کورونا وبائی مرض کی وجہ سے لاک ڈاؤن جاری ہے۔ مرض کے
پھیلاؤ کے باعث لاک ڈاؤن کا بڑھایا جانا تقریباً یقینی ہے، یعنی خدشہ ہے کہ
امسال عید الفطر کی نماز مسلمان عید گاہ یا مساجد میں ادا نہ کرسکیں گے جو
شاید تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوگا۔ اگرچہ دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ جلد از جلد اس
وبائی مرض کے خاتمہ کا فیصلہ فرمادے تاکہ جہاں مسلمان نمازِ عید مساجد یا
عیدگاہ میں ادا کرسکیں وہیں دنیا میں نقل وحرکت شروع ہوسکے۔ حکومت سے بھی
اپیل ہے کہ شرائط کے ساتھ مساجد میں نمازِ عید پڑھنے کی اجازت دی جائے۔ جب
لاک ڈاؤن میں حکومت کی اجازت سے شراب کی دکانوں پر بھاری بھیڑ جمع ہوسکتی
ہے، ہزاروں مزدوروں وطلبہ کی نقل مکانی ہوسکتی ہے اور منڈیوں وبازاروں میں
بے شمار اشیاء فروخت ہوسکتی ہیں تو سماجی فاصلہ کو برقرار رکھتے ہوئے مساجد
میں نمازِ عید کی ادائیگی بھی ممکن ہے۔ سعودی حکومت سے دوبارہ درخواست ہے
کہ حرمین شریفین میں اعتکاف کی سنت پر عمل کو یقینی بنایا جائے کیونکہ ۲ہجری
میں روزہ کی فرضیت کے بعد سے وفات تک نبی اکرمﷺ نے ہمیشہ رمضان میں اعتکاف
فرمایا۔ صحابۂ کرام، تابعین اور تبع تابعین بھی اس سنت پر اہتمام سے عمل
فرمایا کرتے تھے۔ نیز حرمین شریفین کو آخری عشرہ کی عبادت کے لئے ضروری
شرائط کے ساتھ کھول دیا جائے جیسا کہ ڈاکٹر عبدالرحمن السدیس صاحب نے ایک
ہفتہ قبل اعلان بھی کیا تھا۔ بہر حال لاک ڈاؤن جاری رہنے پر دو اہم مسائل
کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں۔
اعتکاف: ثواب کی نیت سے مسجد میں ٹھہرنے کو اعتکاف کہا جاتا ہے۔ اعتکاف میں
انسان دنیاوی مشاغل چھوڑکر اﷲ تعالیٰ کے در یعنی مسجد کا رخ کرتا ہے۔ پوری
توجہ کے ساتھ عبادت میں مشغول رہنے سے اﷲ تعالیٰ کے ساتھ جو خاص تعلق اور
قربت پیدا ہوتی ہے وہ تمام عبادتوں میں ایک نرالی شان رکھتی ہے۔ نفلی
اعتکاف تھوڑی دیر کے لئے بھی ہوسکتا ہے، لیکن مسنون اعتکاف رمضان کے آخری
عشرہ کا اعتکاف ہے جو سنت علی الکفایہ ہے یعنی محلہ میں اگر ایک شخص بھی
اعتکاف کرلے تو سب کے ذمہ سے ساقط ہوجائے گا۔ رمضان المبارک کی بیس تاریخ
کو سورج غروب ہونے سے کچھ پہلے اعتکاف شروع کیا جاتا ہے اور عید کا چاند
نظر آنے تک جاری رہتا ہے۔ اس اعتکاف کے ذریعہ اﷲ تعالیٰ سے تقرب کے ساتھ شب
قدر کی عبادت حاصل ہوجاتی ہے جس میں عبادت کرنا اﷲ تعالیٰ کے فرمان کے
مطابق ہزار مہینوں یعنی ۸۳ سال کی عبادت سے بھی زیادہ بہتر ہے۔ اس لئے کوشش
ہونی چاہئے کہ ہر بڑی مسجد میں کم از کم ایک فرد اعتکاف کرلے، اور اس میں
لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی بھی نہیں ہے۔ اگر کسی جگہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے ایک
بھی شخص اعتکاف نہیں کررہا ہے تو موجودہ صورت حال میں ان شاء اﷲ محلہ والے
سنت چھوڑنے کے مرتکب نہیں کہلائیں گے۔ مرد حضرات کے اعتکاف کے لئے مسجد شرط
ہے، یعنی وہ گھر میں اعتکاف نہیں کرسکتے ہیں، البتہ خواتین اپنے گھر کی اس
خاص جگہ پر جو عموماً نماز وغیرہ کے لئے مخصوص کرلی جاتی ہے، اعتکاف کرسکتی
ہیں۔
مسنون اعتکاف سے متعلق تین احادیث: حضرت ابوسعید خدری رضی اﷲ عنہ فرماتے
ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے رمضان کے پہلے عشرہ میں اعتکاف فرمایا اور پھر دوسرے
عشرہ میں بھی، پھر خیمہ سے جس میں اعتکاف فرمارہے تھے، باہر سر نکال کر
ارشاد فرمایا کہ میں نے پہلے عشرہ کا اعتکاف شب قدر کی تلاش اور اہتمام کی
وجہ سے کیا تھا پھر اسی کی وجہ سے دوسرے عشرہ میں کیا، پھر مجھے کسی (یعنی
فرشتہ) نے بتایا کہ وہ رات آخری عشرہ میں ہے، لہذا جو لوگ میرے ساتھ اعتکاف
کررہے ہیں وہ آخری عشرہ کا بھی اعتکاف کریں۔ (بخاری مسلم) حضرت عائشہ رضی
اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرماتے
تھے، وفات تک آپ کا یہ معمول رہا۔ (بخاری ومسلم) حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ
سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ ہر رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرماتے تھے لیکن
جس سال آپ ﷺ کی وفات ہوئی اس سال آپ ﷺ نے بیس دن کا اعتکاف فرمایا۔ (بخاری)
اعتکاف کے بعض اہم مسائل واحکام: معتکف کو بلا ضرورت شرعیہ وطبعیہ اعتکاف
والی مسجد سے باہر نکلنا جائز نہیں ہے۔ معتکف کے متعلقین میں سے کوئی سخت
بیمار ہوجائے یا کسی کی وفات ہوجائے یا کوئی بڑا حادثہ پیش آجائے یا معتکف
خود ہی سخت بیمار ہوجائے یا اس کی جان ومال کو خطرہ لاحق ہوجائے تو معتکف
کے مسجد سے چلے جانے سے اعتکاف ٹوٹ جائے گا لیکن ایسی مجبوری میں چلے جانے
سے گنا ہ نہیں ہوگا ان شاء ا ﷲ، البتہ بعد میں قضا کرلینی چاہئے۔
عید الفطر کے احکام ومسائل: اسلام نے عید الفطر کے موقع پر شرعی حدود کے
اندر رہتے ہوئے مل جل کر خوشیاں منانے کی اجازت دی ہے۔ احادیث میں وارد ہے
کہ حضور اکرم ﷺ جب ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لے گئے تو وہاں دیکھا کہ
لوگ دو دنوں کو تہوار کے طور پر مناتے ہیں۔ آپ ﷺنے جب اہل مدینہ سے دریافت
کیا کہ یہ دو دن کیسے ہیں جن میں وہ کھیل کود میں مشغول رہتے ہیں اور
خوشیاں مناتے ہیں، تو انصار نے جواب دیا کہ ہم لوگ زمانۂ قدیم سے ان دونوں
دنوں میں خوشیاں مناتے چلے آرہے ہیں۔ یہ سن کر حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا
کہ اﷲ تعالیٰ نے تمہارے لئے ان دودنوں سے بہتر دو دن مقرر فرمائے ہیں،ایک
عید الفطر اور دوسرا عید الاضحی۔ (ابوداود) عید الفطر کے دن روزہ رکھنا
حرام ہے جیساکہ حضور اکرم ﷺ کے ارشادات میں وارد ہوا ہے۔ عید کے دن غسل
کرنا، مسواک کرنا، حسب استطاعت اچھے کپڑے پہننا، خوشبو لگانا، صبح ہونے کے
بعد عید کی نماز سے پہلے کھجور یا کوئی میٹھی چیز کھانا، عید کی نماز کے
لئے جانے سے پہلے صدقۂ فطر ادا کرنا، ایک راستہ سے عیدگاہ جانا اور دوسرے
راستے سے واپس آنا، نماز کے لئے جاتے ہوئے تکبیر کہنا (اَللّٰہُ اَکْبَر،
اَللّٰہُ اَکْبَر،لَا اِلہَ اِلَّا اللّٰہ، وَاللّٰہُ اَکْبَر، اَللّٰہُ
اَکْبَر، وَلِلّٰہِ الْحَمْد) یہ سب عید کی سنتوں میں سے ہیں۔حضور اکرمﷺ
عید الفطر میں نماز سے پہلے کچھ کھاکر جاتے تھے اور عید الاضحی میں بغیر
کھائے جاتے تھے۔ (ترمذی) عید الفطر کے روز نماز عید سے قبل نماز اشراق نہ
پڑھیں۔ (بخاری ومسلم) لاک ڈاؤن کے جاری رہنے پر عید الفطر کی نماز بھی جمعہ
کی طرح گھروں میں ادا کی جاسکتی ہے، جس کے لئے امام کے علاوہ تین افراد
کافی ہیں۔
نماز عید الفطر: عید الفطر کے دن دو رکعت نماز جماعت کے ساتھ بطور شکریہ
ادا کرنا واجب ہے۔ عید الفطر کی نماز کا وقت طلوع آفتاب کے بعد سے شروع
ہوجاتاہے، جو زوال آفتاب کے وقت تک رہتاہے، مگر زیادہ تاخیر کرنا مناسب
نہیں ہے۔ عید الفطراور عید الاضحی کی نماز میں زائد تکبیریں بھی کہی جاتی
ہیں جن کی تعداد میں فقہاء کا اختلاف ہے، البتہ زائد تکبیروں کے کم یا
زیادہ ہونے کی صورت میں امت مسلمہ نماز کے صحیح ہونے پر متفق ہے۔ ۸۰ ہجری
میں پیدا ہوئے مشہور فقیہ ومحدث حضرت امام ابوحنیفہؒ نے ۶ زائد تکبیروں کے
قول کو اختیار کیا ہے، جس کے صرف تین دلائل پیش خدمت ہیں:حضرت سعید بن
العاص رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اﷲ عنہ اور
حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اﷲ عنہ سے سوال کیا کہ رسول اﷲﷺ عیدالاضحی اور
عید الفطر میں کتنی تکبیریں کہتے تھے؟ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اﷲ عنہ نے
جواب دیا: چار تکبیریں کہتے تھے جنازہ کی تکبیروں کی طرح۔حضرت حذیفہ رضی اﷲ
عنہ نے (حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اﷲ عنہ کی تصدیق کرتے ہوئے) کہا کہ انہوں
نے سچ کہا۔ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اﷲ عنہ نے بتایا کہ جب میں بصرہ میں
گورنر تھا تو وہاں بھی ایسے ہی کیا کرتے تھے۔ (سنن ابی داود۔باب التکبیر فی
العیدین، السنن الکبری للبیہقی ۔باب فی ذکر الخبر الذی قد روی فی التکبیر
اربعاً) احادیث کی متعدد کتابوں میں جلیل القدر صحابی حضرت عبداﷲ بن مسعود
رضی اﷲ عنہ سے عیدین کی چار تکبیریں (پہلی رکعت میں تکبیر تحریمہ کے ساتھ
اور دوسری رکعت میں رکوع کی تکبیر کے ساتھ) منقول ہیں۔ امام طحاوی ؒ فرماتے
ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ کی وفات کے بعد تکبیرات جنازہ کی تعداد میں اختلاف ہوا ۔
حضرت عمر فاروق ؓ کے عہد خلافت میں حضرات صحابۂ کرام نے باہمی غوروخوض کے
بعد اس امر پر اتفاق کیا کہ جنازہ کی بھی چار تکبیریں ہیں نماز عیدالاضحی
اور عید الفطر کی چار تکبیروں کی طرح (پہلی رکعت میں تکبیر تحریمہ کے ساتھ
اور دوسری رکعت میں رکوع کی تکبیر کے ساتھ) ۔ (طحاوی ۔ التکبیر علی الجنائز
کم ہو؟) غرضیکہ عہد فاروقی میں اختلافی مسئلہ"تکبیراتِ جنازہ" کو طے شدہ
مسئلہ "تکبیراتِ عید" کے مشابہ قرار دے کر چار کی تعین کردی گئی۔
نمازِ عید کے لئے اذان واقامت نہیں: نماز جمعہ کے لئے اذان اور اقامت دونوں
ہوتی ہیں۔ عیدالفطر اور عید الاضحی کی نمازوں کے لئے اذان اور اقامت دونوں
نہیں ہوتی ہیں۔ حضرت جابر بن سمرہ رضی اﷲ
عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نماز عیدین حضور اکرم ﷺ کے پیچھے بار بار پڑھی ہے
مگر اذان اور اقامت کے بغیر۔ (مسلم) نمازجمعہ کے لئے جو شرائط ہیں وہی
عیدین کی نماز کے لئے بھی ہیں، یعنی جن پر نماز جمعہ ہے انہی پر نماز عیدین
بھی ہے، جہاں نماز جمعہ جائز ہے وہیں نماز عیدین بھی جائز ہے۔ جس طرح جگہ
جگہ نماز جمعہ ادا کیا جاسکتا ہے اسی طرح ایک ہی شہر میں مختلف جگہوں بلکہ
لاک ڈاؤن جیسے حالات میں گھروں میں بھی نماز عیدین ادا کرسکتے ہیں۔
نمازِ عید پڑھنے کاطریقہ: سب سے پہلے نماز کی نیت کریں۔ نیت اصل میں دل کے
ارادہ کا نام ہے، زبان سے بھی کہہ لیں تو بہتر ہے کہ میں دو رکعت واجب نمازِ
عید چھ زائد تکبیروں کے ساتھ پڑھتا ہوں۔ پھر اﷲ اکبر کہہ کر ہاتھ باندھ لیں
اورسبحانک اﷲم ۔۔۔ پڑھیں۔ اس کے بعد تکبیر تحریمہ کی طرح دونوں ہاتھ کانوں
تک اٹھاتے ہوئے تین مرتبہ اﷲ اکبر کہیں، دو تکبیروں کے بعد ہاتھ چھوڑدیں
اور تیسری تکبیر کے بعد ہاتھ باندھ لیں۔ ہاتھ باندھنے کے بعد امام صاحب
سورۂ فاتحہ اور سورت پڑھیں مقتدی خاموش رہ کر سنیں۔ اس کے بعد پہلی رکعت
عام نماز کی طرح پڑھیں۔ دوسری رکعت میں امام صاحب سب سے پہلے سورۂ فاتحہ
اور سورت پڑھیں مقتدی خاموش رہ کر سنیں۔ دوسری رکعت میں سورت پڑھنے کے بعد
دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھاکر تین مرتبہ تکبیر کہیں۔ پھر اﷲ اکبر کہہ کر رکوع
کریں اور باقی نماز عام نماز کی طرح مکمل کریں۔ نماز عید کے بعد دعا مانگ
سکتے ہیں لیکن خطبہ کے بعد دعا مسنون نہیں ہے۔
خطبہ عید الفطر: عید الفطر کی نماز کے بعد امام کا خطبہ پڑھنا سنت ہے، خطبہ
شروع ہوجائے تو خاموش بیٹھ کر اس کو سننا چاہئے۔ جو لوگ خطبہ کے دوران بات
چیت کرتے رہتے ہیں یا خطبہ چھوڑکر چلے جاتے ہیں وہ صحیح نہیں کرتے ہیں۔ لاک
ڈاؤ ن میں مختصر نماز پڑھائی جائے اور مختصر خطبہ دیا جائے۔ دیکھ کر بھی
خطبہ پڑھا جاسکتا ہے۔ اگر کسی جگہ کوئی خطبہ نہیں پڑھ سکتا ہے تو خطبہ کے
بغیر بھی نماز عید ہوجائے گی کیونکہ عید کا خطبہ سنت ہے فرض نہیں۔ قرآن
کریم کی چھوٹی سورتیں بھی خطبہ میں پڑھی جاسکتی ہیں۔ جمعہ کی طرح دوخطبے
دئے جائیں، دونوں خطبوں کے درمیان تھوڑی دیر کے لئے امام صاحب ممبر یا کرسی
وغیرہ پر بیٹھ جائیں۔
نماز عید کے بعد عید ملنا: نمازِ عید سے فراغت کے بعد گلے ملنا یا مصافحہ
کرنا عید کی سنت نہیں ہے، نیز ان دنوں کورونا وبائی مرض بھی پھیلا ہوا ہے،
اس لئے نماز عید سے فراغت کے بعد گلے ملنے یا مصافحہ کرنے سے بچیں کیونکہ
احتیاطی تدابیر کا اختیار کرنا شرعیت اسلامیہ کے مخالف نہیں ہے۔
|