لیا
ہے۔ذرائع کے مطابق جے ایس کیو ایم کے علاوہ سندھو دیش انقلابی آرمی اور
سندھو دیش لبریشن آرمی پر بھی پابندی کا فیصلہ کرلیا گیا ہے،یہ فیصلہ
انسداد دہشتگردی ایکٹ 1997 کے تحت کیا گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق حساس اداروں نے وزارت داخلہ سے رابطہ کیا ہے اور ای آر اے
اور ایس ایل اے کی سندھ اور بلوچستان میں دہشتگردی کے ثبوت فراہم کرکے
بتایا گیا ہے کہ ان عسکریت پسند گروپوں کو سیاسی جئے سندھ قومی محاز(اے) کی
حمایت حاصل ہے۔ذرائع نے یہ بھی بتایا ہے کہ مذکورہ گروپ سی پیک منصوبے کے
لئے بڑا خطرہ ہیں،ایک سرکاری افسرنے شناخت نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ
عسکریت پسند گروپوں کی کارروائیوں کے کافی ثبوت موجود ہیں اور یہ ملک دشمن
فورسز کیلئے کام کررہے ہیں۔
قوم پرستوں کی آڑمیں لبرل دہشت گردبھی متحرک ہیں گزشتہ دنوں مسلمانوں کے
ہیرو اورفاتح سندھ محمدبن قاسم کے خلاف زہریلاپروپیگنڈہ کیاگیا اورآج صدیوں
بعد ان لبرل اورقوم پرستوں کویادآیاکہ وہ راجہ داہرکی اولادسے ہیں اس لیے
ان کی طر ف سے یہ مطالبہ سامنے آیاکہ راجہ داہرکوقومی ہیروقراردیاجائے قوم
پرست اورلبرل دانشوروں کایہ المیہ ہے کہ یہ کسی بھی وقت پانسہ پلٹ سکتے ہیں
انہیں اچانک یادآسکتاہے کہ یہ توراجہ داہرکی اولاد سے ہیں،قوم پرستوں کی
طرف سے اس طرح کے بیانیے بناکرنوجوانوں کے ذہنوں کوپراگندہ کیاجارہا اوریہ
نوجوان پھرآگے چل کرشہدادبلوچ جیسے دہشت گردبنتے ہیں ۔اس لیے ضروری ہوگیاہے
کہ ملکی سالمیت اور قومی اداروں کے خلاف منفی پروپیگنڈہ کو روکنے اور ریاست
کے بیانیہ کو موثر طور پر اجاگر کرنے کے حوالے سے ریاستی اداروں کوان
شرپسندوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹناہوگا ۔
|