اللہ تعالی نے قرآن کریم کو جہاں امت محمدیہ کی رشدوہدایت
کے لیے نازل فرمایا، وہیں اس میں بہت سے برکات بھی رکھے ہیں۔ اس کتاب میں
تدبروتفکر اور سمجھ کر پڑھنے سےانسان بخوبی نشانِ منزل کو پالیتا ہے۔ اگر
کوئی شخص عربی زبان وادب کو سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا ہے، مگر اسے پڑھنے
پر قادر ہے؛ تو ایسے شخص کو بھی اس کتاب ہدایت کی تلاوت ضرور کرنی چاہیے۔
یہ ایسی بابرکت کتاب ہے کہ اسے بغیر سمجھے ہوئے، صرف الفاظ کو پڑھنے سے بھی
آدمی اجر وثواب کا مستحق ہوتا ہے۔ ایک حدیث شریف میں تو یہاں تک آیا ہے کہ
اگر کوئی حافظ قرآن نہیں ہے اور وہ شخص قرآن کریم کی تلاوت اٹک اٹک کر،
مشقت کے ساتھ کرتا ہے؛ تو اس شخص دوگنا ثواب ملے گا۔ حضرت عائشہؓ بیان کرتی
ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "مَثَلُ الَّذِي
يَقْرَأُ الْقُرْآنَ، وَهُوَ حَافِظٌ لَهُ مَعَ السَّفَرَةِ الْكِرَامِ،
وَمَثَلُ الَّذِي يَقْرَأُ، وَهُوَ يَتَعَاهَدُهُ، وَهُوَ عَلَيْهِ
شَدِيدٌ، فَلَهُ أَجْرَانِ". (صحیح بخاری: 4937) ترجمہ: "اس شخص کی مثال جو
قرآن پڑھتا ہے؛ جب کہ وہ قرآن کریم کا حافظ ہے،(تو وہ) مکرم اور نیکی لکھنے
والے فرشتوں کے ساتھ ہوگا اور اس شخص کی مثال جو قرآن کریم پڑھتا ہےاور وہ
بار بار پڑھتا ہے؛ جب کہ وہ اس کے لیے دشوار ہے(یعنی وہ شخص حافظ نہیں ہے
اور اٹک اٹک کر پڑھتا ہے)؛ تو اسے دوگنا ثواب ملے گا"۔
قرآن کریم کی تلاوت کرنے والے کو جو اجر وثواب ملے گا، ا س کی تفصیل ایک
حدیث شریف میں آئی ہے کہ ایک حرف کے پڑھنے پر ایک نیکی ملے گی۔ پھر وہ ایک
نیکی دس گنا کردی جائے گی۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "مَنْ قَرَأَ حَرْفًا
مِنْ كِتَابِ اللهِ فَلَهُ بِهِ حَسَنَةٌ، وَالحَسَنَةُ بِعَشْرِ
أَمْثَالِهَا، لاَ أَقُولُ الْم حَرْفٌ، وَلَكِنْ أَلِفٌ حَرْفٌ، وَلاَمٌ
حَرْفٌ، وَمِيمٌ حَرْفٌ". (ترمذي: 2910) ترجمہ: "جس نے اللہ کی کتاب (قرآن
کریم) کا ایک حرف پڑھا؛ تو اس کے بدلے اس شخص کے لیے ایک نیکی ہے اور وہ
نیکی دس گنا ہوگی ۔ میں نہیں کہتا ہوں کہ "الم" ایک حرف ہے؛ بلکہ "الف" ایک
حرف ہے، "لام" ایک حرف ہے اور "میم" ایک حرف ہے"۔
اگر کوئی شخص اس قرآن کریم کی تلاوت پر قادر نہیں ہے، مگرکسی کو پڑھتے
دیکھتا ہے؛ تو رغبت ومحبت سے اسے غور سے سنتا ہے؛ تو اس پر بھی اس کو ثواب
ملے گا۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا: "مَنِ اسْتَمَعَ إِلَى آيَةٍ مِنْ كِتَابِ اللهِ
عَزَّ وَجَلَّ، كُتِبَ لَهُ حَسَنَةٌ مُضَاعَفَةٌ، وَمَنْ تَلَاهَا كَانَتْ
لَهُ نُورًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ " (مسند احمد: 8494) ترجمہ: جو شخص قرآن
کریم کی ایک آیت بھی غور سے سنے؛ تو اس کے لیے ایک نیکی لکھی جاتی ہے، جو
بڑھتی چلی جاتی ہے اور جو قرآن کریم کی ایک آیت کی بھی تلاوت کیا، وہ اس کے
لیے قیامت کے دن روشنی ہوگی۔ " ایک دوسری روایت میں ہے کہ جو شخص وضو کی
حالت میں قرآن کریم کا ایک حرف سنتا ہے؛ تو اس کے لیے دس نیکیاں لکھی جاتی
ہیں، اس کے دس گناہ معاف کیے جاتے ہیں اور اس کے دس درجے بلند کیے جاتے
ہیں۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں: "مَنْ اسْتَمَعَ حَرْفًا مِنْ كِتَابِ اللهِ
طَاهِرًا كُتِبَتْ لَهُ عَشْرُ حَسَنَاتٍ، وَمُحِيَتْ عَنْهُ عَشْرُ
سَيِّئَاتٍ، وَرُفِعَتْ لَهُ عَشْرُ دَرَجَاتٍ." (شعب الإيمان: 1918)
قرآن کریم کی تلاوت کے ساتھ ساتھ، ایک آدمی قرآنی احکامات پر عمل بھی کرتا
ہے؛ تو اللہ تعالی ایسے شخص کو جنت میں داخل فرمائيں اور اس کی سفارش قبول
فرمائيں گے۔ حدیث شریف میں ہے کہ جو شخص قرآن کریم کی تلاوت کرتا ہے، قرآن
کریم زبانی یاد کرتا ہے، اس کے احکامات پر عمل کرتا ہے؛ ایسے شخص کو اللہ
تعالی جنت میں داخل فرمائیں اور اس کے گھر کے دس لوگوں کے سلسلے میں اس کی
سفارش بھی قبول فرمائیں اور وہ دس لوگ اس کی سفارش کی وجہ سے جنت میں داخل
ہوں گے۔ حضرت علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ وَاسْتَظْهَرَهُ،
فَأَحَلَّ حَلاَلَهُ، وَحَرَّمَ حَرَامَهُ أَدْخَلَهُ اللَّهُ بِهِ
الجَنَّةَ وَشَفَّعَهُ فِي عَشَرَةٍ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ كُلُّهُمْ قَدْ
وَجَبَتْ لَهُ النَّارُ". (سنن ترمذي: 2905) ترجمہ: جس نے قرآن کریم پڑھا
اور اس کو حفظ کیا۔ پھر قرآن نے جس چیز کو حلال کیا ہے، اس کو حلال سمجھا
اور جس چیز کو حرام کیا ہے، اس کو حرام سمجھا(یعنی قرآن کے احکام پر عمل
کیا)؛ تو اللہ اس کو اس عمل کی وجہ سے جنت میں داخل فرمائیں گے اور اس کے
اہل خانہ میں سے دس ایسے افراد کے حوالے سے اس کی سفارش قبول فرمائیں گے،
جن کے لیے دوزخ واجب ہوچکی ہوگی۔
قرآن کریم کی تلاوت کے حوالے سے اور بھی بہت ساری حدیثیں ہیں، جن میں قرآن
کریم کی تلاوت کے فوائد اور اجر وثواب کو ذکر کیا گیا ہے۔ نبی اکرم صلی
اللہ علیہ وسلم کو قرآن کریم سے شغف کا یہ عالم تھا کہ کہ کبھی کبھی نفل
نماز کی پہلی رکعت میں پوری سورہ بقرہ پڑھ لیتے، دوسری رکعت میں پوری سورہ
آل عمران پڑھ لیتے، تیسری رکعت میں پوری سورہ نساء پڑھ لیتے اور چوتھی رکعت
میں پوری سورہ مائدہ یا پھر سورہ انعام پڑھ لیتے تھے۔ حدیث شریف میں ہے:
فَصَلَّى أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ، فَقَرَأَ فِيهِنَّ الْبَقَرَةَ، وَآلَ
عِمْرَانَ، وَالنِّسَاءَ، وَالْمَائِدَةَ، أَوِ الْأَنْعَامَ، شَكَّ
شُعْبَةُ. (سنن ابو داؤد: 874) ترجمہ: پس آپ صلی الہ علیہ وسلم نے چار
رکعتیں پڑھی؛ چناں چہ ان میں سورہ بقر، سورہ نساء، سورہ مائدہ یا (راوی
شعبہ کو شک ہوا) سورہ انعام پڑھی۔
قرآن کریم میں تدبر وتفکر، اس کی تلاوت اور اس کے احکامات پر عمل کرنے کے
متعدد فضائل وفوائد، انعامات وبرکات اور اجر وثواب احادیث شریفہ میں مذکور
ہیں، جن میں سے کچھ کو میں نے یہاں ذکر کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم کے
ساتھ ہمارے اسلاف واکابر کی دل چسپی حیران کن تھی۔ قرآن کریم کے ساتھ علماء
وصلحا کا شغف قابل رشک تھا۔ آج اگر قرآن مجید کے ساتھ ان اکابر واسلاف کے
تعلق ورشتہ کو ذکر کیا جائے؛ تو لوگوں کو بہت تعجب ہوگا۔ ہم یہاں چند اسلاف
واکابر اور علماء وصلحاء کی قرآن کریم کے ساتھ تدبر وتفکر اور قرات وتلاوت
کی حقیقت کو ذکر کرتے ہیں۔ ممکن ہے کہ اسے پڑھ کر ہمیں بھی حوصلہ ملے اور
بتوفیق خداوندی ہم بھی اپنی آخرت سنوارنے کے لیے اپنا رشتہ قرآن کریم سے
مضبوط کرنے کی فکر کریں۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ خود اپنے بارے میں فرماتے ہیں کہ وہ ایک رات میں
ایک قرآن کریم ختم کیا کرتے تھے۔ سلف وصالحین کی ایک جماعت کے بارے میں بھی
یہی بات منقول ہے۔ (غذاء الألباب في شرح منظومۃ الآداب 1/ 403)
سعید بن جبیر اسدی رحمہ اللہ تابعی ہیں۔ آپ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ
عنہما کے شاگردوں میں سے ہیں۔ آپ تفسیر وفقہ کے امام شمار ہوتے تھے۔ آپ کے
بارے میں کہا جاتا ہے کہ آپ مغرب وعشاء کے دوران نماز میں ایک مکمل قرآن
ختم کرلیتے تھے۔ آپ خانہ کعبہ میں بیٹھ کر، ایک بیٹھک میں پورا قرآن ختم
کرلیتے تھے۔ کبھی کبھی آپ خانہ کعبہ میں ایک رکعت میں پورا قرآن ختم کرلیتے
تھے۔ (البدایۃ والنہایۃ 9 / 116)
امام احمد بن حنبل (780 – 855ء) کے صاحبزادے عبد اللہ فرماتے ہیں: "میرے
والد ہر دن ورات میں تین سو رکعات (نوافل) پڑھتے تھے۔ پھر جب ان کوڑے کی
وجہ سے بیمار ہوئے جس نےان کو کمزور کردیا تھا؛ پھر دن ورات میں ایک پچاس
رکعات (نوافل) پڑھتے تھے؛ جب کہ آپ (کی عمر) اسّی برس کے قریب تھے۔ ہر دن
(قرآن کریم کا) ساتواں حصہ پڑھتے اور سات دنوں میں ایک قرآن ختم کرتے تھے
اور آپ ہر سات راتوں میں بھی ایک قرآن ختم کرتے تھے"۔ (صفۃ الصفوۃ 1/484)
محمد بن عبد اللہ بن شاذان فرماتے ہیں: "کہا جاتا ہے کہ کنانی (ابو بکر
محمد بن علی بن جعفر کنانی) نے طواف کے دوران بارہ ہزار مرتبہ قرآن کریم
ختم کیا۔" (صفۃ الصفوۃ 1/539) کنانی اصلا بغداد کے تھے۔ آپ نے مکہ مکرمہ
میں سکونت اختیار کرلی تھی۔ آپ کی وفات مکہ مکرمہ میں ہی ہوئی۔
حمانی فرماتے ہیں: "ابو بکر بن عیاش کی وفات کا وقت قریب آیا؛ تو ان کی بہن
رونے لگی۔ پھر انھوں نے اپنی بہن سے کہا: کس وجہ سے رو رہی ہو؟ گھر کے اس
کونے کی طرف دیکھو۔ اس کونے میں تیرے بھائی نے اٹھارہ ہزار دفعہ قرآن کریم
ختم کیا ہے۔" (صفۃ الصفوۃ 2/96) ابو بکر بن عیاش کے بیٹے ابرہیم فرماتے ہیں
کہ جب میرے والد کی وفات کا وقت قریب آیا؛ تو میں ان کے پاس رونے لگا۔
انھوں نے فرمایا کیوں روتے ہو؟ کیا تمھارا خیال ہے کہ اللہ تیرے والد کو
ضائع کردیں گے جس نے چالیس سال تک ہر رات ایک قرآن ختم کیا؟" (صفۃ الصفوۃ
2/96)
حسین بن عمرو منقزی فرماتے ہیں: "جب (عبد اللہ) بن ادریس کی موت کا وقت
قریب آیا؛ تو اس کی لڑکی رونے لگی۔ پھر انھوں نے کہا: مت روؤ! میں نے اس
گھر میں چالیس ہزار دفعہ قرآن کریم ختم کیا ہے۔ (المنتظم في تاريخ الأمم
والملوك 9/ 205)
ابو عبد اللہ محمد بن یوسف بناء لوگوں کو فتوی دینے پر اجرت لیتے تھے۔ اس
اجرت میں سے ایک دانق اپنی ذات پر خرچ کرتے تھے اور باقی صدقہ کردیتے تھے۔
ہر دن ایک قرآن ختم کرتے تھے۔ چھ سو شیوخ سے استفادہ کیا اور اور بہت سی
حدیثیں حاصل کی"۔ (صفۃ الصفوۃ 2/287)
عبد العزیز مقدسی فرماتے ہیں: "میں نے بلوغ کے دن سے آج تک کا اپنا محاسبہ
کیا؛ چناں چہ میری لغزشیں چتھیس سے زیادہ نہیں ہیں۔ میں ہر لغزش کےبدلے
اللہ عزوجل سے ایک لاکھ دفعہ استغفار کیا۔ ہر لغزش کےبدلے ایک ہزار رکعتیں
پڑھی۔ ہر لغزش کے بدلے ایک قرآن کریم ختم کیا۔ اس کے باوجود بھی میں اپنے
پروردگار کے غصہ سے مامون نہیں ہوں کہ وہ ان لغزشوں کی وجہ سے میری گرفت
فرمائے"۔ (صفۃ الصفوۃ 2/395)
ابو نصر محمد بن محمد طوسی شافعی خراسان کے مفتی تھے۔ انھوں نے حدیث پر
توجہ دی اور حدیث کے لیے متعدداسفار کیے۔۔۔۔۔۔ انھوں نے رات کو تین حصوں
میں بانٹ رکھا تھا: ایک تہائی تصنیف کے لیے، ایک تہائی تلاوت قرآن کریم کے
لیے اور ایک تہائی سونے کےلیے۔ (مرآۃ الجنان 2/252) امام ابو بکر محمد بن
احمد، لوگوں کے درمیان ابن حداد سے معروف تھے۔ ان کے بارے میں منقول ہے
کہ"وہ ایک دن ناغہ کرکے روزہ رکھتے تھے اور ایک دن ورات میں ایک قرآن کریم
ختم کرتے تھے۔ (مرآۃ الجنان 2/252)
ابن عون کی یہ عادت تھی کہ ایک دن ناغہ کرکے روزہ رکھتے تھے۔ ایک ہفتہ میں
ایک قرآن ختم کرتے تھے۔ (تاريخ الإسلام ووفيات المشاہير والأعلام 9 / 461)
احمد بن عمر الباجیّ فرماتے ہیں کہ میں نے احمد بن نفیس کو کہتے ہوئے سنا:
"میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے پاس ایک ہزار بار قرآن کریم ختم
کیا۔" (تاريخ الإسلام ووفيات المشاہير والأعلام 30 / 337)
صالح بن محمد بن عبد اللہ بن عبد الرحمن ابو الفضل شیرازی فرماتے تھے کہ
میں چار ہزار دفعہ قرآن کریم ختم کیا۔ (المنتظم في تاريخ الأمم والملوك 12/
362) عبد الملک بن حسن بن احمد بن احمد بن خیرون ایک زاہد شخص تھے۔ آپ ہر
رات ایک قرآن ختم کرتے تھے۔ کثرت سے روزہ رکھتے تھے۔ (المنتظم في تاريخ
الأمم والملوك 16 / 207)
یزید بن ہارون ابو بکر بن عیاش کے بارے میں نقل کیا جاتا ہے کہ انھوں نے
اپنے پہلوؤں کو چالیس سال تک زمین پر نہیں رکھا۔ ساٹھ سال تک اس حالت میں
گذارا کہ ہر روز ایک مکمل قرآن ختم کرتے تھے۔ (البدايۃ والنہایۃ 10 / 243)
ابن حاجب کہتے ہیں: ابو الحسن السلمی فقیہ تھے۔ ایک دن و رات میں ایک قرآن
ختم کرتے تھے۔ (الدارس في تاریخ المدارس 1 / 153)
احمد ابو الحواري فرماتے ہیں: "میں قرآن کریم کی تلاوت کرتا ہوں اور اس کی
آیتوں میں غور وفکر کرتا ہوں؛ تو اس سے میری عقل حیران ہوجاتی ہے۔ مجھے
قرآن کے حافظوں پر تعجب ہوتا ہے کہ کیسے انھیں سکون سے نیند آتی ہے، کیسے
یہ ان کے لیے ممکن ہوتا ہے کہ وہ دنیوی امور میں مشغول رہیں؛ جب کہ وہ قرآن
کریم کی تلاوت کرتے ہیں۔ وہ جس (قرآن مجید)کی تلاوت کرتے ہیں، اگر اسے سمجھ
لیں، اس کے حق کو جان لیں، اس کی لذت محسوس کرنے لگیں اور اس سے سرگوشی کی
چاشنی محسوس کرنے لگیں؛ تو انھیں جو کچھ عطا کیا گیا ہے، اس کی خوشی میں ان
(کی آنکھوں) سے نیند اڑ جائے گی۔" (لطائف المعارف لابن رجب 1/ 173)
حضرت شیخ الہند مولانا محمو حسن دیوبندی کا معمول، قرآن کریم کی تلاوت کے
حوالے سے، کچھ اس طرح نقل کیا جاتا ہے: "۔۔۔۔پھر وضو فرمانے کے بعد، تلاوت
قرآن شریف، دلائل الخیرات، حزب الاعظم وغیرہ میں مشغول ہوجاتے۔ مگر قرآن
کریم بہت زیادہ پڑھتے تھے۔ غالبا روزانہ دس بارہ پارے پڑھتے تھے۔"(مفتی
عزیز الرحمن بجنوریؒ، تذکرۂ شیخ الہندؒ، ص:153)
قرآن کریم دنیا کی واحد کتاب ہے جس میں اللہ تعالی نے اپنے بندے کی فلاح
وکامیابی کے راستے بتائے ہیں۔ اس کتاب میں اللہ پاک نے اپنے بندے کے لیے
بہت سے برکات وانعامات رکھے ہیں۔ اس عظیم کتاب کی تلاوت پر اجرو ثواب طے
فرمایا ہے۔اللہ تعالی قیامت کے دن اس کتاب کے حفظ کرنے والے اور اس کتاب کے
احکامات پر عمل کرنے کی سفارش ایسے شخص کے حوالے قبول فرمائیں گے جن پر
جہنم واجب ہوچکی ہوگی۔ اس بابرکت کی کتاب کی یہ وہ خوبیاں جو دنیا کی کسی
بھی کتاب میں نہیں پائی جاتی ہے۔ اس کتاب سے ہمارا تعلق، عشق اورشغف اسی
طرح مثالی اور لازوال ہونا چاہیے جس طرح ہمارے اسلاف واکابر اور علماء
وصلحا کا تھا۔ اگر ہم ایسا نہیں کرتے ہیں، تو یہ ہماری بدقسمتی ہے۔ جو شخص
قرآن کریم کی تلاوت سے اپنے سینے کو معمور ومنوّر نہیں کرتا اور قرآن کریم
کے ان عظیم برکات وانعامات سے خالی ہے؛ تو گویا وہ شخص اس گھر کی طرح ہیں
جو اجڑا ہوا۔حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "إِنَّ الَّذِي لَيْسَ فِي
جَوْفِهِ شَيْءٌ مِنَ القُرْآنِ كَالبَيْتِ الخَرِبِ". (ترمذی: 2913)
ترجمہ: "بے شک وہ شخص جس کے پیٹ میں قرآن کریم میں سے کچھ بھی نہیں، وہ شخص
اجڑے ہوئے گھر کی طرح ہے۔ ••••
|