حضور سید عالم ﷺ اور صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم نے جب
ہجرتِ مدینہ فرمائی تو قریش نے اسی وقت سے ہی مدینہ طیبہ پر حملے کی
تیاریاں شروع کردی تھیں۔ کفار کے ان ہی عزائم کے نتیجے میں’’غزوہ بدر‘‘
اسلام کا پہلااورعظیم الشان معرکہ بپا ہوا۔ اس غزوۂ میں حضور نبی کریمﷺ
اپنے تین سو تیرہ (313) جانثارساتھیوں کے ساتھ مدینہ منورہ سے روانہ
ہوئے۔17 رمضان المبارک،جمعتہ المبارک کے دن جنگ بدرکی ابتداء ہوئی۔’’بدر‘‘
ایک گاؤں کا نام ہے جو مدینہ طیبہ سے تقریباً اسی (80)میل کے فاصلے پر ہے۔
یہاں پانی کے چند کنویں ہونے کی وجہ سے ملک شام سے آنے والے قافلے اسی مقام
پر ٹھہرا کرتے تھے۔مورخین نے اس معرکہ کو ’’غزوۂ بدر الکبریٰ‘‘ اور غزوۂ
بدرالعظمٰی‘‘ لکھا ہے لیکن اﷲ تبارک و تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں اس معرکہ
کو ’’یوم الفرقان‘‘ (یعنی حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والے دن) کے نام سے
تعبیر فر مایا ہے، یعنی یہ وہ دن ہے جب حق و باطل،نیکی و بدی اور کفر و
اسلام کے درمیان فرق واضح ہو گیا۔ قرآن مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ
ہے’’اگر تم اﷲ پر ایمان رکھتے ہو اور اس (چیز) پر جو ہم نے اپنے (محبوب)
بندے پر نازل فرمائی، جس دن دو لشکر مقابل (آمنے سامنے) ہوئے اور اﷲ ہر چیز
پر قادر ہے‘‘۔(سورۃ الانفال:آیت41) غزوہ بدر کی اہمیت تاریخ اسلام میں
مسلمہ ہے۔ اس جنگ نے چند غریب الوطن سر فروشانِ اسلام کو وہ عزم وحوصلہ عطا
کیاجس نے مستقبل کی بڑی سے بڑی قوت و طاقت کے خلاف بھی نبرد آزما ہونے کی
انہیں جرات و ہمت پیدا کردی۔ حقیقت یہ ہے کہ غزوہ بدر ہی سے اسلام کا عروج
شروع ہوا ۔ اس جنگ کی عظیم فتح نے یہ واضح کردیا تھا کہ مسلمان ایک زندہ
قوم اور عظیم قوت بن گئے ہیں ۔ مٹھی بھر مسلمانوں نے اپنے سے تین گنا زیادہ
مسلح دشمنوں کو صرف چند گھنٹوں میں راہِ فرار اختیار کرنے پر مجبور
کردیا۔یہ واقعہ ایک معجزہ سے کم نہیں تھا، چنانچہ اس عظیم واقعہ کے بعد
لوگوں کو اسلام کی حقانیت و صداقت اورا ٓفاقی پیغام رشدو ہدایت پر کامل
یقین آگیا اور لوگ جوق در جوق اسلام قبول کرنے لگے۔ اب ہم حالات حاضرہ کے
تناظر میں اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ اس عظیم معرکہ میں بحیثیت مسلمان
انفرادی و اجتماعی زندگی کیلئے کیا اسباق پوشیدہ ہیں۔ آج بھی مسلمان اس
غزوہ کے اسباق و عوامل کو اپنا کے ا اپنی نشاۃ ثانیہ کا سفر شروع کر سکتے
ہیں۔(1) پہلا سبق ہمیں مساوات کا ملتا ہے۔ مدینہ طیبہ سے روانگی کے وقت اسی
اونٹوں کا قافلہ تھا۔ یہ ضابطہ طے ہوا کہ ہر تین افراد باری باری ایک ایک
منزل تک اونٹ پر سوار ہوں گے۔حضورﷺ سپہ سالار ہونے کے باوجود اس اصول کی
پاسداری فرماتے ہوئے اپنی باری پر اونٹ پر سوار ہوتے اور پھر اتر کر پیدل
چلتے۔ (2) دوسرا سبق یہ حاصل ہوتا ہے کہ درست مشورہ ماننا سنت نبویﷺ ہے
خواہ مشیر عمر اور رتبے میں کمزور ہی کیوں نہ ہو۔ حضور ﷺ نے جنگ کے لیے ایک
جگہ منتخب فرمائی۔ لیکن حضرت حباب بن منذر رضی اﷲ عنہ نے عرض کیا کہ یا
رسول اﷲ! ﷺ جنگ کے لیے دوسری جگہ زیادہ موزوں ہے جہاں کنویں اور چشمے موجود
ہیں آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے فورا اس مشورہ کو شرف قبولیت سے نواز دیا
۔(3) بندہ مومن مشکل وقت میں اﷲ ہی کی بارگاہ میں جھکتا اور اس سے دعائیں
کرتا ہے۔ اس غزوہ کے دوران احادیث میں نبی کریم ﷺکی دس دعائیں مذکور ہیں جو
آپﷺ مختلف مواقع پر کرتے رہے۔جنہیں اﷲ کریم نے شرف قبول عطا کیا اور فتح و
کامرانی سے نوازا۔ (4) اس میں ایک سبق ا ﷲ تعالی پر توکل اور بھروسہ
ہے۔مسلمانوں کے پاس دو گھوڑے، چھ زرہیں، اسی اونٹ اور آٹھ تلواریں تھیں
جبکہ مد مقابل لشکر تعداد میں تین گنا زائد اور اسلحہ سے لیس تھا۔ اس کے
باوجود حضورﷺ کی قیادت میں اہل ایمان اﷲ کے بھروسے پر دنیا بھر کی تقدیر
بدلنے کیلئے میدان عمل میں اتر پڑے۔ بقول اقبال
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
(5) ایک سبق یہ ہے کہ لکھنا پڑھنا اتنا اہم اور ضروری امر ہے کہ اگر کفار
سے بھی مدد لینی پڑے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ جو قیدی فدیہ دینے سے
عاجز تھے انہیں یہ کہا گیا کہ تم مسلمانوں کے دس
دس بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دو تو تمہیں آزاد کر دیا جائے گا۔ (6) ایک سبق
قیدیوں کے ساتھ حُسن سلوک ہے۔ کہ صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین خود
روکھا سوکھا کھاتے اور قیدیوں کو اچھے سے اچھا کھانا پیش کرتے۔ رات کو جب
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم تک قیدیوں کی آہ و بکا پہنچی تو آپ نے ان کے لئے
آسانی پیدا کرنے کا حکم فرما دیا۔ (7) فتح و کامرانی کی خبر سن کر آپے سے
باہر ہونے کی بجائے اﷲ تعالی کی حمد و ثناء کی جائے۔ اسی کی بارگاہ میں
سجدہ شکر بجا لایا جائے رسول اﷲ ﷺ کے سامنے جب ابوجہل کے مارے جانے اور فتح
کی خبر لائی گئی تو آپﷺ نے اﷲ تعالی کی حمد و ثناء کرتے ہوئے فرمایا:
اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ صَدَقَ وَعْدَہُ وَنَصَرَ عَبْدَہُ
وَھَزَمَ الْاَحْزَاب وَحْدَہ۔ان اسباق کو سامنے رکھتے ہوئے ہم اپنے حال
اور مستقبل کو سنوار سکتے ہیں۔ ہماری اصلاحی تحریکیں کامیابی سے ہمکنار ہو
سکتی ہیں۔ اور اسلام کا درست پیام کفار تک پہنچ سکتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ ہم
صدقِ دل سے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے اس اُسوہ مبارکہ کو حرزجان بنا لیں۔
فضائے بدر پیدا کر، فرشتے تیری نصرت کو اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر
قطار اب بھی
|