#آگہی
"رویے نہیں, سوچ بدلیے"
رویوں کی عمارت سوچ جسے انگریزی میں "attitude " بھی کہہ سکتے ہیں کی
اینٹوں سے بنتی ہے.. جیسی یہ اینٹیں ہوں گی عمارت بھی ویسی ہی نظر آئے گی..
پابندی کے باوجود نماز مسجد میں پڑھنے پر بضد ہونا ایک رویہ ہے
جلوس پر پابندی کے باوجود جلوس نکالنا اور اس میں زامل ہونا ایک رویہ ہے..
پابندی کے باجود غیر ضروری طور پر گھر سے نکلنا, بازار جانا بھی ایک رویہ
ہے..
ان تمام رویوں کے پیچھے کوئی نہ کوئی مخصوص سوچ ہے جیسا کہ
نماز مسجد میں جا کر ہی پڑھنی چاہیے اگر ایسا کرتے ہوئے کوئی بیماری لگ گئی
اور جان بھی چلی گئی تو یہ ایک سعادت کی موت ہو گی...
جلوس میں شامل ہونے سے وبا کا شکار ہو کر جان سے گئے تو یہ بھی شہادت کی
موت ہو گی..
گھر میں قید ہو کر نہیں رہنا چاہیے وبا ایک عالمی سازش ہے ہمیں اس کا شکار
ہو کر اپنی زندگی کو مفلوج نہیں بنانا چاہیے..
آپ نے دیکھا کہ کس طرح ہمارا طرزِ فکر ہمارے رویوں کو نمو پانے میں مددگار
ہوتا ہے..
یعنی اگر ہمیں لوگوں کو مسجد اور جلوس میں جانے سے روکنا ہے یا کسی بھی وجہ
سے گھر سے نکلنے سے باز رکھنا ہے تو ہمیں اس سوچ کو بدلنا ہو گا جو ان
رویوں کو جنم دیتی ہے..
اور سوچ میں بدلاو لانے کا بہترین ذریعہ اعتدال کو اپنے اعمال کی اساس
بنانے میں ہے.. خیر اور بھلائی کی تمام منازل کی گزرگاہ اعتدال ہی ہے.. اور
اعتدال کی راہ پر گامزن ہونے کے لیے علم کا ہاتھ تھامنا ازحد ضروری ہے..
یاد رہے اگر پڑھے لکھے ہونے کے باوجود آپ کی سوچ کا دامن اعتدال سے خالی ہے
تو آپ محض پڑھنا لکھنا ہی جان سکے ہیں, علم آپ کی پہنچ سے ابھی دور ہے..
اس کو اگر طب کی زبان میں سمجھیں تو سوچ مرض کی وجہ ہے اور رویے اس مرض کی
علامات ہیں..
اور یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ مرض کی مستقل بیخ کنی کے لیے اس کی علامات کا
نہیں بلکہ اس کی وجہ کا خاتمہ ضروری ہوتا ہے...
زور زبردستی سے علامات کا خاتمہ وقت وسائل اور انرجی کے ضیاع کے سوا کچھ
بھی نہیں ہوتا کیونکہ مرض کی وجہ کے موجود رہنے سے اس کے لوٹ آنے کا خدشہ
اور خطرہ ہمیشہ منڈلاتا رہتا ہے..
میں نے مثال کے طور پر تازہ ترین رویے لیے ہیں.. آپ اس میں درپیش مسئلے کے
مطابق کسی بھی رویے کو رکھ کر دیکھ لیں اس کی اساس "طرزِ فکر" پر ہی قائم
ہو گی
لہذا اگر آپ اپنے اندر یا معاشرے میں سچ مچ کچھ بدلنا چاہتے ہیں تو فقط
اپنے اور دوسروں کے طرزِ فکر کو اعتدال پہ لے آئیے..
طالبِ دعا
اسد.
|