عہد رسالت ﷺ کی جنگی مہمات کی تعداد باہتر بنتی ہے۔
پہلی جنگی مہم سریہ سیف البحر تھی جو ہجرت کے پہلے سال پیش آئی ۔ اس کا
مقصد قریش کے تجارتی قافلے سے متعلق معلومات اکٹھی کرنا تھا۔اس میں جنگ کی
نوبت نہیں آئی۔ آپ ﷺ کی آخری مہم سریہ اسامہ بن زید تھی جو گیارہ ہجری کو
حضرت اسامہ بن زید ؓ کی قیادت میں شام کی جانب روانہ کی۔ ابھی یہ لشکر
مدینہ منورہ سے باہر ہی نکلا تھا کہ آپ ﷺ وفات پاگئے جس کی وجہ سے لشکر
واپس لوٹ آیا۔اس لشکر کو دوبارہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے دور خلافت میں روانہ
کیا گیا۔ اگر ان مہمات کی تعداد کو جنگ بدر سے قبل اور بعد میں دیکھا جائے
تو یہ بالترتیب آٹھ اور تریسٹھ بنتی ہے۔ جیسا کہ سیرت کے طالب علم جانتے
ہیں کہ ’’ غزوہ ‘‘ اس مہم کو کہتے ہیں جس میں آپ ﷺ خود شامل ہوئے اور ’’
سریہ ‘‘ اس مہم کو کہا جاتا ہے جو آپ ﷺ نے روانہ فرمائی لیکن اس میں آپ ﷺ
خود شامل نہ ہوئے۔ اگر عہد رسالت ﷺ کی تمام جنگوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ
معلوم ہوتا ہے کہ باہتر جنگوں میں سے صرف اُنیس میں جنگی قیدی مسلمانوں کے
ہاتھ آئے۔ان قیدیوں کے ساتھ جو معاملہ کیا گیا ، مختصراً ملاحظہ ہو: (۱)
غزوہ بدر اور سریہ بنو فزارہ کے جنگی قیدیوں کو ’’ اما فداء ‘‘ کے اُصول کے
تحت فدیہ لے کر رہا کیا گیا۔ یاد رہے کہ غزوہ بدرکا معرکہ 17 رمضان المبارک
سن دو ہجری کو پیش آیا۔ مؤرخین اسے غزوہ بدر کبریٰ کے نام سے یاد کرتے ہیں
اور جب کہ قرآن کریم میں یوم الفرقان کے لقب کے ساتھ یاد کیا گیا ہے، یعنی
وہ دن جب حق و باطل کے درمیان فرق واضح ہوا۔ فرمان ایزدی ہے۔ ’’ اور جیسے
ہم نے اُتارا اپنے بندے پر فیصلے کے دن جس روز دو لشکر آمنے سامنے ہوئے تھے۔
‘‘ ( سورۃ الانفال : ۴۱) ۔اس معرکے میں فرزندان اسلام کی تعداد کفار مکہ کے
مقابلے میں ایک تہائی تھی اور بے سروسامانی کا عالم تھا ۔ ابوالاثر حفیظ
جالندھری فرماتے ہیں۔
تھے اُن کے پاس دو گھوڑے چھ زرہیں آٹھ شمشیریں
پلٹنے آئے تھے یہ لوگ دنیا بھر کی تقدیریں
نہ تیغ و تیر پہ تکیہ نہ خنجر پر نہ بھالے پر
بھروسہ تھا تو اِک سادی سی کالی کملی والے پر
جب کہ کفار کا لشکر عددی برتری اور جنگی سازوسامان سے لیس رعونت و غرور کے
ساتھ میدان میں اُترا لیکن اسے ایسی ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا کہ پھر کبھی
بھی اسے حق کو للکارنے کی جرأت نہ ہوئی۔ قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے۔ ’’
اور بے شک اﷲ نے بدر میں تمہاری مدد کی جب تم بالکل بے سرو سامان تھے تو اﷲ
سے ڈرو کہیں تم شکر گزار ہو۔ ‘‘ ( سورۃ آل عمران : ۱۲۳)۔ کفار کے نامور
سردار عتبہ بن ربیعہ ، ابو جہل ، امیہ بن خلف ، عاص بن ہشام ، شیبہ ، زمعہ
بن الاسود ابوالبختری اور منبہ بن حجاج مارے گئے ۔ اس کے علاوہ عباس ، نوفل
، عقیل ، اسود بن عامر ، عبداﷲ بن رمعہ اور کئی دوسرے بڑے سردار اسیر ہوئے۔
اس عظیم حق و باطل کے معرکے میں چودہ صحابہ کرام ؓ خلعت شہادت سے سرفراز
ہوئے جن میں چھ مہاجرین اور آٹھ انصار شامل تھے۔ (۲ ) تیرہ جنگوں کے قیدیوں
کو ’’ امامنا ‘‘ کے اُصول کے تحت بلا معاوضہ آزادکیا گیا۔ ان میں چھوٹی بڑی
جنگیں شامل ہیں۔ بڑی جنگوں میں غزوہ بنو قینقاع ، بنو نضیر ، حدیبیہ اور
فتح مکہ قابل ذکر ہیں۔ (۳) چار جنگیں ایسی تھیں جن میں قیدیوں کو غلام
بنایا گیا۔ ان چار جنگوں کے نام غزوہ بنو عبد المصطلق ، بنو قریظہ ، خیبر
اور حنین ہیں۔ امام بیہقی ؒ نے اپنی کتاب معرفۃ السنن والاثار میں ایسے
متعدد واقعات بیان کیے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ جب آپ ﷺ کے پاس جنگی
قیدی لائے گئے تو آپ ﷺ نے خود اپنے پاس سے فدیہ ادا کرکے انہیں آزادی عطا
فرمائی۔
اس تمہید سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت محمد ﷺ عفو و درگزر اور حُسن سلوک
جیسے مکارم اخلاق کے حامل تھے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے۔ ’’ تو انہیں
معاف فرماؤ اور ان سے درگزر کرو، بے شک احسان والے اﷲ کو محبوب ہیں ۔ ‘‘ (
سورۃ المائدہ : ۱۳)۔ اس آیت کریمہ میں اﷲ تعالیٰ نے اپنے محبوب ﷺ کو مکارم
اخلاق کی عمدہ تعلیم دی ہے۔ آپ ﷺ کا قول گرامی ہے کہ میری تعلیم و تربیت
میرے رب نے فرمائی اور خوب فرمائی۔ ارشاد ایزدی ہے۔ ’’ پس آپ چھوڑو اور
درگزر کرو۔‘‘ ( سورۃ البقرہ : ۱۰۳)۔ آپ ﷺ نے اپنی ذات کے لئے کسی سے انتقام
نہیں لیا۔ حالاں کہ آپ ﷺ کو کفار نے طرح طرح کی جسمانی و ذہنی تکالیف
پہنچائیں، بُرا بھلا کہا اور جھٹلایا لیکن آپ ﷺ نے انتقام لینے کے بجائے
معافی سے کام لیا ۔ یہی وجہ تھی کہ آپ ﷺ نے ہمیشہ جنگی قیدیوں کے ساتھ حُسن
سلوک روا رکھا۔ باوجود قدرت و طاقت کے اسیران بدر کے ساتھ بھی عفو و درگزر
اور حُسنِ سلوک کا معاملہ کیا ۔ چناچہ آپ ﷺ نے اسیران بدر کو صحابہ کرام
رضی اﷲ عنہم میں تقسیم کیا اور تاکید کی کہ ان کے کھانے پینے اور آرام کا
خیال رکھا جائے۔ جب ان قیدیوں کے بارے میں آپ ﷺ نے صحابہ کرام ؓ نے مشورہ
طلب کیا تو حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے عرض کیا۔’’ یا رسول اﷲ ﷺ ! یہ لوگ چچیرے
بھائی اور کنبے قبیلے کے لوگ ہیں ۔ میری یہ رائے ہے کہ ان سے فدیہ لے کر
چھوڑ دیں۔اس طرح جو فدیہ ہم لیں گے ، وہ کفار کے مقابلے میں ہماری قوت کا
ذریعہ بنے گااور ہوسکتا اﷲ تعالیٰ انہیں ہدایت دے، تو پھر یہ ہمارے دست
بازو بن جائیں گے۔ ‘‘ حضرت عمر فاروق ؓ نے اپنی رائے میں فرمایا کہ انہیں
قتل کرکے دشمن کی طاقت تو توڑا جائے۔ آپ ﷺ نے حضرت ابو بکر صدیق ؓ کی رائے
سے اتفاق کیا اور اسیران بدر کو فدیہ کے عوض چھوڑ دیا گیا۔ فدیہ کی مقدار
ایک ہزار درہم سے چار ہزار درہم تھی۔ جو قیدی غریب تھے ، فدیہ ادا نہیں
کرسکتے تھے اور پڑھے لکھے تھے ۔ اُنہیں آپ ﷺ نے دس دس صحابہ کو پڑھانے کے
عوض رہا فرما دیا۔اﷲ ہم سب کو احکام الٰہی و رسول اﷲ ﷺ کی پیروی اور اس پر
عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ امین۔
|