داستان ِ دوستاں سب سے پہلے قائدِ عوام وذولفقار علی بھٹو
سے شروع کرتے ہیں۔ کسی زمانے میں جے اے رحیم ،اور معراج محمد خان پی پی پی
کے چہیتے تصور ہوتے تھے۔جے اے رحیم پی پی پی کے جنرل سیکرٹری تھے اور پی پی
پی کا منشور انہی کی دانش کا شاہکار تھا جبکہ معراج محمد خان انتہائی
جوشیلے راہنما تھے جو پورے معاشرے کو سوشلسٹ معاشرے میں بدل دینے کی تمنا
کے اسیر تھے ۔ایک وقت ایسابھی آیا کہ قائدِ عوام نے ان دونوں کو پی پی پی
سے بے دخل کر دیا۔ ۔غلام مصطفے کھر جن کا شمار ذولفقار علی بھٹو کے انتہائی
قریبی دوستوں میں ہوتا تھا انھیں بھی ایک دن پی پی پی بے دخلی کے بعد اس کے
مدِ مقابل کھڑا ہونا پڑ ا ۔وہ پی پی پی کو گزند تو نہ پہنچا سکے لیکن ان کی
بے دخلی سے پی پی پی مخالف کیمپ میں شادیانوں کا ماحول ضرور پیدا ہوا ۔حفیظ
پیرزادہ،ممتاز بھٹو ،حنیف رامے،غلام مصطفے جتوئی اور کوثر نیازی کو بھی
پارٹی سے رخصتی سہنی پڑی ۔پی پی پی سے راہیں جدا کرنے کے بعد ان اصحاب نے
اپنی جماعتیں تشکیل دی لیں لیکن کسی کو کوئی خاطر خواہ کامیابی نصیب نہ ہو
سکی جس کی وجہ سے اکثر کو پی پی پی میں واپس آنا پڑا ۔سب کو زعمِ باطل تھا
کہ وہ اپنی دانش کے زور پر اپنی جماعت کو عوامی پذیرائی عطا کرسکتے ہیں
لیکن بوجوہ ایسا ہو نہ سکا۔ سچ تو یہ ہے کہ پی پی پی کی مقبولیت میں ان
افراد کا کوئی مالی کردار نہیں تھا۔یہ سارے قائدین ذولفقار علی بھٹو کے
ساتھی ضرور تھے لیکن پارٹی کی عوامی مقبولیت میں کسی کا کوئی کردار نہیں
تھا ۔غلام مصفے کھر ملتان کے قاسم باغ میں قاتلانہ حملے اور سانگھڑ میں
حروں کے جان لیوا وارپر ذولفقار علی بھٹو کی ڈھال بنے تھیاس لئے
پی پی پی کے کارکنوں میں ان کی بڑی قدرو منزلت تھی ۔سچ تو یہ ہے کہ پی پی
پی کی عوامی مقبولیت ذولفقار علی بھٹو کی شخصیت کے سحر پر قائم تھی جس کی
وجہ سے کھمبا نما امیدوار بھی منتخب ہوجاتے تھے۔پی پی پی ایکک طوفان تھا جس
کے سامنے کھڑا ہونا کسی کیلئے ممکن نہیں تھا اور اس منہ زور طوفان کا ناخدا
ذولفقار علی بھٹو تھا۔پی پی پی کے پاس کوئی جہانگیر ترین نہیں تھا جو اس پر
بے دریغ مال و دولت خرچ کرتا۔،۔
ابھی کل کی بات ہے جنرل پرویز مشرف سیاہ سفید کے مالک تھے اور انھوں نے
مسلم لیگ (ق) تشکیل دی ہوئی تھی اور خاندانی سیاست کے سارے اہم کردار اسی
جماعت میں شامل تھے ۔چوہدری شجاعت حسین اس جماعت کے صدر تھے لیکن اس کی
بھاگیں جنرل پرویز مشرف کے ہاتھ میں تھیں۔جنرل پرویز مشرف کی اقتدار کے
آخری ایام میں چوہدی برادران سے ان کے اختلافات نے جنم لیا۔بے اعتمادی کی
اس فضا میں چوہدری برادران اور جنرل پرویز مشرف کی راہیں جدا ہو گئیں جس سے
جنرل پرویز مشرف کے کئی دیرینہ ساتھ مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی کی صفو ں
میں گھس گے کیونکہ انھیں بتا دیا گیا تھا کہ اگلا اقتدار ان دونوں جماعتوں
کا مقدر بننے والا ہے ۔ آجکل ایک تازہ معرکہ عمران خان اور جہانگیر ترین کے
درمیان برپا ہو چکا ہے جسے اس کے حقیقی تناظر میں سمجھنے کیلئے ماضی میں
جھانکنا پڑے گا وگرنہ یہ معرکہ سمجھ میں نہیں آئیگا ۔ایک عمران خان وہ تھے
جو اقتدار سے پہلے تھے اور ایک عمران خان وہ ہیں جو اقتدار کے بعد والے ہیں
۔ اقتدار کا سر چشمہ ہونے کی جہت سے اب سارے خزانے ان کی دسترس میں ہیں۔ان
کے پاس ہیلی کاپٹرز ہیں، ہوائی جہاز ہیں ،گاڑیوں کے فلیٹ ہیں اور ریاست کی
رٹ ہے۔بادی النظر میں اب انھیں کسی کی ضرورت نہیں ہے۔کسی زمانے میں ان سب
چیزوں کا اہتمام جہانگیر ترین کے ذمہ تھا لہذا ن کی اہمیت مسلمہ تھی ۔انسان
کے ساتھ ایک المیہ یہ بھی ہے کہ وہ اپنی جیت کا کریدٹ کسی دوسرے انسان کو
تفویض کرنے کیلئے راضی نہیں ہوتا حالانکہ چند مخصوص دوستوں کی ، اعانت ،
قربانی اور جدو جہد کے بغیر جیت کا کوئی تصور نہیں ہوتا۔وہ ساتھ ہوتے ہیں
تو صحرا کی وسعتیں بھی سمٹ جاتی ہیں وہ ساتھ چھوڑ جائیں تو صحنِ چمن بھی
صحرا کا منظر پیش کرنے لگتا ہے۔قائد کی اہمیت سے کسی کو کوئی انکار نہیں
لیکن قائد وفادار اور با صفا ساتھیوں کے بغیر کوئی بڑا کارنامہ سر انجام
نہیں دے سکتا ۔قائد کو سدا ایسے با صفا انسانوں کی تلاش ہوتی ہے جو اس کے
ساتھ ہر مشکل گھڑی میں چٹان کی طرح کھڑے ہو جائیں ۔ دوستوں کی ثابت قدمی
کسی بھی نظریے کی جیت کاپہلا زینہ ہوتا ہے لیکن کم ظرف حکمران اسی زینے کو
ملیا میٹ کردیتے ہیں ۔شائد یہی احسان فراموشی ہے کہ جس شاخِ چمن پر ان کا
آشیانہ ہوتا ہے اسے کاٹنے کی حماقت کرتے ہیں۔،۔
کیا کوئی با ہوش انسان یہ باور کرنے کو تیارہو گا کہ پی ٹی آئی کی اقتدار
تک رسائی جہانگیر ترین کی کاوشوں کے بغیر ممکن تھی ؟جہانگیر ترین کے جہاز
اور مقتدر حلقوں کی سر پرستی اور نوازشوں نے پی ٹی آئی کے اقتد ار کی راہیں
آسان بنائیں ۔جہانگیر ترین لوٹے اکٹھے کر کے لاتے تھے اور ان کے گلے میں پی
ٹی آئی کا ترنگا ڈال دیتے تھے ۔یہ منظر تو ہر پاکستانی نے دیکھا ہے کہ
اقلیت کے باوجود پی ٹی آئی کی حکومت قائم ہوئی جس کا سارا کریڈٹ جہانگیر
ترین کو جاتا ہے۔جہانگیر ترین عوامی لیڈر نہیں ہیں اور نہ ہی ان کا کوئی
ووٹ بینک ہے لیکن جن کا ووٹ بینک ہے وہ ان کے حلقہِ اثر میں ہیں۔جہانگیر
ترین کو جوڑ توڑ میں ملکہ حاصل ہے اور عمران خان نے ان کی اسی خوبی کو کیش
کروایا تھا۔وہ سپریم کورٹ سے نا اہل ہوئے تو عمران خان نے ان کا بھر پور
دفاع کیا اور انھیں ایماندار اور دیانت دار ثابت کرنے کیلئے ایری چوٹی کا
زور لگا یا حالانکہ عدالتی فیصلہ کے بعددفاع کا خلاقی جواز ختم ہو چکا تھا
لیکن ترین کی نوازشوں کے سامنے عمران خان بے بس تھے۔عمران خان نے اہم
فیصلوں میں جہانگیر ترین کی معاونت پر فخر کیا لیکن جب اقتدار مستحکم ہو
گیا تو انھیں ہی قربانی کا بکرا بنا لیا ۔ حکومتی فیصلوں میں بے جا مد اخلت
کی وجہ سے جہانگیر ترین بوجھ بنتے جا رہے تھے اور پھر کچھ موقعہ پرستوں نے
عمران خان کے کان بھی بھرے اور انھیں جہانگیر ترین سے دور کرنے کیلئے
سازشوں کا جال بھنا ۔ مجھے اس بات سے کوئی غر ض نہیں کہ جہانگیر ترین کا
ماضی و حال کیسا ہے بلکہ مجھے اس بات سے غرض ہے کہ جب ان کی ضرورت تھی تو
پی ٹی آئی ان کے سامنے بچھی جاتی تھی لیکن جب ان کی ضرورت باقی نہ رہی تو
ان پر کرپشن اور اقربا پروری کے الزامات لگا کر انھیں رسوا کر دیا ۔چینی
ایکسپورٹ کرنے کی اجازت خود دی۔ سبسڈی خود دی لیکن قصور جہانگیر ترین کے سر
تھوپ دیا حا لانکہ ان کا اس سا ر ے معاملہ میں کوئی ہاتھ نہیں تھا ۔وہ
پارلیمنٹ کا ممبر نہیں تھا اور نہ ہی اس کے پاس کوئی حکو متی عہدہ تھا
کیونکہ سپریم کورٹ کے فیصکہ کی رو سے وہ کوئی عہدہ رکھ بھی نہیں سکتا تھا
۔میری رائے میں جہانگیر ترین پی ٹی آئی کے اندرونی خلفشار کا شکار ہوا ہے
جبکہ سبسڈی کے اصل محرک آزاد ہیں ۔میری رائے میں کمیشن کی رپورٹ آنے کے بعد
بیوو کریسی ذمہ دار ٹھہرائی جائیگی اور کچھ افسرن کو معطل کر دیا جائیگا
لیکن ا اشرافیہ پر کوئی ہاتھ ڈالنے کی جرات نہیں کریگا ۔ جہانگیر ترین پی
ٹی آئی میں ہی رہیں گے جس طرح پی پی پی کے اکثر ناراض لیڈر واپس پی پی پی
میں شامل ہو گے تھے حا لانکہ ان کا کردار جہانگیر ترین کی کاوشوں کے عشرِ
عشیر بھی نہیں ہے ۔جس پر احسان کرو اس کے شر سے بچو لہذا یہ کرپشن کی نہیں
بلکہ اپنے محسنوں کو نیچا دکھانے کی جنگ ہے جو ہمارے معاشرے کامعمول ہے جس
میں خود کو اصول پرست اور سچا ثابت کرنے کیلئے دوسروں کی قربانی ناگزیر
ہوجا تی ہے۔چینی سکینڈل میں ایسا ہی ہوا ہے ۔وفا دار دوستوں کو بتا دیا گیا
ہے کہ ہوشیار باش کیونکہ اقتدار کی کنجی اب میرے پاس ہے۔ماضی میں کون کیا
تھا بھول جائیے کیونکہ ان کا وقت لدھ چکا اب صرف اتنا یاد ررکھا جانا ضروری
ہے کہ طاقت کا سر چشمہ میں ہوں ۔،۔
|