ام لمؤمنین حضت عائشہ سلام اللہ علیہا
از : پیرطریقت مرد حق قلندر مجاہد عقیدہ ختم نبوت منظور غوث جلی و ہندالولی
فیض یافتہ ہیربغدادی و پیرپٹھان پروردہ نگاہ شیخ المعرفت ابوالحامد پیر
محمد امیرسلطان چشتی قادری مرکزی سیکرٹری اطلاعات ونشریات پاکستان مشائخ
کونسل و مرکزی چیف آرگنائزر جمعیعت علمائے پاکستان نیازی03016778069
’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ ایک روز رسول اﷲ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے عائشہ! یہ جبرائیل تمہیں سلام کہتے ہیں۔ میں
نے جواب دیا : ان پر بھی سلام ہو اور اﷲ کی رحمت اور برکات ہوں۔ لیکن آپ (یعنی
رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو کچھ دیکھ سکتے ہیں وہ میں نہیں دیکھ
سکتی۔‘‘ اس حدیث کو امام بخاری، امام مسلم اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔
بخاري، کتاب : فضائل أصحاب النبي، باب : فضل عائشة، 3557، و مسلم ، کتاب :
فضائل الصحابة، باب : في فضل عائشة، ؛ 2447، و ترمذي ، کتاب : الاستئذان،
باب : ما جاء في تبليغ السلام، 2693.
’’امام ابن ابی ملیکہ کا بیان ہے کہ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما نے
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے اندر آنے کی اجازت مانگی جبکہ وفات سے
پہلے وہ عالم نزع میں تھیں۔ انہوں نے فرمایا : مجھے ڈر ہے کہ یہ میری تعریف
کریں گے۔ حاضرین نے کہا : یہ تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا
زاد اور سرکردہ مسلمانوں میں سے ہیں۔ انہوں نے فرمایا : اچھا انہیں اجازت
دے دو۔ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما نے پوچھا کہ آپ کا کیا حال ہے؟
جواب دیا : اگر پرہیزگارہوں تو بہتر ہے۔ آپ نے فرمایا : ان شاء اﷲ بہترہی
رہے گا کیونکہ آپ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ مطہرہ ہیں اور
آپ کے سوا انہوں نے کسی کنواری عورت سے نکاح نہیں کیا اور آپ کی براءت
آسمان سے نازل ہوئی تھی۔ ان کے بعد حضرت عبد اﷲ بن زبیر رضی اللہ عنہ اندر
آئے تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا : حضرت عبد اﷲ بن عباس آئے
تھے وہ میری تعریف کر رہے تھے اور میں یہ چاہتی ہوں کہ کاش! میں گمنام ہوتی۔‘‘
اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔
بخاري ، کتاب : التفسير، باب : ولولا إذ سمعتموه، 4476.
’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ جب میں نے حضور نبی
اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خوشگوار حالت میں دیکھا تو میں نے عرض کیا
: یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ سے میرے حق میں دعا فرمائیں، تو آپ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے اللہ! عائشہ کے اگلے پچھلے، ظاہری و باطنی،
تمام گناہ معاف فرما (ایسا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
ازرائے مزاح فرمایا) یہ سن کر حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا اتنی ہنسیں یہاں تک
کہ ان کا سر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گود میں آ پڑا (یعنی ہنسی سے
لوٹ پوٹ ہو گئیں) اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
کیا میری دعا تمہیں اچھی لگی ہے؟ انہوں نے عرض کیا : یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ
آپ کی دعا مجھے اچھی نہ لگے، پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
فرمایا : اللہ کی قسم! بے شک ہر نماز میں میری یہ دعا میری امت کیلئے خاص
ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام ابن حبان نے روایت کیا ہے۔
ابن حبان : 7111، حاکم في المستدرک، : 6738، و ابن أبي شيبة في
المصنف،32285، والديلمي في مسند الفردوس، : 2032، و الذهبي في سير أعلام
النبلاء، 2 / 145، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 243.
’’حضرت ام ذرہ، جو کہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کی خادمہ تھیں، بیان کرتی ہیں
کہ حضرت عبد اﷲ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے دو تھیلوں میں آپ کو اسی ہزار یا
ایک لاکھ کی مالیت کا مال بھیجا، آپ نے (مال رکھنے کے لئے) ایک تھال
منگوایا اور آپ اس دن روزے سے تھیں، آپ وہ مال لوگوں میں تقسیم کرنے کے لئے
بیٹھ گئیں، پس شام تک اس مال میں سے آپ کے پاس ایک درہم بھی نہ بچا، جب شام
ہو گئی تو آپ نے فرمایا : اے لڑکی! میرے لیے افطار کیلئے کچھ لاؤ، وہ لڑکی
ایک روٹی اور تھوڑا سا گھی لے کر حاضر ہوئی، پس ام ذرہ نے عرض کیا : کیا آپ
نے جو مال آج تقسیم کیا ہے اس میں سے ہمارے لیے ایک درہم کا گوشت نہیں خرید
سکتی تھیں جس سے آج ہم افطار کرتے، حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا : اب
میرے ساتھ اس لہجے میں بات نہ کر اگر اس وقت (جب میں مال تقسیم کر رہی تھی)
تو نے مجھے یاد کرایا ہوتا تو شاید میں ایسا کر لیتی۔‘‘ اس حدیث کو امام
ابونعیم اور امام ابن سعد نے روایت کیا ہے۔
أبونعيم في حلية الأولياء، 2 / 47، و هناد في الزهد، 1 / 337، 338، و
الذهبي في سير أعلام النبلاء، 2 / 187، و ابن سعد في الطبقات الکبري، 8 /
67
عروہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا مسلسل روزے سے ہوتی تھیں۔
اور قاسم روایت کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ مسلسل روزہ سے ہوتی تھیں اور صرف
عید الاضحی اور عید الفطر کو افطار فرماتی تھیں۔
اور ان ہی سے روایت ہے کہ میں صبح کو جب گھر سے روانہ ہوتا تو سب سے پہلے
سلام کرنے کی غرض سے حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کے پاس جاتا، پس ایک صبح میں
آپ کے گھر گیا تو آپ حالت قیام میں تسبیح فرما رہی تھیں اور یہ آیہ کریمہ
پڑھ رہی تھیں (فَمَنَّ اﷲُ عَلَيْنَا وَ وَقَانَا عَذَابَ السَّمُوْمِ) اور
دعا کرتی اور روتی جا رہی تھیں اور اس آیت کو بار بار دہرا رہی تھیں، پس
میں (انتظار کی خاطر) کھڑا ہو گیا یہاں تک کہ میں کھڑا ہو ہو کر اکتا گیا
اور اپنے کام کی غرض سے بازار چلا گیا، پھر میں واپس آیا تو میں نے دیکھا
کہ آپ اسی حالت میں کھڑی نماز ادا کر رہیں ہیں اور مسلسل روئے جا رہی
ہیں۔‘‘ اس حدیث کو امام عبدالرزاق، امام بیہقی اور ابن جوزی نے روایت کیا
ہے یہ الفاظ ابن جوزی کے ہیں۔
عبد الرزاق في المصنف،: 4048، والبيهقي في شعب الإيمان 2092، وابن أبي عاصم
في کتاب الزهد، 1 / 164، وابن الجوزي في صفوة الصفوة، 2 / 31
|