تحریر:قاضی بہاء الرحمٰن
خالقِ کائنات نے ہمارے وطن عزیز کو بہت سے امتیازات و اعزازت سے نواز کر
دنیا کے دیگر ممالک پربرتر ی و انفرادیت عطا فرمائی ہے۔ ان میں سے ایک قابل
فخر انعام یہ ہے کہ موجودہ جغرافیائی حدود کے تحت پاکستان کے سوا دنیا کا
کوئی ملک ایسا نہیں جو لا الہٰ الا اﷲ محمد الرسول اﷲ کی بنیاد پر معرض
وجود میں آیا ہو، لہٰذا شروع دن ہی سے دنیا کی بڑی شیطانی طاقتوں کی نظر
میں کھٹکتا تھا ، پھر جلتی پر تیل کا کام یوں ہوا کہ ستمبر 1974 اوراپریل
1984میں پے در پے آئین پاکستان پر حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی غلامی کی
مہریں ثبت کر دی گئیں یعنی یہودو ہنود و نصاریٰ کے پروردہ اور پسندیدہ فتنے
پر پاکستان میں سخت پابندیاں لگا کر غیر مسلم قرار دے دیا گیا۔ قادیانیوں
مرزائیوں کے خلاف قانون سازی عمل میں آتے ہی اس ترمیم کو کالعدم قرار
دلوانے کے لیے عالمی طاقتوں نے پاکستان پر سفارتی دباؤ ڈالنا شروع کر دیا
لیکن پاکستان میں برسر اقتدار آنے والی ہر حکومت عوام کے انتہائی ردعمل کے
پیش نظراس بین الاقوامی دباؤ کو قبول کرنے سے بادل نخواستہ احتیاط و احتراز
کی پالیسی پر عمل پیرا رہی ۔
تبدیلی مارکہ حکمرانوں کے برسر اقتدار آتے ہی شمع رسالت کے پروانوں کو ختم
نبوت کے حوالے سے تشویش لا حق ہوئی،یہ خدشات اس وقت درست ثابت ہونا شروع
ہوئے جب حکومت نے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے ناموس اور ختم نبوت پر پہلا وار
کیا،وہ یہ کہ وزیر اعظم کو مشیر خزانہ مقرر کرنے کے لیے عاطف میاں نامی
متعصب مرزائی کے سوا پوری دنیا میں کوئی دوسرا ماہر معیشت نظر نہیں آیا،
مذہبی حلقوں کے شدید احتجاج کے باوجود شروع میں ہٹ دھرمی دکھائی گئی لیکن
بالآخر عوامی دباؤ کے سامنے جھکتے ہوئے سیاسی بیان دیا گیا کہ وزیر اعظم کو
اس شخص کے غیر مذہب ہونے کا پیشگی علم نہیں تھا۔ حیرت اس حقیقت پر ہے کہ
برسراقتدار سیاسی ٹولہ ایک جونیئر بیوروکریٹ تک کو بھی اس کی خفیہ سیاسی
وابستگی کی چھان بین کے بغیر کسی منصب پر فائز کرنے کا روادار نہیں لیکن
ایک اعلانیہ قادیانی کو ملک کے اتنے بڑے عہدے پر تعینات کرنے تک وزیر اعظم
کو اس کی مذہبی حیثیت کا علم ہی نہ ہو سکا۔
مسلمانان پاکستان کی ایمانی غیرت اور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی ختم
نبوت پرہمارے غیر متزلزل یقین کا تقاضا یہ ہے کہ ہماری منتخب کردہ حکومت
ملک کے کسی فلاحی پروگرام یا امدادی فنڈ میں قادیانی گماشتوں سے کوئی تعاون
حاصل نہ کرے لیکن حکومت نے دوسرا ظلم یہ کیا کہ بھاشااور مہمندڈیم تعمیر کے
لیے قادیانیوں سے چندہ لیا بلکہ سازش کے تحت چیک پر واضح طور پر اس فتنہ کو
مسلمانوں کا فرقہ ظاہر کیا گیا تھا۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حکام کا یہ
چیک وصول کرنا ختم نبوت کی آئینی دفعات سے انکار کے مترادف ہے۔ سوشل میڈیا
پر اس کی بھرپور مذمت کے باوجود کسی حکومتی نمائندے نے اس پر ایک بیان تک
نہیں دیا۔
کچھ ہی وقت گزرنے کے بعدایک اور حادثہ یہ رونما ہوا کہ حج فارم سے عقیدۂ
ختم نبوت کو حذف کر دیا گیا۔ وزیر مذہبی امور نے وضاحت پیش کی کہ ان کی
وزارت کے سینئر بیوروکریٹس نے حکومت کے علم میں لائے بغیر یہ کام غلطی سے
کیا جس کو درست کر دیا گیا ہے۔ آپ کی اس ’’غلطی‘‘ سے محض دو سال قبل اسی
طرح آپ کی مخالف سیاسی جماعت کے سربراہ نے وزیر اعظم کے حلف نامے سے عقیدۂ
ختم نبوت کو حذف کر نے کے بعد اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے اس کو بحال کر دیا
تھا بلکہ متعلقہ وزیر کو بھی برطرف کر دیا تھا،تو اس وقت آپ کی جماعت کے
ہمنوا لیڈر اور کارکن گستاخ رسول کا نعرہ لگانے میں مذہبی جماعتوں سے بھی
دو قدم آگے تھے ۔ آپ کی عینک اتنی سمارٹ ہے کہ اس میں سے وہ ترمیم گستاخی
رسالت کے طور پر نظر آتی تھی لیکن یہ کارنامہ محض ایک انسانی غلطی معلوم
ہوتا ہے۔
اب حال ہی میں نویں جماعت کے مطالعہ پاکستان کی درسی کتاب پر بھی تبدیلی کا
نزلہ گراتے ہوئے عقیدۂ ختم نبوت کو نکال دیا گیا ہے ۔ دوسرا ظلم یہ کہ فتنہ
ٔ مرزائیت کو مذہب کا درجہ دے کر اقلیتوں کے قومی کمیشن میں شامل کرلیا گیا
تاکہ اس دجل کو اقلیتوں کے جیسے تمام حقوق حاصل ہو جائیں، وہ ملک میں آزادی
کے ساتھ نہ صرف اپنی عبادت گاہ تعمیر کر سکیں بلکہ اپنے مذہب کی تبلیغ اور
عبادات کا حق بھی حاصل کر سکیں۔اس پر بھی حکومت نے یوٹرن لے کر اپنا فیصلہ
معطل کر دیا اور حسب سابق وزارت مذہبی امور سے وضاحت کر وا دی گئی کہ یہ
بات کابینہ کے اجلاس میں زیربحث ضرور آئی اور پانچ چھ وزراء نے اس کی حمایت
بھی کی لیکن فیصلہ نہیں کیا گیا۔ اگلے ہی روز حکومتی زرائع سے لِیک ہونے
والے ایک مبینہ نوٹیفیکیشن سے حکومتی موقف اگرچہ جھوٹا ثابت ہوا لیکن چلیں
وزیر مذہبی امور کی وضاحت کو مان لیا جائے تو بھی وزیر موصوف نے یہ نہیں
بتا یا کہ ملک کے مشکل حالات میں اہم ترین اجلاس کے ایجنڈے میں قادیانیوں
کو نوازنے کا نکتہ کس حکومتی عہدیدار نے قومی ایجنڈے میں شامل کیا۔وہ کون
سے وزراء ہیں جن کی خواہش پر کابینہ کے اجلاس میں قادیانیوں کو نرم گوشہ
دینے پربحث کی گئی۔ قوم کے روبرو ایسے حکومتی عہدیداروں کو بے نقاب کیا
جائے تاکہ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کا ہر امتی الیکشن کی پرچی پر مہر
لگاتے ہوئے خیال رکھے کہ کہیں وہ اپنے آقا صلی اﷲ علیہ وسلم کے غدار کو
تومنتخب نہیں کر رہا۔ اپنے ووٹ کی امانت کو استعمال کرتے ہوئے اپنے مذہب سے
بے وفائی تو نہیں کر رہا۔ اگر قوم کے سامنے کسی کا نام پیش نہیں کیا جاتا
تو ہر ووٹر کو سمجھ جانا چاہیے کہ فرینک گولڈ سمتھ کا نمک اپنا کام دکھا
رہا ہے۔ ابلیس کی مجلس شوریٰ کو امدادی رقم کی اگلی قسط کے لیے درخواست کی
جارہی ہے۔ عالمی شیطانوں کو خوشامدی اشارے دیے جا رہے ہیں ۔
یہ سب باتیں طنز و مزاح کا انداز نہیں مسلمانوں کے درد دل کی آئینہ دار
ہیں۔ یہ غم و غصہ ہماری دینی حمیت کا مظہر ہے۔یہ دکھ غیرت مسلم کا تقاضا
ہے۔ یہ فکر ہمارے ایمان کی بنیاد ہے کہ ہمیں ریاست مدینہ کا جھانسہ دیکر
منکرین مدینہ کو اہمیت و فوقیت دی جا رہی ہے۔ ریاست مدینہ میں تو نبوت کے
جھوٹے مدعین اور مرتدین کے خلاف قتال کی روایات اسلامی تاریخ کے ماتھے کا
جھومر ہیں۔ریاست مدینہ سے جاری ہونے والے فرمان قادیانی فتنہ کے خلاف جہاد
کا سبق دیتے ہیں۔ریاست مدینہ سے تو منکرین ختم نبوت کی سرکوبی کے احکام
جاری ہوتے تھے لیکن یہاں ان کو کمیشن کا حصہ بنا کر سر پہ بٹھانے کی باتیں
کی جارہی ہیں۔یہ تضاد ہماری آنے والی نسلوں کو دین و مذہب سے گمراہ کرنے کی
سازش ہے۔ قول و فعل کا یہ فرق اسلامی ملک کی بنیادوں میں دیے جانے والے خون
سے غداری ہے اور تحریک پاکستان کی بنیادوں میں اپنی جان نچھاور کرنے والے
بزرگوں کی روحوں سے سنگین مذاق کے مترادف ہے۔
یقینا کوئی مسلمان اپنی سیاسی وابستگی کو دین و مذہب اور ختم نبوت پر فوقیت
نہیں دے گا اور اس امر پر غور ضرور کرے گا کہ تسلسل کے ساتھ ہونے والے یہ
سب واقعات محض اتفاق نہیں ہو سکتے بلکہ موجودہ حکومتی مشینری کے عقب سے
کوئی ہاتھ آئین پاکستان کی اسلامی دفعات کے خلاف سرگرم عمل ہے۔ کوئی شیطانی
طاقت اسلامیان پاکستان کے جذبات سے کھیلنے کا موقع تلاش کررہی ہے۔ کوئی بد
باطن چور قلعۂ اسلام کی دیوار میں نقب لگانے کے لیے گھات میں ہے۔
اس صورت حال کے پیش نظر ہر مسلمان کو اپنا احتساب کرنا ہو گا۔ حضور صلی اﷲ
علیہ وسلم کے ناموس کا دفاع ایمان کا بنیادی جزو ہے،لیکن اگر منکرین ختم
نبوت کی جرأت و حجت بازی اور آپ ؐ کے مراتب و مناصب پر حملے سے ہمارا خون
نہیں کھولتا ، بندگی و شرمندگی کے احساس سے ندامت و محبت کے دو آنسو بھی
ہماری آنکھوں سے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی عقیدت کی نظر نہیں ہو سکتے،
تو ہمیں اپنے ضمیر کی نبض دیکھنا ہو گی اور اپنے گریبان میں جھانک کر جائزہ
لینا ہو گا کہ کیا ایمان کے کسی کم سے کم درجے پر قائم ہیں؟
اپنے موبائل فون یا ٹی وی کی سکرین پر گستاخان رسول کی دنیا وی شوکت و سطوت
پر نظر پڑے تو اﷲ تعالیٰ کے روبرومعافی کے دو بول ہی ادا کردیں تو شاید
ہماری کمزوری و بے چارگی کے پیش نظر وہ ہماری غفلت کو نظر انداز کردے اور
اپنی رحمت،فضل اور شفقت کے ساتھ بروز قیامت ہمیں نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم
کی زیارت و شفاعت نصیب فرما دے تب ہم آپ ؐ کے روبرو آپؐ کے ناموس کے تحفظ
کے سلسلے میں اپنی غفلت کا اعتراف کرتے ہوئے عرض کریں، ’’ یا رسول اﷲ! ہم
شرمندہ ہیں‘‘۔
|