زندگی میں اچانک کوئ واقعہ کسی لمحے رونما ہوتا ہے اور
آدمی کی سوچ کا دھارا یکسر بدل دیتا ہے... اس کی ماھیتِ قلب تبدیل ہو جاتی
ہے... یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب انسان کا راہِ عمل متعین ہو جاتا ہے...ایسے
ہی دو ایمان افروز واقعات حاضرِ خدمت ہیں...
چند سال پہلے مئی کے مہینے میں کراچی شدید گرمی کی لپیٹ میں تھا...لو کے
تھپیڑے چل رہے تھے...میڈیا ھیٹ ویو کی خوفناک خبریں نشر کر رہا تھا...تقریبا
دو ہزار افراد اپنی جانیں کھو چکے تھے...ایسی شدید اور عجیب گرمی کہ انسان
کو خدا یاد آگیا تھا...اس سے پہلے اہلِ کراچی کو ایسا تجربہ نہیں ہوا تھا
اور اس پر مستزاد یہ کہ بجلی کی لوڈشیڈنگ نے پنکھوں سے چلتی ہوا گرم ہوا کو
بھی حسرتِ ناتمام کی شکل دے دی تھی...سلیم صاحب زندگی میں پہلی بار عذاب
النار کا ادنی سا نمونہ دیکھ رہے تھے...وہ دین کا فہم رکھنے والے شخص تھے
مگر خواہش کے باوجود نماز کی مکمل پابندی نہیں کر پا رہے تھے...اپنی اِس
خامی کا انہیں شدید احساس تھا...
اس دن بجلی گئ ہوئ تھی... حواس باختہ کر دینے والی گرمی سے سلیم صاحب کا
گھر میں رہنا مشکل ہو گیا تھا...صبر کا دامن چھوٹ چکا تھا....اچانک انہیں
خیال آیا کہ مسجد چلا جائے عصر کا وقت ہو چکا ہے.. پنکھے جنریٹر سے چل رہے
ہوں گے...گرمی کچھ تو کم ہو گی...گھر سے نکلے تو باہر بھی وہی عجیب و غریب
وحشتناک گرمی کا احساس... وہی سورج کی حشر سامانی....وہی بے اماں لوگ...بالآخر
وہ مسجد پہنچ گئے مگر شرمندہ شرمندہ کہ اِس بار خدا کے گھر کی نیت کچھ اور
ہی تھی...انہی ملی جلی کیفیات کے ساتھ نمازِ باجماعت ادا کر کے وہ مسجد سے
نکلنے ہی والے تھے کہ یکدم دل میں خیال آیا کہ اگر اللہ چاہے تو اِس سے بھی
زیادہ ہلاکت خیز گرمی بھیج سکتا ہے...اِس کے ساتھ ہی ان کی زبان سے بے
ساختہ کلمۂ شکر ادا ہوا...الحمدللہ....اور روح کی گہرائیوں میں اتر گیا...کہاں
وہ چھوٹتا دامنِ صبر اور کہاں یہ مقامِ شکر...مسجد سے نکل کر ابھی تھوڑی
دور گئے ہی تھے کہ ہلکی ہلکی پھوار پڑنا شروع ہو گئ...موسم اچانک ہی تبدیل
ہو گیا تھا...سلیم صاحب اِس عنایتِ خداوندی پر مجسم حیرت بن کر رہ
گئے..انہیں شکر کا مقام معلوم ہو گیا تھا...
آئیے ایک اور بصیرت افروز واقعے کی طرف بڑھتے ہیں...عدنان کافی عرصے سے
بےروزگاری کے اعصاب شکن زمانے سے گزر رہا تھا...پڑھا لکھا ہونے کے باوجود
نوکری اس کے لئے شجرِ ممنوعہ ثابت ہو رہی تھی...بیسیوں جگہ سے مسترد ہونے
کا تمغہ اس کے گلے میں لٹکا رہتا تھا...وقت گزارنا جوئے شیر لانے کے مترادف
تھا …
ایک دن وہ پارک کے بینچ پر مستقبل کی فکر میں غلطاں لیٹا ہوا تھا...یونہی
آسمان سے باتیں کرتے کرتے اس کی نظر سامنے ایک بزرگ پر پڑی جو کسی شخص سے
محوِ کلام تھے...انداز میں جوش و خروش نمایاں تھا گویا کوئ بے تابانہ اپنے
دل کی بات کئے جا رہا ہو...پارک میں لوگوں کا آنا جانا لگا ہوا تھا...عدنان
ایک بار پھر اپنی دنیا میں کھو چکا تھا کہ اک آواز نے اس کو دنیا و ما فیھا
سے خبردار کر دیا....اس نے نظر دوڑائ تو اسے پھر وہی بزرگ کسی اور شخص کے
ساتھ راز و نیاز کرتے دکھائ دئیے...یقیناً وہ اب بھی کسی ان جانی بے قراری
میں مبتلا تھے...عدنان نے سوچا معلوم کیا جائے کہ بزرگ کو کیا مسئلہ لاحق
ہے...قریب پہنچنے پر اس نے سنا...وہ بزرگ اس شخص سے کہہ رہے تھے...میں یہاں
بیٹھا اِن چھوٹے چھوٹے بلی کے بچوں کو دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ یہ
کیسے کھاتے پیتے ہوں گے...کون ان کی زندگی کا سامان کرتا ہو گا... آخر یہ
کیسے بڑے ہو رہے ہیں...ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ ایک چیل اپنی چونچ
میں گوشت کا ٹکڑا دبائے فضا میں نمودار ہوئ...اچانک وہ ٹکڑا اس کی چونچ سے
گر پڑا...بلی کے بچے پہلے ہی تیار تھے...جیسے ہی وہ ٹکڑا زمیں پر گرا انہوں
نے آناً فاناً اس پر قبضہ کیا اور اپنی پناہ گاہ کی طرف دوڑ پڑے... عدنان
یہ ماجرا بڑی حیرت سے سن رہا تھا...دل کی دنیا بدل رہی تھی اور اس کے اندر
ایک آواز گونج رہی تھی...فکر مت کر اللہ سب سے بہتر رزق دینے والا ہے...
|